نوازشریف مستعفی ہوں؟ … حذیفہ رحمان
جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہونے کے بعد نوازشریف پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔تمام قوتیں مل کر وزیراعظم نواز شریف کی رخصتی کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ کچھ مخالفین کا خیال ہے کہ وزیراعظم مستعفی نہ ہوئے تو سپریم کورٹ انہیں نااہل قرار دے کر گھر بھیج دے گی۔ مضبوط اعصاب کے مالک نوازشریف مقابلے کے بھرپور موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن میں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ کچھ ساتھیوں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ مستعفی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ قانونی جنگ لڑنے کو ترجیح دی جائے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ اس مرتبہ قانونی جنگ لڑنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ جبکہ مسلم لیگ ن میں دوسری رائے یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو وزارت عظمیٰ اور اپنی ذات کو علیحدہ کردینا چاہئے۔ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوکر وزیراعظم نوازشریف صورتحال کا بہتر سامنا کرسکتے ہیں۔ آگے چل کر اس پر تفصیلی بات کریں گے۔
وزیراعظم نوازشریف نے جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد قریبی رفقاء سے طویل مشاورت کی۔ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کا بتانا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پوری جماعت پریشان تھی مگر نوازشریف کا ہمت اور حوصلہ کسی بھی طرح سے کم نہیں تھا۔ سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سوموار کو ہونے والی سپریم کورٹ آف پاکستان کی سماعت کا انتظار کرنا چاہئے۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان معاملہ ریفرنس کے لئے نیب کو بھیجتی ہے تو بطور وزیراعظم نواز شریف اس کا سامنا کرسکتے ہیں اور تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ اس میں مسلم لیگی رہنماؤں کا خیال ہے کہ مارچ 2018تک کا وقت باآسانی مل جائیگا اور سینیٹ انتخابات کرا کر مسلم لیگ ن عام انتخابات میں چلی جائیگی۔ جبکہ اس کا مزید فائدہ یہ ہوگا کہ چار سال کے دوران شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات بھی آخری سال میں عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے اور مسلم لیگ ن کے لئے انتخاب لڑنا آسان ہوگا۔ جبکہ دوسری صورت میں اگر سپریم کورٹ خود کیس سن کر وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ کرتی ہے تو کوشش کرنی چاہئے کہ اس سارے عمل کو طویل کیا جائے اور اگر سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سنابھی دے تو اسے فل کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے اور فل کورٹ بنچ بنانے کی درخواست دینی چاہئے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس ساری صورتحال میں معاملات کو باآسانی مارچ 2018تک لے کر جایا جاسکتا ہے اور جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے تو اس حکمت عملی سے تمام منصوبے ناکام ہوجائیں گے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین مسلم لیگ ن کے قائد کو یقین دلاتے ہیں کہ سپریم کورٹ ان کو نااہل قرار ہی نہیں دے سکتی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کسی ٹرائل کے بغیر منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اور یہ سب کچھ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ لیکن اس تھیوری سے اختلاف کرنے والے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے کیا وہ دائرہ اختیار میں آتا تھا؟ سپریم کورٹ نے اگر وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تو کوئی قانونی رکاوٹ آڑے نہیں آئے گی۔
جبکہ پارٹی میں کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر سوموار کی سماعت کے بعد معاملہ نیب کو بھیجا جاتا ہے تو ٹھیک ہے، وگرنہ وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔ ان رہنماؤں کی رائے ہے کہ عدالت عظمیٰ سے نااہلی کی صورت میں مسلم لیگ ن کے لئے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائیگی اور ایسی غیر یقینی صورتحال میں اپنا وزیراعظم لے کر آنا آسان نہیں ہوگا۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن نوازشریف کا نام ہے اور اگر عدالتی فیصلے سے نوازشریف نااہل ہوئے تو وزارت عظمی سمیت پوری حکومت کے در و دیوار ہل جائیں گے۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بجائے وزیراعظم نوازشریف کو خود استعفی دے دینا چاہئے اور معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر اپنا وزیراعظم لانا چاہئے۔ ایسے میں وزارت عظمیٰ پر جو غیر یقینی کی تلوار لٹک رہی ہے، کم از کم وہ ختم ہو جائے گی۔ جبکہ انکا یہ بھی خیال ہے کہ وزارت عظمیٰ کے دباؤ سے نکل کر وزیراعظم نوازشریف بہتر طریقے سے یہ جنگ لڑ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مخالف رہنما اس تھیوری کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر نوازشریف کو بطور ممبر اسمبلی نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ اس پر دلیل دی جاتی ہے کہ اگر نوازشریف کی نااہلی کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت رہ جاتی ہے اور وزیراعظم غیر متنازع ہونے سے بچ جاتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ ان رہنماؤں کا یہ بھی خیال ہے کہ اپنے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں رائیونڈ میں بیٹھے ہوئے نوازشریف 2018کی بہتر منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اور 2018میں بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ لوٹ کر اس سفر کا یہیں سے دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں کا یہ بھی خیال ہے کہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر نوازشریف بطور مسلم لیگ ن کے قائد اس سیاسی کیس کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اشد ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت مزید ایک سال قائم رہے اور کسی بھی قسم کے فیصلے سے وزارت عظمیٰ کا منصب متاثر ہونے سے بچ جائے۔ پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ کچھ قوتوں کو یقین ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کسی صورت مستعفی نہیں ہونگے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر پورے نظام کو ہی گھر بھیج دیں گے، لیکن وزیراعظم نوازشریف کے مستعفی ہونے کے غیر مقبول فیصلے سے تمام منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور نوازشریف بطور مسلم لیگ ن کے قائد ہر ہفتے ایک بڑا انتخابی جلسہ کر کے عوامی جے آئی ٹی کا فیصلہ پورے ملک کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔