ن لیگ اب کیا کرے؟ کالم خورشید ندیم
ن لیگ کا مقابلہ تحریکِ انصاف سے نہیں، کسی اور سے ہے۔
آج ن لیگ کا مخمصہ وہی ہے جو1970ء کی دھائی کے آخری ماہ وسال میں پیپلزپارٹی کا تھا۔وہ اپنے حقیقی بیانیے کے ساتھ سیاست نہیں کر سکتی۔پیپلزپارٹی توکسی حد تک اپنی بات کا ابلاغ کر پائی کہ اس کی سیاست کی اساس سندھ کا دیہی علاقہ تھا۔ن لیگ کی مشکل یہ ہے کہ اس کی اساس پنجاب میں ہے۔پنجاب میں یہ بیانیہ اگر مقبول ہوتا ہے تو وفاق شدید خطرات میں گھرجائے گا۔چوہدری نثار علی خان کو اس کا اندازہ ہے۔اسی لیے انہوں نے وقت سے پہلے نوازشریف صاحب کو متنبہ کرنا ضروری سمجھا۔یہ بات خلوت کے بجائے جلوت میں اس لیے کہی کہ سند رہے اوربوقتِ ضرورت کام آئے۔
ن لیگ کے مدِ مقابل بیانیہ پنجاب میں جتنا توانا ہے، کہیں اور نہیں۔برسوں اس کی پرورش کی گئی ہے۔ذہن بنائے گئے ہیں۔مائیں بچوں کو اس کی لوریاں دیتی ہیں۔میڈیا اس کی آب یاری کر تا ہے۔ہیرو سازی کا ایک مسلسل عمل ہے جو ادب سے ابلاغ کے ذرائع تک پھیلا ہوا ہے۔اہلِ مذہب اس بیانیے کے لیے دینی دلائل فراہم کر تے ہیں۔دیانت و امانت اور جرات وبہادری کی داستانوں سے اسے سنوارا گیا ہے۔تاریخ کی ایک متنازع تعبیر ہے جسے نصاب کا حصہ بنا کر اس بیانیے کی پشت پر کھڑا کر دیاگیا ہے۔ نوازشریف جیسا مقبول لیڈر بھی اگر اس بیانیے کوچیلنج کرنے کی جسارت کرے گا تو عبرت کا نشان بنادیا جا ئے گا۔
سیاست کی مجبوری مگر یہ ہے کہ وہ کسی بیانیے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔عمران خان کے پاس ایک بیانیہ ہے۔وہ اس کا ابلاغ کرنے میں کامیاب ہیں۔یہ بیانیہ غیر حقیقی اور ناقابلِ عمل ہے لیکن سیاست میں یہ بات غیر اہم ہے۔یہ عوام کے دلوں کو چھوتا ہے۔بہت سادہ بلکہ ضرورت سے زیادہ سادہ(oversimplified) ہے۔یہ عوامی جذبات کی تسکین کرتا دکھائی دیتا ہے۔سب کو انصاف ملے۔ قانون کی نظر میں سب برا بر ہوں۔کرپشن ختم ہو۔یہ کام ایک دن میں ہو سکتاہے۔اگلے دن عوام کے لیے شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔یہ نہریں بہیں نہ بہیں،کم از کم اس طبقے کے خلاف عوام کو انتقام لینے کا موقع تو ملے گا جو اس کے خیال میں ان کی مشکلات کا سبب ہے۔ یہ بیانیہ قابلِ فہم ہے ، اس لیے مقبول بھی۔
دوسری طرف نوازشریف صاحب کو اقتدار سے الگ کردیا گیا ہے۔یہ سارا عمل بظاہر قانون کے دائرے میں ہواہے۔وہ اس عمل کا حصہ رہے ہیں۔عدالت کی کاروائی کسی بند کمرے میں نہیں، سب کے سامنے ہوئی ہے۔شریف خاندان کے وکلا نے مقدمہ لڑا ہے۔دکھائی یہ دیتا ہے کہ انہیں ہانک کر مقتل میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے اس کی کوئی مزاحمت نہیں کی۔ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سازش ہے مگر اس میں فوج اور عدلیہ شریک نہیں۔حالات کے اس تسلسل میںاوراس موقف کے ساتھ ،کوئی ایسا بیانیہ تلاش کر نا جو ان واقعات کو ایک لڑی میں پرو دے اور اس کے ساتھ عوام کو بھی مطمئن کر دے،جوئے شیر لانا ہے۔ن لیگ کی صفوں میں کیا کوئی فرہاد ہے جو یہ کام کر سکے؟
ایسے مشکل مقامات کہانیوں میں آتے ہیں۔سچ بولیں تو ایک اس کی ایک سزا ہے۔سچ کو چھپائیں تو اس کی ایک قیمت ہے۔ہیرو کو چو مکھی لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔کہانی نگار کے پاس یہ انتخاب ہو تا ہے کہ وہ کرداروں میںسے کسی ایک سے کوئی حماقت سرزد کروادے اوریوں ہیرو کو بچا لے جائے۔حقیقی زندگی کے کرداروں کا معاملہ یہ نہیں۔کم از کم ہیرو کے پاس تو یہ انتخاب نہیں کہ وہ واقعات کو اپنی مرضی سے ڈھال سکے۔اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔تقدیر یا بصیرت۔ تقدیر کا معاملہ ہو توما فوق الاسباب راستہ نکل آتا ہے۔بصیرت میں بھی یہ صلاحیت ہے کہ وہ راستہ بناتی ہے۔مثالی صورت تو دونوں کا امتزاج ہے۔
اس لیے ضروری ہے ن لیگ ایک ایسے بیانیے کے ساتھ سامنے آئے جو ایک طرف اس کے نقطہ نظر کو واضح کرے اور دوسری طرح ملک کو تصادم کی راہ پر نہ ڈالے۔اس کے ساتھ وہ عوام کے لیے بھی قابلِ فہم ہو۔یہ تو واضح ہے کہ اگر وہ اپنے حقیقی موقف کے ساتھ سامنے آتی ہے تواسے سب سے پہلے غداری کے الزام کا سامنا ہوگا۔اس پر اہلِ سیاست اور میڈیا کی یلغار ہو گی اور عین ممکن ہے کہ نوازشریف پرغداری کی سزانافذہوجائے۔غداری وہ الزام ہے کہ دلیل بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ایسی جنگ میں شکست اسی کی ہوتی ہے جو غیر مسلح ہو‘سیاسی جماعتیں اور عوام ہمیشہ غیر مسلح ہو تے ہیں۔
میرے خیال میںیہ بیانیہ ان نکات پر مشتمل ہو ناچاہیے:
1۔استحکام‘ پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اداروں میں تصادم اس استحکام میں حائل ہے۔ اب لازم ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا ئے اور سب اداروں کوآداب کا پابندبنایا جا ئے۔
2۔ ن لیگ پاکستان میں استحکام اور وحدت کی علم بردارہے۔
3۔تیسرا یہ کہ تبدیلی کا راستہ صرف عوامی رائے سے نکلتا ہے اوراس کی واحد آئینی صورت انتخابات ہیں۔ہم انتخابات میں اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے۔احتجاجی سیاست پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے اور ہم یہ راستہ اختیار نہیں کریں گے۔
پہلا نکتہ وضاحت طلب ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ سادہ الفاظ میں اس کا ابلاغ ہو۔عوام کوسمجھایاجائے کہ مسئلہ نوازشریف نہیں، ہر وہ وزیراعظم ہے جو سول بالادستی کا خواب دیکھتا ہے۔ ماضی میں بھٹوتھے، مستبقل میں کوئی اور ہو گا۔اداروں کو کسی تصادم میں الجھے بغیریہ مسئلہ حل کر نا ہے۔1973 ء کے آئین پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جا ئے تو اس تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔ن لیگ بتائے کہ وہ اسی نکتے پر اگلے انتخابات میں حصہ لے گی۔ن لیگ کو ووٹ دینے کا مطلب سول بالادستی کو ووٹ دینا ہوگا۔
عوام کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں،عدم استحکام ہے۔ملک عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں تو کرپشن پھیلتی ہے۔استحکام ہی اداروں کو مضبوط کرتا ہے۔اگر گزشتہ چار سال میں کرپشن کم ہوئی ہے تواس کی وجہ استحکام تھا۔جمہوری عمل کا تسلسل اور فعال ادارے ہی کرپشن کے خاتمے کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔کرپشن مسئلہ کی وجہ نہیں، اس کا نتیجہ ہے۔ن لیگ کو اپنی اصلاح کے لیے بھی بہت کچھ کر نا ہے لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔
یہ بات قومی سالمیت کے لیے خطر ناک ہے کہ کسی قومی جماعت کو دیوار سے لگادیا جائے۔ہماری تاریخ کی نا قابلِ تردیدحقیقت یہ ہے کہ صرف قومی سیاسی جماعتیں ہی ملک کو متحد رکھ سکتی ہیں۔یہ پیپلزپارٹی ہو، تحریکِ انصاف ہو یا ن لیگ، سب کا وجود پاکستان کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے میں’ مائنس ون ‘یا’مائنس چار‘ طرح کے فارمولوں کو غلط سمجھتا ہوں۔اس وقت مسلم لیگ ملک کی واحد جماعت ہے جو چاروں صوبوں کے ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں نمائندگی رکھتی ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔نوازشریف کومصنوعی طور پر ختم کرنے کی کوشش خطرناک ہوسکتی ہے۔
نوازشریف انسانی خرابیوں سے منزہ نہیں ہیں۔اس اعتراف کے ساتھ وہ اس وقت قومی اثاثہ ہیں۔ایسا اثاثہ برسوں کی ریاضت اور تجربات سے وجود میں آتا ہے۔اس کی قدر کی جانی چاہیے۔بے نظیربھٹو اسی طرح کی ریاضت اور تجربات کے بعد جب قومی اثاثہ بنیں تو ہم نے انہیں گنوا دیا۔ہمیں یہ غلطی ایک بار پھر نہیں دہرانی چاہیے۔ماضی کا منفی حوالہ ایک مریضانہ ذہنیت ہے جو اصلاح کے امکانات کو رد کر دیتا ہے۔بطور قوم ہمیں اس سے بچنا اور آج کی بنیاد پر رائے قائم کر نا ہوگی۔میں جانتا ہوں کہ یہ لکھنے کے نیتجے میں کتنی گالیاں میری منتظر ہیں لیکن میرے لیے لازم ہے کہ میں اس سے بے نیاز ہو کر وہ کچھ لکھوں جسے درست سمجھتا ہوں۔