نواز شریف کا امتحان … وجاہت مسعود
نواز شریف کا قافلہ بالآخر اسلام آباد سے لاہور پہنچ گیا۔ ساٹھ برس پہلے عبدالقیوم خان نے پنڈی سے جہلم تک بتیس میل لمبا جلوس نکالا تھا۔ نواز شریف اور ان کے حامیوں نے اسی راستے پر تین سو کلومیٹر لمبا جلوس نکال کر انتظامی اہلیت، عوامی مقبولیت، رہنما کی ہمت، رفقا کی استقامت اور حامیوں کے والہانہ پن کا نیا پیمانہ تخلیق کر دیا۔ ایک ناخوشگوار حادثہ ضرور پیش آیا، لالہ موسیٰ کے قریب ایک نو سالہ بچہ سیکورٹی گاڑی کی لپیٹ میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ سیکورٹی اہل کاروں کا کام دنیا بھر میں انتہائی ذہنی دباؤ والا تسلیم کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی کے ان گنت خدشات مدنظر رکھنا ہوتے ہیں۔ بے قابو ہجوم کے درمیان گاڑی چلانا ہوتی ہے۔ وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ خیر گزری کہ میاں نواز شریف کے سنجیدہ رفقا نے فوری طور پر مناسب ردعمل دیا۔ کیپٹن صفدر کے فرمودات عالیہ پر البتہ سنجیدگی کی تہمت کبھی دھری نہیں جا سکی۔
1986ء میں لاہور تشریف آوری کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پنجاب کے دورے پر نکلیں۔ تیس برس پہلے حفاظتی اقدامات کا بندوبست ڈھیلا ڈھالا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی گاڑی کیساتھ درجنوں کارکن لٹک جاتے تھے۔ گاڑی کے پائیدان پر فاروق لغاری اور جنرل (ریٹائرڈ) ٹکا خان جیسے معتمد رہنما بھی پاؤں ٹکائے سفر کرتے تھے۔ اس دوران کچھ حادثات ہوئے۔ منہ آئی بات کو بے دھڑک کہہ دینے میں منو بھائی کا شمار عاصمہ جہانگیر کے قبیلے میں ہوتا ہے۔ جیسے آج میاں نواز شریف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اینٹ سے اینٹ بجانے کا حکم جاری کریں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ محل گرانے، فصیلیں توڑنے اور اناج کی بوریوں کا منہ کھولنے کا اعلان فرمائیں۔ جب انہوں نے اس انقلابی پروگرام کے بجائے جمہوری جدوجہد کا عندیہ دیا تو منو بھائی جھلا گئے۔ ایک زوردار کالم لکھا جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا کہ بی بی بے نظیر کو شاید معلوم ہی نہیں کہ لاہور سے لالہ موسیٰ تک کے سفر میں ان کی گاڑی سے لٹکے ہوئے تین افراد نیچے گر کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ منو بھائی کا جذبہ آج بھی سلامت ہے۔ یہی حریت ہمارا اثاثہ ہے۔ سیاسی رہنما کو مگر سوچ سمجھ کر بات کرنا ہوتی ہے۔
لاہور کے اختتامی اجتماع میں میاں نواز شریف کی گفتگو کا حاصل کلام یہ فقرہ تھا کہ وہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی طرف سے آئین میں مجوزہ تبدیلیوں پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ یہاں دو نکات آپ کی توجہ کے محتاج ہیں۔ جب بحران پیدا ہوتا ہے تو پہلا ردعمل بحران کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہر دیوار گر گئی ہے، ہر چراغ بجھ گیا ہے اور ہر امید ختم ہو گئی ہے۔ اس بے بسی سے خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر کچھ بچ گیا ہے تو بھلے وہ بھی تباہ ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی صورت حال ایسی نہیں ہوتی جس سے بہتری کا راستہ نہ نکالا جا سکے۔ میاں رضا ربانی نے ملک میں اقتدار اور اختیار کے تمام سرچشموں کو مل بیٹھنے کی تجویز دی ہے۔ مجھ جیسا بے خبر لکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، ایم کیو ایم پاکستان، اے این پی اور بلوچستان کی اہم سیاسی جماعتوں کو اس تجویز سے اختلاف نہیں ہو گا۔ لیکن یہ تجویز اپنے اندر بنیادی سیاسی تبدیلیوں کے بیج رکھتی ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات نیز آئینی اور ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کا جھگڑا پینتالیس برس پرانا ہے۔ ہم نے آئین میں آٹھویں، تیرہویں، چودھویں، سترہویں اور اٹھارہویں ترامیم سمیت متعدد مواقع پر یہ کشمکش طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جو حلقے کئی برس کی محنت شاقہ کے بعد اٹھائیس جولائی کی مٹھائیوں تک پہنچے ہیں کیا انہیں دستور میں پیوست کانٹے نکالنے میں دلچسپی ہو گی۔ جن عالی دماغ ہستیوں نے 1989ء میں بے نظیر بھٹو کو راجیو گاندھی سے ملنے پر سیکورٹی رسک قرار دیا، 1999ء میں نواز واجپائی اعلان لاہور کے پرزے اڑا دئیے، خارجہ امور میں پرویز مشرف کے دست راست نیاز اے نائیک کے قتل کی بھنک نہیں پڑنے دی۔ جنرل محمود درانی کو گھر بھیج دیا۔ 2009ء میں آصف علی زرداری کو بے دست و پا کر دیا۔ یوسف رضا گیلانی کو اسمبلی کے فلور پر کہے گئے ایک جملے کی برسوں پر محیط سزا دی۔ پرویز رشید کو ایرپورٹ سے شاہراہ دستور تک گھسیٹا، نواز شریف کے عزائم کو عدالت عظمی کے بڑے دروازے پر مصلوب کر دیا۔ کیا یہ حلقہ احباب سیاسی اور ریاستی اداروں کو ایک وسیع تر معاہدے کی طرف پیش رفت کی اجازت دے گا؟
سوال صرف آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کا نہیں ہے۔ آئین میں ابہام اور امتیازات کے تمام نشان ختم کرنے کا ہے۔ ابہام کی مدد سے جمہوری قوتوں کا بازو مروڑا جاتا ہے اور امتیاز کی مدد سے قوم کو منتشر رکھا جاتا ہے تاکہ جمہوری قوتوں میں وسیع تر اتفاق رائے کا راستہ مسدود کیا جا سکے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک طرف حافظ سعید سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف شیخ الاسلام طاہر القادری وطن تشریف لاتے ہیں۔ پرویز مشرف صاحب آمریت کو جمہویت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ اڑچن یہ ہے کہ دستور سے ابہام اور امتیاز ختم کر دیا گیا تو اقلیتیں قوم کا حصہ بن جائیں گی، عورتیں ایک خوف زدہ اور مظلوم طبقے کی بجائے برابر کے شہری کی حیثیت سے سر اٹھا پائیں گی۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر والوں میں اناج کے تھیلے بھلے تقسیم نہ ہوں، ان کی پلکوں پر شب و روز کو ہلکا کیا جا سکے گا۔ گائیک کے گیت، شاعر کی نظم اور مصور کی تصویر سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا لیکن اظہار کی آزادی ہو تو قوم کے رگ و پے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ سوالات دستور اور آئین کے مجرد الفاظ سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان سوالات میں ہماری اذیت کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ بنیادی سوال قوم کی اخلاقی توانائی بحال کرنے کا ہے۔ یہ اخلاقی توانائی آزادی، انصاف اور حقوق کے تقاضوں کو تسلیم کرنے سے بحال ہو سکے گی۔ محترم رضا ربانی نے تالاب میں ایک کنکر پھینکا تھا، میاں نواز شریف نے اس پر مثبت رد عمل دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں ہمیں جس کشمکش کا سامنا کرنا ہو گا اس میں عوام کامیاب ہونگے یا تاریکی کی قوتیں ہمیں مفتوح کر لیں گی۔