بندے چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے یادیں اور باتیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اپنی ایک دو شناسا نسلوں کے دلوں میں دکھ کی ٹیس بن کر جیتے ہیں۔ پھر قبرستانوں کے درمیان کسی لوح پر لکھا ہوا ایک ایسا نام بن کر رہ جاتے ہیں جسے پڑھ کر کسی زندہ آدمی کو کمی کا احساس ہوتا ہے نہ دل میں درد کی کوئی لہر اٹھتی ہے۔ نظام صدیقی کے سوا تین چار نام ہی ایسے ہوں گے جن کی وجہ سے کراچی مجھے لاہور جیسا لگتا تھا۔ ایک اعتبار سے وہ میری صحافتی زندگی کا بنیادی کردار تھا۔ میں نے 1964-65ء میں اپرنٹس سب ایڈیٹر کے طور پر روزنامہ انجام کراچی سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ مجھے میگزین سیکشن میں ڈیوٹی ملی۔ میں ایک ڈائری لکھنے کے علاوہ انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ بھی کرتا تھا اور تقریباً روز میرا نام شائع ہوتا تھا۔ نظام صدیقی نیوز روم میں سب ایڈیٹر تھا۔ کچھ عرصے میں ہماری معمول کی علیک سلیک دوستی میں بدل گئی۔ وہ دن کی شفٹ میں آتا تو شام کے وقت ہم دونوں مٹر گشت کرتے اور چائے پینے کیلئے باہر نکل جاتے۔ یہ مصروفیت دو تین گھنٹے جاری رہتی۔ تھوڑے ہی عرصے میں نظام صدیقی نے مجھے اس بات پر قائل کر لیا کہ مجھے مضمون نویسی کی بجائے نیوز سیکشن کا کام سیکھنا چاہئے۔ وہ تقریباً ہر روز مجھے سمجھایا کرتا تھا کہ اخبار میں نام چھپوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تمہیں کل نکال دیا جائے تو کوئی اخبار تمہیں نوکری نہیں دے گا۔ اس کے برعکس اچھے سب ایڈیٹر بن گئے تو 323 روپے ماہوار کے مستقل ’’کاریگر‘‘ بن جاؤ گے۔ یہاں سے نکلے تو کان پر قلم رکھ کر جہاں بھی جاؤ گے 323 روپے کی نوکری تمہیں بغیر سفارش مل جائے گی۔ اس زمانے میں سب ایڈیٹر کی مجموعی ماہوار تنخواہ323 روپے ہوا کرتی تھی۔ میں نے ’’کاریگر‘‘ بننے کیلئے شوکت صدیقی صاحب (وہ ’’انجام‘‘ کے نیوز ایڈیٹر تھے) سے اپنی ڈیوٹی کے بعد نیوز روم میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے کی اجازت لی۔ شوکت صاحب مجھ پر خصوصی شفقت کیا کرتے تھے۔ میں نظام صدیقی کی رہنمائی میں چند ماہ میں اچھا ’’کاریگر‘‘ بن گیا اور مجھے اس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا کہ میگزین سیکشن سے تبدیل کرکے نیوز روم میں لگا دیا گیا۔ رات کی مستقل شفٹ میرا مقدر بنی۔ نظام رات کی شفٹ کا مستقل حصہ تھا۔ ساڑھے نو بجے یا دس بجے کھانے کے وقفے میں وہ، میں، شفیع ادبی اور عبدالواحد پراچہ ایک قریبی ریستوران میں کھانا کھانے جایا کرتے تھے۔ ’’انجام‘‘ نیشنل پریس ٹرسٹ کا اخبار تھا۔ ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے دوران ہم ’’حسب الحکم‘‘ محترمہ کی تقریریں اور خبریں TWIST کرکے اپنی تنخواہ حلال کیا کرتے تھے لیکن ’’اشتراکی عشائیہ‘‘ (یہ نام نظام صدیقی کی تخلیق تھا کیونکہ ہم چاروں کو باری باری بل دینا ہوتا تھا) کے وقفے میں ایوب خان کے خلاف کھل کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک عارضی مہمان نے جو حکومت کا کٹر حامی تھا انتظامیہ سے ہماری شکایت کی کہ ہم ایوب خان کے خلاف بہت نازیبا باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں نوکری سے چھٹی کرانے کا حکم صادر ہوا۔ بچنا بڑا مشکل نظر آتا تھا لیکن نظام، شفیع ادبی اور عبدالواحد پراچہ کیلئے منہاج برنا کی دھمکی کام آ گئی (وہ اس وقت کراچی یونین آف جرنلسٹ کے صدر تھے) اور میں شوکت صدیقی صاحب کی وجہ سے بچ نکلا۔ بعد میں ہم نے اپنا معمول تو نہیں چھوڑا اور ایوب خان کی ’’مدح سرائی‘‘ جاری رکھی لیکن ’’اشتراکی عشائیہ‘‘ میں غیروں کی مہمان نوازی بند کر دی۔
نظام صدیقی اکھڑ مزاج اور جذباتی آدمی تھا، اس لئے اس کے صحافتی کیرئیر کا تسلسل بار بار ٹوٹا اسے اپنے غصے پر قابو نہیں رہتا تھا۔ بھٹو دور میں اس کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کی قیام گاہ پر ایک دعوت میں خاص طور پر اس لئے بلایا گیا کہ بھٹو اسے اپنے اچھے دوستوں میں شمار کرتے تھے۔ اس دور میں نسیم احمد سیکرٹری اطلاعات تھے۔ کسی نامعلوم وجہ سے نسیم احمد اور نظام صدیقی کے درمیان اللہ واسطے کا بیر تھا۔ دعوت میں دونوں آمنے سامنے ہوئے تو نسیم احمد نے کوئی ناپسندیدہ بات کہہ دی۔ جواب میں نظام نے نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ گلاس اٹھا کر نسیم احمد کو دے مارا۔ وزیراعظم کے سٹاف کا ایک رکن درمیان میں آ گیا اور نسیم احمد کی بجائے اسے چوٹ لگی اور خون بہہ نکلا۔ بھٹو صاحب جیسے منتظم کیلئے یہ واقعہ بہت سنگین تھا لیکن انہوں نے نظام کو فوری طور پر واپس بھجوانے کے سوا کوئی سزا نہیں دی۔سندھ کی انتخابی مہم میں نظام مسلسل بھٹو صاحب کے ساتھ رہا۔ انتخابات کے بعد میں نے ایک ملاقات میں اس سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت تک جھگڑے شروع نہیں ہوئے تھے۔ نظام صدیقی کہنے لگا۔
’’ میں کوئی نتیجہ نکال کر نہیں دکھاؤں گا لیکن ایک بات سن لو جب ہم سندھ کے انتخابی دورے پر تھے تو بھٹو صاحب بخار کی حالت میں بھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جلسوں، جلوسوں اور سفر میں مصروف رہتے تھے۔ ایک صبح 6 بجے کے قریب ہم ایک جلسے سے واپس آ کر چائے پی رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اتنی محنت اور مشقت سے کس صلے کے متمنی ہیں۔ بھٹو صاحب بولے ’’ہم جیتیں گے اور حکومت کریں گے ‘‘۔
نظام صدیقی کچھ عرصہ ’’نوائے وقت‘‘ سے بھی منسلک رہا۔ اسی دوران اس نے بھٹو مرحوم کو کراچی پریس کلب میں دعوت دی، جس کا بل بھٹو کی جیب سے ادا ہوا۔ ادارے نے اس بات کو ناپسند کیا اور کہا کہ آپ خود بل نہیں دے سکتے تھے تو ہم سے ادائیگی کروا دیتے۔ یہ بات ہمارے شایان شان نہیں ہے کہ ہمارے نمائندے کی طرف سے دعوت کا بل خود مہمان ادا کرے۔ دوسری بار اُسے جام صادق علی کی وفات کی خبر نہ دینے پر نوائے وقت سے رخصت ہونا پڑا۔ نظام کی جام صاحب مرحوم سے اتنی گہری دوستی تھی کہ اس کی موت کے غم میں اسے تین دن تک یہ خیال ہی نہیں رہا کہ وہ اخبار نویس ہے اور اس کا پہلا فرض خبر دینا ہے۔
نظام صدیقی سے میری آخری ملاقات دو سال پہلے اسلام آباد ائرپورٹ پر ہوئی تھی۔ میں لاہور آ رہا تھا اور وہ کراچی واپس جا رہا تھا۔ دور سے وہ مجھے ایک شناسا سفید ریش بزرگ لگا۔ قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ نظام صدیقی ہے اور اس نے داڑھی رکھ لی ہے۔ پانچ سات منٹ کی گفتگو حال چال پوچھنے تک محدود رہی۔ وہ بہت چاق و چوبند نظر آتا تھا۔ آخری گفتگو کوئی پندرہ دن پہلے ہوئی جب پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر شمیم احمد خان نے مجھے اس کا نیا فون نمبر دیا اور کہا کہ وہ بہت بیمار ہے۔ میں نے اسے فون کیا تو اکھڑے اکھڑے سانسوں میں بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ میرے گردوں کے والو بند ہو گئے ہیں اور حال بہت خراب ہے۔ چند جملوں کے تبادلے کے بعد کہنے لگا مجھے بولنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ میں نے اسے خدا حافظ کہا اور فون بند کر دیا۔ بعد میں مجھے کافی دیر تک محسوس ہوتا رہا کہ وہ آخری خدا حافظ تھا۔
نظام صدیقی دوستوں کا غیر مشروط دوست اور دشمنوں کا بدترین دشمن تھا۔ میرے خیال میں وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ صحافت اور صحافیوں پر داغوں کی بہار کے دور میں بھی جہاں تک مجھے علم ہے اس نے اپنے دامن کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ میری زندگی کا ایک حصہ بھی قبر میں اتر گیا ہے، لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ میں صحافت میں جو کچھ بھی ہوں اور جو کچھ بھی بنا اس کی بنیاد نظام صدیقی کی وہی نصیحت تھی کہ پہلے 323 روپے ماہوار کا کاریگر بنو پھر آگے کی طرف دیکھنا۔میں نے کاریگر بننے کیلئے بہت محنت کی اور پھر آگے کی طرف دیکھتا اور چلتا ہوا چوٹیوں پر پہنچتا گیا۔ صحافت میں آنے والی نئی نسل سب ایڈیٹری کو سزا سمجھتی ہے۔ کس حادثے یا معجزے کے نتیجے میں وہ ایڈیٹر کی کرسی پر جا بیٹھتی ہے اور ساتھ ہی اسے اپنی تحریروں کی اصلاح کیلئے اچھے سب ایڈیٹر بنانے کا اختیار مل جاتا ہے۔ (7فروری 2005ء)