دربار صحافت

شہباز کرے پرواز …؟ مزمل سہروردی

میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ عدالتی فیصلے ملک کی سیاست کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جس طرح اس ملک کی عدلیہ کو ایک وزیراعظم کو پھانسی لگا کر کوئی نیک نامی نہیں ملی۔ نظر یہ ضرورت سے کوئی نیک نامی نہیں ملی۔ اس طرح کیا میاں نواز شریف کی نااہلی سے کوئی نیک نامی ملی گی۔ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا عوام کی عدالت میاں نواز شریف کو جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کی نظر سے دیکھیں گے یا عوام کی پسند و ناپسند کا پیمانہ مختلف ہے۔اس لیے اگر میاں نواز شریف نا اہل بھی ہو جاتے ہیں تب بھی ان کی سیاسی بقا کا فیصلہ پاکستان کی عوام نے کرنا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم کے مصداق اگر عمران خان بھی نا اہل ہو رہے ہیں تو ملک کا سیاسی منظر نامہ مزید دلچسپ ہو جائے گا۔ لیکن جس طرح میاں نواز شریف کی نا اہلی پر مہر تصدیق صرف اور صرف پاکستان کی عوام لگا سکتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر بھی مہر تصدیق صرف اور صرف پاکستان کی عوام ہی لگا سکتے ہیں۔

اس لیے دونوں رہنماؤں کے پاس سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد بھی عوام کا فورم مووجود رہے گا۔ اور عوام کا فیصلہ ہی حتمی فیصلہ تصور ہو گا۔ ایک دوست نے نواز شریف کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوائے جے آئی ٹی کے پورے پاکستان کو نواز شریف کی دولت کے بارے میں مکمل علم تھا۔ اور عوام کو میاں نواز شریف دولت کے انھی انبار کے ساتھ قبول تھا اور قبول رہے گا۔ جس طرح بھٹو اپنی مکمل آمریت کے ساتھ قبول تھا اور قبول رہا۔ عمران خان اپنی بدتمیزی کے ساتھ قبول ہے، اس لیے سیاسی پنڈتوں کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ دنوں کی نا اہلی سے ایک تو گیم بیلنس ہو جائے گی اوردونوں جماعتوں کا ووٹ بینک بھی قائم رہ جائے گا اور قیادت کی تبدیلی بھی ممکن ہو جائے گی۔

عمران خان کی نااہلی کا منظرنامہ ابھی بن رہا ہے۔گیم اس طرف شروع ہوئی ہے لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ میں سماعتوں سے نواز شریف کی نا اہلی کے منظر نامہ سے دھندلے بادل چھٹتے جا رہے ہیں۔ اب تو قریبی ٹیم بھی اس پر بات کر رہی ہے لیکن کوئی بھی متبادل نام پر بات نہیں کر رہا۔ شائد یہ حکمت عملی کا حصہ ہے کہ فی الحال جب تک سپریم کورٹ سے فائنل فیصلہ نہ آجائے ۔تب تک اس پر بات نہ کی جائے۔ اسی لیے خاموشی ہے۔ خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فی الحال سپریم کورٹ میں بھر پور کیس لڑنے کا فیصلہ ہے۔ نا اہلی کو آخری حد تک روکنے اور لڑنے کا فیصلہ ہے تا کہ آخری چانس بھی لیا جا سکے۔

لیکن خاموشی کے ساتھ شور بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اپنی زبان تو بند کر سکتے ہیں تا ہم متبادل نام پر بحث شروع ہے۔ گو میں پہلے یہ بات لکھ چکا ہوں کہ اب باری شہباز شریف کی ہے اور جب میں نے لکھا تھا تو دوست مجھ سے متفق نہیں تھے۔ رد عمل بھی یہی سامنے آیا کہ جائیں گے تو سارے شریف جائیں گے۔ لیکن اب حقیقت سامنے آتی جا رہی ہے کہ باری شہباز شریف کی ہے۔شہباز شریف جے آئی ٹی سے بھی سرخرو نکل آئے ہیں۔ اس ماحول میں اس جے آئی ٹی سے سرخرو نکلنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسی لیے اب زبان زد عام ہو تا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی نااہلی کی صورت میں ن لیگ کی پارلیمانی قیادت شہباز شریف کے پاس آجائے گی۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ شہباز شریف کوئی نواز شریف سے بے وفائی کر رہے ہیں بلکہ اس بحرانی کیفیت میں جب نواز شریف کو اپنی سیاسی بقا کے لیے ایک مشکل جنگ لڑنی ہے شہباز شریف نواز شریف کی سیاسی لائف انشورنس ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ رسک نہیں ہے بلکہ انشورنس ہیں۔ ان کی وفاداری بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔اور ان کے نام پر اتفاق بھی ممکن ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو آگے آنے والے وقت بھی دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک تو نواز شریف کی نا اہلی کی صورت میں قیادت کا بحران ہے۔ یہ بحران اس لیے بھی سنگین ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ مریم بی بی کے بھی خلاف ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کی اندرونی دھڑے بندی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی ایک نام کے آگے آنے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ ہو جائے۔ ویسے تو یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف جس کو بھی سامنے لائیں گے وہ سب کو قبول ہو گا۔ لیکن یہ اتنی آسان اور سادہ بات بھی نہیں ہے۔ جب خواجہ آصف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان بول چال بند ہو تو دھڑے بندی کی سنگینی کا خود بخود اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ایسے میں آپ اس کو حالات کی ستم ظریفی کہیں یا قسمت کی مہربانی کہیں مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کے مقابلے میں ایسا کوئی دوسرا نام نہیں ہے جو اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی قائد کے طور پر سامنے آسکے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ صرف میاں نواز شریف کے بھائی ہیں اور شریف خاندان اپنے خاندان سے باہر نہیں جانا چاہتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود تمام دھڑوں کو قابل قبول نظر آرہے ہیں۔

سیاسی دوست یہ منطق بھی پیش کرتے ہیں کہ نواز شریف کسی کوبھی سامنے لے آئیں گے لیکن شہباز شریف کو سامنے نہیں لائیں گے۔ وہ تو پہلی کیا آخری چوائس بھی نہیں ہو سکتے۔ دوستوں کے پاس اس کی کافی وجوہات ہیں۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ دونوں خاندانوں کے درمیان بہت اختلافات ہیں۔ یہی مسائل شہباز شریف کی راہ کی رکاوٹ ہیں۔

لیکن میں اس صورتحال کو دوسری طرح دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک اس وقت شریف خاندان کے پاس دو ہی راستہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھٹو خاندان کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔ جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھٹو کے ووٹ بینک کو تو بلا شبہ اپنی ساتھ اکٹھا کر لیا تھا۔ لیکن وہ بھٹو خاندان کو اکٹھا نہ رکھ سکیں۔ ان کے اور مرتضیٰ بھٹو کے اختلافات کوئی راز نہیں ہیں۔ انھی اختلا فات کی وجہ سے محترمہ نصرت بھٹو بھی بے نظیر سے دو ر ہو گئی تھیں اور بھٹو خاندان کے انھی اختلافات کو اب تک اسٹبلشمنٹ اور ان کے مخالفین استعمال کرتے ہیں۔

لیکن کیا اس نازک موقع پر شریف خاندان بھی ٹوٹ جائے گا۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے درمیان اب تک مکمل سیاسی انڈر اسٹینڈنگ نظر آرہی ہے۔اسی لیے جب نواز شریف ملک میں نہیں تھے اور چینی وزیر خارجہ نے ایک نتہائی اور اہم ہنگامی دورہ پر پاکستان آنا تھا۔ تو نواز شریف نے شہباز شریف کو کہا کہ وہ نہ صرف چینی وزیر خارجہ کا استقبال کریں بلکہ اس موقع پر حکومت پاکستان کی طرف سے استقبالیہ بھی شہباز شریف نے ہی دیا۔ کہا جا تا ہے کہ یہ واضع اشارہ تھا کہ نواز شریف اپنے بعد شہباز شریف کو آگے دیکھ رہے ہیں۔ شائد ہم سب پانامہ کے شور میں اس قدر محو تھے کہ اس اشارہ کو نوٹس نہیں کر سکے۔

شہباز شریف کا کیس مسلم لیگ (ن) کے اندر اس لیے بھی مضبوط ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے لوڈ شیڈنگ کی جنگ کسی حد تک جیتی ہے اس کا نوے فیصد کریڈٹ بھی شہباز شریف کو ہی جاتا ہے۔ پنجاب میں لگنے والے بجلی کے منصوبے اپنی مثال آپ ہیں۔ ورنہ خواجہ آصف کی سیاسی کارکردگی بلا شبہ اچھی ہوگی لیکن بطور وزیر بجلی و پانی ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر شہباز شریف پنجاب میں بجلی کے یہ منصوبے نہ لگاتے تو بستر گول تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ شہبا زشریف ہی وہ واحد نام ہیں جو عالمی سطح پر بھی قابل قبول ہیں۔ وہ چین کو بھی قابل قبول ہیں۔ ترکی کو بھی قابل قبول ہیں۔ اور امریکا بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس لیے بدلتے عالمی منظر نامہ میں شائد ان کے نام کی قبولیت آسان ہو گی۔شریف خاندان کے اتفاق کے لیے بھی شہباز شریف نے ہمیشہ ایک قدم بڑھ کر قربانی دی ہے۔ جس کو بھی شریف خاندان نظر انداز نہیں کر سکتا۔