والدہ محترمہ….از جمیل اطہر
میری والدہ محترمہ جن کا نام صدیقن تھا اور جنہیں تمام رشتے دار اور محلہ دار خواتین’’ بی بی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے ، پٹیالہ کے بابو مہر علی کی صاحبزادی تھیں۔ بابو مہر علی ریاست پٹیالہ کی خفیہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ میرے ذہن میں اپنی والدہ کی شخصیت کا جو پہلا تصور ابھرتا ہے وہ اس وقت کا ہے جب ہمارے والد نے قیامِ پاکستان کے موقع پر ہمیں سرہند سے پٹیالہ اپنے نانا کے پاس بھیج دیا تھا ، والدصاحب کا خیال تھا کہ ہمارے نانا کے پولیس میں ہونے کے باعث ہم سرہند کی نسبت پٹیالہ میں زیادہ محفوظ رہیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس ، پٹیالہ کا مہاراجہ کیونکہ سکھ تھا اس لئے اس نے اپنی فوج اور پولیس کو کُھلی چھٹی دے دی کہ وہ مسلمانوں کے خُون سے ہولی کھیلیں۔ ہم بھی اپنے نانا کی حویلی واقع مغلاں دی کھوئی ( مغلوں کا کنواں) میں معمول کے مطابق کھیل کُود میں مصروف تھے ، ہماری نانی رحمت بی بی آٹا گوندھ رہی تھیں کہ ہمارے ماموں شیخ غلام حسین نے جو پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے، اپنے مکان کی چھت پر گولیوں کی بوچھاڑ کی آواز سُن کر ہماری نانی سے کہا اس محلہ میں رہنا اب محفوظ نہیں، اس لئے ہمیں یہ مکان چھوڑ کرکسی دوسرے محلہ میں چلے جانا چاہئے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو چنانچہ افراتفری کے عالم میں سارا خاندان اکٹھاہوگیا اور گوندھا ہوا آٹا وہیں چھوڑ کر آٹے سے آلودہ ہاتھوں کو صاف کئے بغیر ہماری نانی اور اُن کے ساتھ ہم سب اپنی حویلی سے باہر آگئے اور یہاں سے ایک اور محلہ میں چلے گئے ۔ ایک مسلمان کی وسیع و عریض حویلی ہماری منزل بنی جہاں پہلے ہی سینکڑوں مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں نے پناہ لے رکھی تھی ، ہماری خالہ جن کا نام مجیدن تھا سیڑھیوں کے ذریعے نچلی منزل سے دوسری منزل پر جارہی تھیں ، ایک روشن دان سے ایک گولی آئی جس نے ان کو لہو لہان کردیا کچھ لوگوں نے ان کی وہیں مرہم پٹی کردی خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ زخم چند روز میں ہی درست ہوگیا اور یہ گولی ان کے جسم میں ہی رہی اور وہ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصے تک حیات رہیں۔ ابھی ہم اس مکان میں سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ حویلی کے مالک نے یہ اعلان کردیا کہ یہ مکان اب کسی بھی طرح محفوظ نہیں ہے کیونکہ سکھوں کی فائرنگ سے مکان کی چھت پر کئی لوگ شہید ہوگئے ہیں ، ہمارے نانا اورماموں اب ہمیں اس حویلی سے باہر لے آئے اور گرتے پڑتے ہم کسی اور محلے میں پہنچے جہاں ایک ایسی ہی کشادہ حویلی اب ہماری پناہ گاہ بن چکی تھی ۔ یہاں بھی سکون کا سانس لینا نصیب نہ ہوا اور اس اطلاع سے کھلبلی مچ گئی کہ سکھوں کے جتھے قریبی آبادیوں میں دندناتے پھررہے ہیں ، حویلی کے مالک نے خواتین سے کہا کہ سکھ بلوائیوں کے حویلی میں داخل ہونے سے پہلے حویلی کے صحن میں بجلی کی تار کو ہاتھ لگا کر اپنی جانیں دے دیں تاکہ سکھ غنڈوں کے ہاتھوں توہین اور رُسوائی سے محفوظ رہیں ، ہماری والدہ بھی اپنے بچوں کولے کر صحن کی طرف چلیں ، صحن میں داخل ہوتے ہی انہیں خیال آیا کہ مرنے سے پہلے بچوں کو پانی پلادیں وہ صحن کے ایک کونے میں حویلی کے پھاٹک کے قریب نصب پانی کے ایک نل کی طرف بڑھیں ، ابھی وہ پانی پلانہ پائی تھیں کہ ہمارے ماموں شیخ غلام حسین نے ہمیں دیکھ لیا اور وہ ہمیں گھسیٹتے ہوئے صحن سے باہر لے گئے اور اس طرح میری والدہ اور ہم بجلی کی تار کو ہاتھ لگا کر جان دینے کی آزمائش سے محفوظ رہے ۔ ہم نے اگلے دو ہفتے پٹیالہ کے مختلف محلوں اور بازاروں میں مختلف مکانوں اور دکانوں کے اندر چھپ کر گزارے ، سڑکوں پر لاشیں ہی لاشیں دکھائی دیتی تھیں ، ہم دکانوں کے باہر تھڑوں کے نیچے والی نالیوں اور گندے نالوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچاتے رہے اور آگ اور خُون کے اس طوفان سے نکل کر بہادر گڑھ کیمپ (نزد راجپورہ ریلوے سٹیشن) میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں مسلمانوں کے لُٹے پُٹے قافلے سکھوں کی درندگی اور بر بریت کے زخموں کا بوجھ اٹھائے پاکستان جانے کے منتظر تھے ،ہمیں بھی بہادر گڑھ کیمپ میں ایک بیرک میسر آگئی۔
ہم اس بیرک سے باہر پتھروں پر زیادہ تر وقت گزارتے تھے،بیرک کی چھت کی لکڑیاں چولہا روشن کرنے کے کام آچکی تھیں، اس کی چھت کا بچا کھچا حصہ بارش کی صُورت میں سر چُھپانے کے کام آتا تھا ۔ایک روز میری والدہ کے حصے میں جو روٹی آئی وہ اسے ہاتھ میں تھام کر منتظر تھیں کہ اس کا کچھ حصہ اپنے بیٹوں کودے سکیں کہ اچانک ایک کُتا نمودار ہوا اور یہ روٹی ان کے ہاتھ سے چھین کر لے گیا ، اپنی والدہ کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو دیکھ کر ان کے بچوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ بہادر گڑھ کیمپ سے رخصت ہوکر ہم ایک سپیشل گاڑی کے ذریعے راج پورہ ریلوے سٹیشن سے عازم پاکستان ہوئے ۔ یہ ٹرین پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد جھنگ کے قریب شاہ جیونہ ریلوے سٹیشن کے قریب رُکی ٹرین کے مسافروں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ان کے قیام کے لئے اسی جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے ، مسافروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ پٹیالہ سے آئے ہیں جو ایک ریاست کا دارالحکومت ہے اور شاہ جیونہ ایک قصبہ بھی نہیں بلکہ گاؤں ہی ہے ۔ اس لئے وہ شاہ جیونہ میں نہیں اتریں گے ۔ یہ گاڑی دو تین روز شاہ جیونہ میں ہی رُکی رہی اور پھر کہیں جا کر یہ فیصلہ ہوا کہ یہ ٹرین اب جھنگ جائے گی اور اس ٹرین کے مسافر جھنگ میں آباد ہوں گے جو ایک ضلعی صدر مقام ہے ۔ ہم بھی اپنے نانا اور اپنے ماموں کے ساتھ ریل سے اتر کر مگھیانہ چلے گئے۔ جھنگ اور مگھیانہ دو جڑواں شہر ہیں مگھیانہ کو اب جھنگ صدر اور جھنگ کو اب جھنگ شہر کہا جاتا ہے۔ پٹیالہ سے پاکستان آنے والوں نے انہی دو جڑواں شہروں میں رہائش اختیار کی البتہ جو دوسری ٹرین پٹیالہ کے مسلمانوں کو لے کر پاکستان آئی اس کے مسافروں کو خوشاب پہنچایا گیا ، ان لوگوں نے زیادہ تر خوشاب میں رہائش اختیار کی پھر وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں میں منتقل ہوتے چلے گئے ۔
مہاجرین کو جھنگ اور مگھیانہ میں مکانوں کی الاٹمنٹ شروع ہوچکی تھی ۔ یہ وہ مکان تھے جو ہندوؤں اور سکھوں کے ہندوستان چلے جانے سے خالی ہوئے تھے ۔ ہمارے نانا کو الاٹمنٹ کے گورکھ دھندے سے کوئی سروکار نہ تھا ہم مگھیانہ میں ایک ایسی جگہ پر خانہ بدوش کی طرح بیٹھے ہوئے تھے جس کے قریب ایک گندا نالہ بہتا تھا اور یہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات تھی ۔ ہمارے پاس پہننے کو کوئی کپڑا تھا اور نہ کھانے کے لئے کوئی چیز ، صرف وہی پھٹے پُرانے کپڑے تھے جو تن پر تھے ۔ ہمارے نانا جو انسپکٹر پولیس ہونے کے باعث انگریزی لباس پہنتے تھے اب دھوتی اور کُرتے میں ملبوس تھے ، انہوں نے پاکستان بننے کے بعد نہ صرف یہ کہ پولیس کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا بلکہ انگریزی لباس بھی زیب تن نہ کیا ،دھوتی اور کُرتا ہی انہیں مرغوب رہا ۔
خیر ذکر ہورہا تھا والدہ محترمہ کا ، ہمارے والد قاضی سراج الدین سرہندی جو سرہند سے ہجرت کرکے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ چکے تھے ، یہ قصبہ جھنگ سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر تھا۔ انہیں جب یہ خبر ملی کہ پٹیالہ کے مہاجرین کی ایک ٹرین جھنگ پہنچی ہے تو وہ ہماری تلاش میں جھنگ آگئے اور بالآخر انہیں گندے نالے کے کنارے بیٹھے ہوئے اپنے کُنبے کا سراغ مل گیا۔ میں ان لمحوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب میں نے دُور سے اپنے والد محترم کو دیکھا جوہماری طرف آرہے تھے ، میں بھاگ کر اپنے والد کی ٹانگوں سے لپٹ گیا ۔ مسرت سے والد صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں، میرے نانا نے والد صاحب سے کہا میں پٹیالہ سے کوئی زیور لاسکا نہ کوئی روپیہ پیسہ لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آگ اور خون کے سمندر کو پا ر کرکے تمہاری امانت پاکستان لانے میں کامیاب رہا ، یہ امانت میری والدہ اور ہم تین بھائی تھے۔ والد صاحب میرے نانا ، نانی ، خالہ ، خالو ماموں، اور ماموں زاد بھائی سمیت جھنگ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے گئے ۔ ہمارے دادا کو پہلے ہی ایک بڑا مکان الاٹ ہوچکا تھا جہاں میرے والد تایا اور چچا رہائش پذیر تھے ۔ ہمیں بھی اس مکان کی بالائی منزل پر دو کمرے رہائش کے لئے ملے اور میرے نانا کو بھی اس محلے میں رہائش کے لئے ایک مکان کی الاٹ منٹ کا پروانہ مل گیا۔
میری والدہ ہجرت کے سفر کی صعوبتوں سے بہت بے حال تھیں، جب تک وہ بہادر گڑھ کیمپ میں رہیں انہوں نے ہمت نہ ہاری لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچتے ہی انہیں شدید بیماری نے آلیا اور بخار نے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا چیچک کی شکل اختیار کرلی ۔ چیچک کے باعث ہم بچوں کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔ انہیں ایک کمرے میں الگ تھلگ رکھا جاتا تھا ، ان کا کھانا ان کے کمرے کی دہلیز پر رکھ دیا جاتا تھا ۔ کافی عرصے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت سے نوازا تو ہمیں اپنی والدہ کی محبت میسر آئی ۔ یہ ہمارے خاندان کے لئے آزمائش کے دن تھے اور سارا کنبہ ایک نئی دنیا آباد کرنے کی تگ و دو کررہا تھا ۔ میری والدہ بھی اس جدوجہد میں میرے والد کی معاون بنی ہوئی تھیں۔ والد صاحب نے مکان کے نچلے حصے میں کپڑا بُننے والی چند کھڈیاں لگائی تھیں ان کھڈیوں کے لئے سُوت کی نالیاں میری والدہ تیار کرتی تھیں۔ جُوں جُوں کام بڑھتا گیا میری والدہ پر بھی کام کا بوجھ بڑھتا چلا گیا ۔ ان دنوں بعض اوقات ہمارے گھر میں کھانا بھی نہیں پکتا تھا۔ والد صاحب کی خودی اورخودداری کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی سے ادھار لیتے تھے نہ کسی کو اپنی اصل حالت سے آگاہ کرتے تھے۔ میری والدہ بعض اوقات دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دیتی تھیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ ہمارے گھر میں چولہا روشن نہیں ہے۔
میری والدہ کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے بہت تاثیر بخشی تھی ، جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کوئی کالج نہیں تھا ، میر ی خواہش تھی کہ میں گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لوں ۔ میرے والد صاحب جو کھڈیوں کا کاروبار ترک کرکے اب اپنے گھر میں ہی اپنے بڑے بھائی قاضی نصیر الدین سرہندی مرحوم کے ساتھ مل کر کپڑے کی دُکان کررہے تھے کیونکہ اب تک جو کچھ وہ کماتے رہے تھے وہ اپنے والد قاضی محمد اصغر سرہندی مرحوم کی خدمت میں پیش کردیتے تھے جن کی ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ میں دوکاٹن جننگ فیکٹریاں تھیں۔ کاٹن جننگ کا کاروبار اچانک شدید کساد بازاری کی لپیٹ میں آگیا اور کاروباری گھاٹے کے باعث گوجرہ کی فیکٹری ایک اور حصہ دار شیخ محمد افضل کو فروخت کرنا پڑی۔ میرے والدین کے پاس مجھے لائل پور بھیجنے کے لئے کرایہ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ میں اپنے طالب علمی کے دور میں ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کئی اخبارات کا نامہ نگار بن چکا تھا ۔ ان اخبارات میں انگریزی کا معروف اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘’’امروز‘‘ لاہور اور ’’تعمیر‘‘ راولپنڈی بھی شامل تھے جس سے ماہانہ معقول معاوضہ مل جاتا تھا ۔ میں سول اینڈ ملٹری گزٹ ، امروز اور تعمیر سے ملنے والا معاوضہ اپنی والدہ کے پاس جمع کراتا رہتا تھا ۔ جب مجھے لائل پور جانے کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑی تو یہ معلوم ہوا کہ شدید ضرورت کے باعث والد صاحب یہ رقم خرچ کرچکے تھے ۔ اتفاق یہ ہواکہ والد صاحب کے خراب حالات کے باعث میرے چچا قاضی علاؤالدین نے جو لائل پور میں رہتے تھے اور جھنگ بازار میں ان کی دُکان تھی ، اپنے ایک پڑوسی کی جنرل مرچنٹ کی دُکان میں والد صاحب کے لئے کاروباری شراکت کا اہتمام کیا جس پر ہمارا کُنبہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور منتقل ہوگیا۔ میں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور اپنے تعلیمی اخراجات پُورے کرنے کے لئے روز نامہ ’’آفاق ‘‘لائل پور میں جو معروف صنعت کار سعیدسہگل کی ملکیت تھا 120 روپے ماہانہ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے پارٹ ٹائم ملازمت کرلی ۔ میں نے اپنی والدہ کو جب یہ خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ میں تو اس دن خوش ہوں گی جب تمہیں ڈیڑھ سو روپے ملنے لگیں گے۔ تین ماہ بعد جب میں ’’آفاق ‘‘ میں کام کررہا تھا تو جڑانوالہ کے نامہ نگار نے یہ خبر لکھوائی کہ وہاں ایک عورت نے اولاد کے حصول کی خاطر کسی بچے کو قتل کرکے کسی غیر آباد جگہ پر اس کے خُون سے غسل کیا ہے ۔ نامہ نگار نے خبر تو لکھوادی لیکن اس کے پاس عورت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی کہ وہ کون ہے ، کس گاؤں کی رہنے والی ہے ، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے یا نہیں۔ میں نے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مصطفی صادق کو یہ پیش کش کی کہ اگر صبح کے دوسرے اخبارات میں یہ خبر شائع نہ ہو تو میں جڑانوالہ جا کر اس واقعہ کی تفصیلات حاصل کرسکتا ہوں۔ انہوں نے اس کی اجازت دے دی اور صبح لائل پور کے دیگر اخبارات میں یہ خبر نہ پاکر میں ’’آفاق‘‘ کے منیجر حافظ بشیر سہیل جو جڑانوالہ کے رہنے والے تھے کی معیت میں جڑانوالہ چلا گیا جہاں ہم نے دن بھر بھاگ دوڑکرکے اس درد ناک واقعہ کی تفصیلات جمع کیں۔ ہم رات گئے کوئی بس دستیاب نہ ہونے کے باعث ایک ٹرک سے لفٹ لے کر لائل پور واپس پہنچے ۔اس رُوح فرساسانحہ کی خبر جب ’’آفاق ‘‘ میں شائع ہوئی تو اس کا بہت چرچا ہوا اور مقامی اخباری حلقوں میں میرا نام نمایاں ہونے لگا ۔ ’’ آفاق‘‘ کے ایجنٹوں اور نمائندوں نے اس خبر کو سراہا اور اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہوا۔ ’’آفاق ‘‘ کے منیجنگ ایڈیٹر(سابق ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ پنجاب) میر نور احمد نے اس خبر پر میری تحسین کی اور تنخواہ میں تیس روپے اضافہ کردیا۔ میں نے یہ خوشخبری اپنی والدہ کو دی جو یہ سُن کر بہت خوش ہوئیں اور اب ان کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ میں تو اس دن خوش ہوں گی جب تمہیں دوسو روپے ملیں گے ۔ کچھ ماہ بعد میری ایک خبر کی سُرخی پر خوش ہو کر اخبار کے مینجنگ ایڈیٹر نے میری تنخواہ50 روپے بڑھا دی اور مجھے 200 روپے ملنے لگے ، یہ سرخی تھی ’’ خیالی جھلکیاں شائع کرنے پر اسمبلی سے رپورٹرکا اخراج‘‘ اس خبر کا پس منظر یہ تھا کہ اسمبلی کے ارکان نے سپیکر سے شکایت کی کہ روز نامہ’’کوہستان‘‘ کے چیف رپورٹر سعادت خیالی اسمبلی کی کارروائی کی جھلکیاں خود ہی لکھ لیتے ہیں اور جن باتوں کا اسمبلی میں کوئی ذکر تک نہیں ہوتا انہیں جھلکیوں کا حصہ بنالیتے ہیں ۔ سعادت خیالی کے نام کے پس منظر میں خیالی جھلکیوں کی سرخی ہمارے منیجنگ ایڈیٹر کو اتنی پسند آئی کہ انہوں نے میری تنخواہ میں پچاس روپے اضافہ کردیا۔ اس طرح میری والدہ کی یہ دعا بھی قبول ہوگئی کہ میرے بیٹے کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ور اسے دو سو روپے ملنے لگیں۔
میں 1958ء سے 1974ء تک لائل پور ( اب فیصل آباد )، سرگودھا اور لاہور میں کرائے کے مکانوں میں مصطفی صادق صاحب کے ساتھ رہائش پذیر رہا ۔ 1974ء میں مصطفی صادق صاحب نے سمن آباد میں مکان خرید لیا۔ انہوں نے مجھے اس مکان میں بھی ساتھ رہنے کی پیشکش کی مگر میں نے یہ دعوت قبول کرنے سے معذوری کا اظہار کیا اور انہیں بتایا کہ اب تک ہم کرایہ کے مکانوں میں اکٹھے رہے ہیں ، اب آپ کو اپنا گھر مبارک ہو میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکوں گا کیونکہ وہاں سے نکلنا مجھے بہت شاق گزرے گا ۔ مصطفی صادق صاحب نے بہت زیادہ اصرار کیا جس پر میں نے انہیں کہا کہ میں اپنی والدہ سے مشورہ کروں گا ، اگر انہوں نے اجازت دے دی تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا ورنہ نہیں۔ میں نے والدہ محترمہ سے مصطفی صادق کی اس خواہش کا ذکر کیا تو انہوں نے بلا پس و پیش کہا کہ تم ان کے مکان میں چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی اپنا گھر د ے دے گا۔ مجھے اپنے گھر کی نوید کی کچھ سمجھ نہ آئی کیونکہ اس کے آثار دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن والدہ کی ہدایت پر میں، میری اہلیہ اور ہمارے بچے مصطفی صادق صاحب کے نئے گھر کی گیلری میں منتقل ہوگئے۔ یہ سردی کا موسم تھا لیکن موسم گرما کا تصور کرکے دل ڈرتا تھا کہ یہاں گزارا کیسے ہوگا۔ ایک روز میری اہلیہ(مرحومہ) نے دوسری گلی میں واقعہ پڑوس کے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کہتی ہے کہ یہ مکان فروخت ہورہا ہے ۔ میں نے اہلیہ کو حیرت سے دیکھا اور خاموشی اختیار کرلی کیونکہ میری معاشی حالت مکان کی خرید کے تصور کی بھی اجازت نہ دیتی تھی ، ایک دو ہفتہ گزرنے کے بعد اہلیہ نے پھر یاد دلایا کہ ملازمہ کہتی ہے یہ مکان بہت سستا بک رہا ہے ، میرا ردِ عمل پہلے سے مختلف نہیں تھا ۔ چند روز بعد جب میں اور مصطفی صادق گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا کہ ساتھ والی گلی میں سے ہو کر چلتے ہیں ۔ ہم اس گلی میں چلے گئے ، مصطفی صادق صاحب نے اس سے دریافت کیا کہ کیا یہ مکان فروخت ہورہا ہے تو خاتون نے کہا کہ اس مکان پر تو شاید آسیب کا سایہ ہے اور کوئی اسے خرید تا ہی نہیں ، جب اس سے یہ دریافت کیا کہ مکان مالک کہاں رہتے ہیں تو اس نے بتایا کہ مالک اپنے پتے کی ایک چٹ بجلی کے میٹر پر چسپا ں کرگئے تھے جو آندھی میں اُڑ گئی ۔ ہمارے اصرار پر اس نے یہ بتایا کہ اس کا خاوند ملتا ن روڈ پر وینس سینما میں چوکیدار ہے ، یہ سُن کر ہم دفتر چلے گئے اور اس موضوع پر پھر بات نہ ہوئی۔ چند ہفتوں بعد ہم سمن آباد موڑ کے قریب ادارہ اسلامیات کے مالک مولانا محمد ذکی کے ہاں جارہے تھے کہ وینس سینما کے سامنے رُک کر مصطفی صادق صاحب نے کہا کہ اس چوکیدار کا ہی پتہ کرلیں۔ چوکیدار کسی مشکل کے بغیر ہمارے ہاتھ آگیا اس نے مکان کے مالک کا اتا پتا دیا تو وہ اتفاق سے مصطفی صاحب کے جاننے والے نکلے کچھ دنوں بعد جب سمن آباد کے لال کوارٹروں میں رہائش پذیر عزیز الرحمن خان صاحب سے مصطفی صادق صاحب کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ مکان در اصل ان کے بہنوئی عبدالقدیر خان کی ملکیت ہے جو سٹیٹ بنک آف پاکستان لاہور میں اعلیٰ افسر ہیں ، چونکہ ان کا تبادلہ لاہور سے اسلام آباد ہوچکا ہے اس لئے وہ یہ مکان فروخت کردینا چاہتے ہیں ۔ مصطفی صادق صاحب کے استفسار پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چونکہ ان کے بہنوئی بینکار ہیں اس لئے انہوں نے مکان کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کا باقاعدہ حساب رکھا ہوا ہے اورنیا مالی سال شروع ہونے پر میٹریل کی قیمتوں کے حساب سے وہ اپنے مکان کی قیمت طے کرلیتے ہیں اور چونکہ وہ پٹھان ہیں اس لئے ان سے ہر رعایت لی جاسکتی ہے مگر وہ مکان کی مطلوبہ قیمت میں کسی کمی کے ہرگز روادار نہ ہوں گے۔
مصطفی صادق صاحب کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تعلقات کا دو ر شروع ہوچکا تھا ، وہ کچھ دنوں بعد وزیر اعظم سے ملنے راولپنڈی گئے اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری افضل سعید خان کے کمرے سے عبدالقدیر خان کو سٹیٹ بینک میں فون کیا اور مکان کی خرید میں دلچسپی کے حوالے سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ، عبدالقدیرخان نے انہیں کہا کہ میں دفتر میں موجود ہوں آپ تشریف لے آئیں ۔ مصطفی صادق صاحب عبدالقدیر خان سے ملے جنہوں نے اٰانہیں چائے پلائی اور پھر بڑی بے رُخی سے یہ کہا کہ مکان کی قیمت کے بارے میں تو بھائی صاحب نے آپ کو بتادیا ہوگا ، میرے لائق اور کوئی خدمت ہو تو بتائیں ، مصطفی صادق صاحب کو توقع تھی کہ وزیر اعظم ہاؤس کے حوالے سے عبدالقدیر خان بِچھ بِچھ جائیں گے اور مکان کی قیمت کے 90 ہزار روپے کے مطالبے میں معقول کمی پر آمادہ ہوجائیں گے ۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ 60 ہزار روپے سے شروع ہو کر 65یا 70 ہزار میں طے ہوجائے گا لیکن عبدالقدیر خان نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور مصطفی صادق صاحب ناکام لاہور لَوٹ آئے، یہاں آ کر انہوں نے عبدالقدیر خان کے بھائی عزیز الرحمن خان سے جو جماعت اسلامی کے کارکن ہونے کے باعث مصطفی صادق سے قریبی تعلق رکھتے تھے ، دو بارہ رابطہ قائم کیا جنہوں نے عبدالقدیر خان سے ملاقات کا احوال سُن کر ہنستے ہوئے کہا قیمت کے بارے میں ان کے طرز عمل کے متعلق تو میں نے پہلے ہی آپ پرو اضح کردیا تھا ۔
ابھی یہ معاملہ طے نہیں ہوا تھا کہ میرے چچا قاضی محمد عبداللہ نے جو نشاط آباد فیصل آباد میں اکبر فلور ملز کے مالک ہیں فون پر مجھے اپنے بیٹے کے عقیقہ کی تقریب میں شمولیت کے لئے لائل پور آنے کی دعوت دی ۔ میرے والد محترم ان دنوں بحیثیت منیجر اکبر فلور ملز میں ہی کام کررہے تھے۔ میں والدین کی زندگی میں ایسی تقاریب میں کم ہی شامل ہوتا تھا ۔ میرے شب و روز اخبار کے عشق میں ہی گزرتے تھے ۔ معلوم نہیں کہ یہ کیسا لمحہ تھا کہ میں نے چچا صاحب سے اس بات کی حامی بھرلی کہ میں اگلے روز دعوت عقیقہ میں شریک ہوجاؤں گا ۔ یہ جمعہ کا دن تھا ، چچا صاحب پیپلز کالونی میں رہتے تھے ، جب جمعہ کی نماز کا وقت ہوا تو میں والد صاحب کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہوا ، راستے میں والد صاحب سے میں نے مکان کا ذکر چھیڑا اور بتایا کہ پندرہ ، سولہ مرلے کا ایک مکان 90 ہزار روپے میں مل رہا ہے جو اگر چہ دوسری گلی میں واقع ہے لیکن مصطفی صادق صاحب کے مکان کی دیواروں کے ساتھ اس کی دیواریں ملی ہوئی ہیں۔ والد صاحب نے اس خیال سے کہ ان کا ہونہار بیٹا سولہ سال سے اخبار میں کام کررہا ہے اور اس نے کچھ نہ کچھ رقم ضرور پس انداز کی ہوگی یہ دریافت کیا کہ مکان خریدنے کے لئے میرے پاس کتنے پیسے ہیں، میرے منہہ سے سوچے سمجھے بغیر نکلا کہ میں ساٹھ ہزار روپے کا بندو بست کرلوں گا جب کہ حقیقت میں میرے پاس اس کام کے لئے کوئی رقم نہیں تھی ، اس کے بعد ہم مسجد میں داخل ہوگئے، نماز جمعہ ادا کی ، میں مسجد سے الگ نکلا اور والد صاحب الگ، مسجد سے گھر کے راستے میں والد صاحب نے میرے حقیقی چچا قاضی علاؤالدین سے بات کی اور انہیں بتایا کہ میں ایک مکان خریدنے والا ہوں اور شاید اس کے لئے کچھ رقم کی ضرورت پڑے ، میں نے چچا جان کی 1958ء میں شدید علالت کے دوران بڑی خدمت کی تھی اور میں کئی ماہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آکر ان کی دیکھ بھال کرتا رہا تھا ۔ انہوں نے اس کام کے لئے بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کرلیا پھر والد صاحب نے قاضی عبداللہ( میرے والد کے تایا زاد بھائی اور میری اہلیہ مرحومہ کے حقیقی چچا) سے بات کی جنہوں نے پندرہ ہزار روپے دینے کا وعدہ کرلیا۔ عقیقہ کی تقریب میں کھانا کھانے کے بعد جب میں نے والد صاحب سے لاہور واپس جانے کی اجازت طلب کی تو والد صاحب نے ان دونوں چچاؤں سے اپنی گفتگو بیان کی اور مجھے ہدایت کی کہ میں اپنے دوست حاجی برکت علی صاحب کو یہ مکان دکھاؤں ، اگر انہیں یہ مکان پسند آجائے تو اس مکان کا سودا طے کرکے بیعانہ دے دوں۔ میں والد صاحب کی ہدایت کے مطابق حاجی صاحب کو ساتھ لے کر مکان پر گیا جنہوں نے اس کا جائزہ لیا، مکان تین کمروں اور گیلری اور گیراج پر مشتمل تھا ۔ حاجی صاحب نے کہا مکان کی قیمت زیادہ ہے، یہ سودا ساٹھ ہزار روپے میں ہونا چاہئے ، تاہم مصطفی صادق کی قربت کی قیمت 30 ہزار روپے سمجھ کر سودا طے کرلیا جائے مصطفی صادق صاحب حاجی صاحب کو لے کر عزیز الرحمن خان صاحب کے پاس چلے گئے اور حاجی صاحب نے اپنی جیب سے پانچ ہزار روپے ادا کرکے این 530 سمن آباد کے مکان کا سودا طے کردیا ، مصطفی صادق صاحب نے روز نامہ ’’ وفاق‘‘ کے اکاؤنٹ سے اس مقصد کے لئے ساٹھ ہزار روپے دیئے ، میرے چچا قاضی علاؤ الدین نے سب سے پہلے بیس ہزار روپے بھیجے، دوسرے چچا قاضی عبداللہ نے دس ہزار روپے دیئے، میرے چچا اور سسر قاضی عبدالرحمن نے10 ہزار روپے دیئے ، جس روز حتمی ادائیگی کرنا تھی عبدالقدیر خاں صاحب کو 90 ہزار روپے ادا کرکے اور رجسٹری کے خرچے کے بعد میرے پاس دس ہزار روپے کی رقم فاضل تھی ، ان پیسوں میں میرا ایک بھی پیسہ نہیں تھا اور میں گھر کا مالک بن چکا تھا ، یہ میری والدہ کی دعاؤں کا ایک اور اعجاز تھا۔
1980ء میں جب روز نامہ ’’ وفاق ‘‘ سے الگ ہوا اور 14ایبٹ روڈ پر تجارت کا نیا دفتر قائم کیا تو یہ بلڈنگ صرف ایک تہہ خانے پر مشتمل تھی ۔ چند ماہ بعد اسی تہہ خانے کے نصف حصے میں پریس کی مشین لگائی گئی ۔ اس تہہ خانہ میں22 اگست1980ء کو روز نامہ ’’تجارت‘‘ کے نئے اور آزادانہ دور کا آغاز ہوا، اس روز شدید گرمی تھی ، دفتر میں پنکھوں کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، شدید گرمی کے باعث میں نے پہلے قمیص اتاری اور پھر بنیان۔ اس عالم میں کام کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ والدہ صاحبہ کو جب یہ اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا جس تہہ خانہ میں کام کرتا ہے وہاں گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہے تو انہوں نے بارگاہ ایزدی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے اللہ ! میرے بیٹے کو اگلے سال موسم گرما آنے سے پہلے اس تہہ خانہ کے اوپر ایک منزل تعمیر کرنے کی توفیق دے۔ چند روز بعد ہی میرے ایک دوست چوہدری محمد افضل جو فیصل آباد میں محکمہ تعمیرات میں سب انجینئر تھے دفتر تشریف لائے ، انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ تہہ خانہ میں بہت گرمی ہے اور اس موسم میں یہاں کام کرنا واقعی بہت مشکل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اوپرکوئی منزل کیوں تعمیر نہیں کرلیتے ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کام کے لئے جتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ میرے پاس نہیں ہیں ، چوہدری افضل نے ہنس کر کہا پیسوں کا کیا مسئلہ ہے جتنی رقم کی ضرورت ہے مجھ سے لے لو ۔ میں نے اپنے بزرگ دوست حاجی برکت علی سے اس پیش کش کا تذکرہ کیا ، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دوست اس طرح کی فراخ دلی پر آمادہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پُوری کی پُوری رقم حاصل کرلی جائے، صحیح طریقہ یہ ہے کہ ٹھیکیدار سے تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگوایا جائے پھر یہ دیکھا جائے کہ اپنے پاس کتنی رقم موجود ہے ، اگلے چند مہینوں میں کہاں سے کیا آنے والا ہے ، یہ سارا حساب کرکے کام شروع کیا جائے اور جب پیسے نہ ہونے کے باعث کام رُکنے لگے تو چوہدری افضل سے اتنی رقم حاصل کرلی جائے جس کی اس وقت ضرورت ہو۔ حاجی صاحب کے بتائے ہوئے نسخہ پر عمل کیا گیا۔ تعمیر کا کام شروع ہوگیا جو چھ ماہ جاری رہا اور بالآخر پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ، چوہدری افضل سے کوئی رقم لینے کی ضرورت نہ پڑی، اخبار کے وسائل سے ہی پہلی منزل تعمیر ہوگئی اور تجارت کا دفتر تہہ خانے سے پہلی منزل پر منتقل ہوگیا۔ ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق ایک روز تجارت کے دفتر آئے اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ میرے دفتر کے کمرے اور بلڈنگ کے کسی دوسرے حصہ میں ائیر کنڈیشنر کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ جگہ چھوڑنے کا خیال اس لئے نہیں آیا کہ یہ تصورکبھی ذہن میں آیا ہی نہیں کہ ہمارے دفتر میں بھی کبھی ائیر کنڈیشنر لگ سکتا ہے۔ چند ماہ بعد چوہدری افضل کچھ اور دوستوں کو لے کر ہمارے دفتر آئے اور میرے رفیق کار صدیق سبحانی سے دریافت کیا کہ جمیل صاحب نے دفتر کی ایک منزل تعمیر کرنا تھی اس کا کیا ہوا انہوں نے اس کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں اب میں ، اوور سیئر اور آرکیٹیکٹ کو ساتھ لے کر آیا ہوں تاکہ تعمیر کے لئے میٹریل کی ضروریات کا اندازہ کرکے کام شروع کیا جائے، صدیق سبحانی صاحب نے انہیں یہ بتا کر پریشان کردیا کہ جو منزل تعمیر ہونا تھی وہ تو ہوچکی ہے اور افضل صاحب اور ان کے ساتھ اسی منزل پر کھڑے ہیں البتہ اس کے اوپر کوئی اور منزل تعمیر ہونا ہے تو اس کے متعلق وہ (جمیل اطہر) خود ہی بتاسکیں گے ۔ اس طرح والدہ صاحبہ کی دعاؤں کے طفیل تجارت کی بلڈنگ کی پہلی منزل اللہ کے فضل سے تعمیر ہوگئی اور ہمارا انتظامی اور ادارتی عملہ تہہ خانے سے اٹھ کر بالائی منزل پر آگیا۔ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم تھا جس پر اس کا جتنابھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔
میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہیں عمر بھر اپنی والدہ کی دعاؤں کی دولت حاصل رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں میں تاثیر بھی ایسی رکھی تھی کہ وہ جو کچھ اپنی زبان سے کہتی تھیں اللہ تعالیٰ اسے پُورا کردیتا تھا ۔ 23 مارچ ،14 اگست اور دیگر قومی تہواروں پر وہ بطور خاص دعا کرتی تھیں کہ میرے بیٹے کا اخبار اس موقع پر سب اخبارات سے زیادہ خوب صُورت، زیادہ صفحات کے ساتھ اور زیادہ اشتہارات لے کر شائع ہو۔ جب تک وہ حیات رہیں ان کی دعاؤں سے معجزے رونما ہوتے رہے۔ مثلاً14 اگست کو خصوصی ایڈیشن شائع ہونا ہے لیکن 13 اگست کی صبح تک ہمارے پاس کوئی اشتہار نہیں، ارادہ ہے کہ معمول کے 6 صفحات کی بجائے خصوصی ایڈیشن8 صفحات پر شائع کیا جائے مگر اس کے لئے بھی کوئی ایک اشتہار ہمارے پاس نہیں مگر دن طلوع ہوتے ہی مختلف شہروں اور قصبات سے تجارت کے نمائندے بلدیاتی اداروں اور مارکیٹ کمیٹیوں کے اشتہارات بھیجنا شروع ہوگئے اور ان اشتہارات کی تعداد اتنی زیادہ ہوجاتی کہ خصوصی ایڈیشن کبھی 12 صفحات، کبھی 16 صفحات ، کبھی 20 صفحات اور کبھی 24 اور28 صفحات پر مشتمل شائع ہوتے اور اخباری دنیا میں دوسرے معاصرین کے لئے حیرت کا باعث بنتے۔ روزنامہ تجارت والدہ کی دعاؤں کے طفیل ترقی کے زینے تیز رفتاری سے طے کرنے لگا اور دنیائے صحافت میں اس کا نام کا میاب اخبارات کی فہرست میں شامل ہوتا چلا گیا ۔
میری والدہ ، والد محترم کے انتقال کے بعد گلی قاضیاں میں واقع ہمارے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مکان میں رہیں۔ ہم دونوں بھائی ( میں اور ضیاء قاضی) ٹوبہ سے باہر رہتے تھے ،ہمارے تیسرے بھائی معراج ظفر سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں دماغی عارضہ کے باعث اللہ کو پیارے ہوگئے ، ہماری غیر حاضری میں ہماری بہن انیسہ اپنے سسر اور شوہر کی اجازت سے ہماری والدہ کے پاس رہتی تھیں۔والدہ کو بلڈ پریشر اور شوگر کے عوارض نے آلیاتھا ۔ میرے اصرار پر وہ کچھ دیر کے لئے ہمارے پاس لاہور آجاتیں لیکن تھوڑے دنوں کے بعد اُن کا دل اچاٹ ہوجاتا اور وہ لاہور سے ٹوبہ جانے کے لئے اصرار کرنے لگتی تھیں۔ ہمارے زیادہ اصرار پر وہ یہ کہتی تھیں کہ مجھے تمہارے والد خواب میں نظر آئے ہیں ، وہ کہہ رہے تھے کہ میں تمہیں ملنے ٹوبہ والے گھر میں آتا ہوں اور تم وہاں ہوتی نہیں ہو، یہ سُن کر ہمارے لئے ان کی بات مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ وہ عیدالاضحی پر میرے پاس آئی ہوتی تھیں ، انہوں نے عید کا دن معمول کے مطابق گزارا، دو پہر اور شام کو کھانا بھی کھایا، وہ بڑی ہشاش بشاش تھیں ، ان کے چہرے پر معمول کے مطابق رونق تھی لیکن عیدسے اگلے روز وہ کچھ چُپ چُپ رہنے لگیں اور کسی بات کا جوا ب نہیں دیتی تھیں، کوئی بات پوچھنے والے کو تکتی رہتی تھیں، ایسے لگتا کہ ان کا دماغ اور ذہن ماؤف ہوگیا ہے، تین چار روز کے بعد وہ اچانک بالکل ٹھیک ہوگئیں ، یہ کیفیت چند گھنٹے ہی رہی ، تندرستی کے اس عالم میں جب ان کی پہلی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بولنا چاہتی تھی مگر مجھے بولنے کی اجازت نہیں تھی، افسوس صحت و تندرستی کی یہ کیفیت صرف چند گھنٹے رہی اس کے بعد ان کے ذہن اور دماغ کا حال کے معاملات سے رشتہ پھر منقطع ہوگیا ۔ ہم ان کے بلڈ پریشر کا علاج کراتے رہے، نہ ڈاکٹر نے پوچھا اور نہ ہم نے ڈاکٹر کو یہ بتایا کہ وہ ذیابیطس کی مریضہ ہیں۔ ایک روز جب ان کے معالج کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ ان کی شوگر بھی چیک کرائی جائے تو انہوں نے بڑی بے نیازی سے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے ۔ جب شوگر چیک کرائی گئی تووہ 450 کے لگ بھگ تھی، معلوم ہوتا ہے کہ شوگر کا یہ اضافہ شدہ لیول ان کے ذہن و دماغ کو متاثر کرنے کا باعث بنا، وہ سال بھر اس کیفیت سے گزریں ، حال کے معاملات کا تذکرہ ان کے ذہن سے خارج ہوچکا تھا ۔ ماضی کے واقعات کبھی کبھی ان کے دماغ میں ابھرآتے تھے ۔ ماضی کے تذکروں میں وہ اردو اور پنجابی کے ایسے محاورے اور اصطلاحات بھی زبان پر لے آتی تھیں جو اب متروک ہوچکی ہیں اور عام طور پر جن کا ذکر لوگوں کی زبانوں پر نہیں آتا ۔ ایک شام ہم اپنے گھر کے صحن میں چار پائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ میرے بیٹے نے ان سے مخاطب ہو کر کہا دادی اماں ابوجی کے سر میں گنج دکھائی دے رہا ہے، میری والدہ نے ایک ساعت کے وقفے کے بغیر کہا کہ یہ گنج دولت کے آنے کی نشانی ہے ۔ سال بھر کے دوران انہوں نے ذہنی حاضری کا صرف یہی ایک اظہار کیا تھا۔
میری والدہ نے اپنی بیماری کا آخری عرصہ میو ہسپتال کے اس وارڈ میں گزارا جس کے انچارج ممتاز معالج ڈاکٹر ممتاز حسن تھے جو بعد میں ہسپتال کے چیف ایگزیکٹورہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر دونوں امراض نے والدہ پر غلبہ پالیا تھا۔ ان کی حالت دن بہ دن مایوس کن ہوتی جارہی تھی ، ہمارے دوست ڈاکٹر حافظ محمد یاسین اُن کے علاج کے لئے مقدور بھر کوشاں رہے ، ایک شب ڈیڑھ بجے وہ میرے ساتھ ہی ہسپتال میں موجودتھے۔ میں ان پر زوردے رہا تھا کہ وہ اب اقبال ٹاؤن اپنے گھر چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں، میں راستہ میں سمن آباد آپ کو گھر پر اتار دوں گا ۔ میں نے ان کی یہ بات مان لی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے گھر پہنچادیا ، ابھی مجھے گھر پہنچے چندلمحے ہی ہوئے ہوں گے کہ میری بہن نے فون پر یہ درد ناک خبر سنائی کہ ہم سب بہن بھائی ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے ہیں، میں نے فوراً ہی اپنے بزرگ دوست حاجی برکت علی کو اس سانحہ سے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ میرا ڈرائیور ان کے پاس آرہا ہے، اسے کچھ رقم دے دیں۔ میں جب ہسپتال پہنچا تو حاجی صاحب مجھ سے پہلے ہی وہاں پر موجود تھے، انہوں نے دس پندرہ ہزار روپے میری جیب میں ڈال دیئے، ہمارے ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ گئے واپس آنے تک بار بار پوچھتے رہے کہ مجھے مزیدرقم کی ضرورت تو نہیں۔ والدہ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مرکزی قبرستان میں دادا، والد اور تایا کی قبروں کے ساتھ ہی آخری آرام گاہ نصیب ہوئی۔
جب کبھی ان کی قبر پر حاضری دیتا ہوں تو ان کے احسانات کا تصور کرکے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے زندگی میں جتنی بھی نعمتیں عطا کیں وہ میری ماں کی تمناؤں اور دعاؤں کے صدقے میں میسر آئیں۔ میں تو ان کی خدمت کا کوئی حق صحیح معنوں میں ادا نہ کرسکامگر اس لحاظ سے خوش بخت ضروررہا کہ انہوں نے میرے لئے بے انتہا دعائیں کیں۔ میری ماں کی دعاؤں نے مجھے اخبار ہی نہیں بلکہ کئی اخبارات کا ایڈیٹر اور مالک بنا یا۔ میں ان کی دعاؤں سے اخبارات کے ایڈیٹروں کی تنظیموں سی پی این ای کے صدر کے منصب تک پہنچا اور ناشروں کی جماعت اے پی این ایس کا عہدے دار منتخب ہوتا رہا۔ جن لوگوں کے سروں پر ماں کا سایہ موجود ہے ان کے لئے میرا پیغام یہی ہے ،’’کہ اگروہ زندگی کے تپتے صحرا میں سُکھ اور سکون کا سایہ چاہتے ہیں تو اپنی ماؤں کی دعائیں لیں۔ ان دعاؤں سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خزانہ نہیں‘‘ یہ شجر سایہ دار انسانوں کو دردو کرب سے محفوظ رکھتا ہے اور سکون و عافیت کا ذریعہ بنتا ہے۔ میں اب بھی زندگی میں جوسُکھ پاتا ہوں اور جن دکھوں سے اللہ نے محفوظ رکھا ہوا ہے میرا ایمان ہے کہ وہ میری ماں کی دعاؤں کا ہی معجزہ ہے۔