وزیراعظم کے استعفیٰ کے لئے رئوف طاہر
وزیراعظم کے استعفیٰ کے لئے اب ”اعلیٰ اخلاقی اقدار‘‘ High Moral Values کو حوالہ بنایا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ان کے (اور ان کی فیملی کے) خلاف الزامات کو ابھی سپریم کورٹ میں ثابت ہونا ہے‘ جنہیں غلط ثابت کرنے کے لئے وزیراعظم کی لیگل ٹیم پرجوش اور پرعزم ہے۔ سلمان غنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ شب (ٹیلی فون پر) گفتگو میں انہوں نے وزیراعظم کو یکسو اور پراعتماد پایا۔ ان کے لب و لہجے میں کمزوری یا بے یقینی کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ عدالتی فیصلے کے علاوہ وزیراعظم سے ”نجات‘‘ کا ایک آئینی راستہ تحریک عدم اعتماد ہے اور اس کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ جمعہ (14 جولائی) کو مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم پر بھرپور اعتماد اس کا ناقابل تردید ثبوت تھا جس میں وہ ارکان بھی پورے جوش و خروش سے شریک ہوئے جو پارلیمنٹ کے معمول کے اجلاس میں کم کم ہی دیکھے جاتے تھے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وہ ارکان زیادہ پرجوش تھے‘ جن کے نام لے کر ایک ٹی وی اینکر مسلسل یہ دعوی کرتا رہا تھا کہ صبح گئے یا شام گئے اور جن کے لئے بڑے چوہدری صاحب اپنی قاف لیگ کے دروازے کھلے رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں (لیکن یہ قاف لیگ‘ کہاں ہے‘ کس طرف کو ہے‘ کدھر ہے؟) اتحادی جماعتیں بھی وزیراعظم کی حمایت میں ان کی اپنی مسلم لیگ سے کم پرجوش نہیں۔ اُدھر اپوزیشن جماعتوں میں اسفندیار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی اور آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی کو بھی (سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے) وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے اتفاق نہیں۔ (شیرپائو کی قومی وطن پارٹی کے پی کے حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی بھی ہے)
وزیراعظم کے استعفے پر اصرار کرنے والی جماعتیں اپنے مطالبے کے حق میں کوئی قانونی جواز نہیں رکھتیں‘ چنانچہ ”ہائی مورل ویلیوز‘‘ کو اس کے لئے بنیاد بناتی ہیں۔ ہائی مورل ویلیوز کا یہ معاملہ بھی اپنی جگہ خاصا دلچسپ ہے۔ ہمارے ہاں دیہات کے نیم خواندہ لوگوں کی ہائی مورل ویلیوز میں یہ بات بھی شامل تھی کہ کوئی شخص کسی کے خلاف جھوٹا الزام لگاتا یا پنچایت کے روبرو جھوٹی گواہی دیتا‘ اور اس کا یہ جھوٹ پکڑا جاتا تو وہ مارے شرم کے گائوں چھوڑ دیتا۔ اب اگرچہ ہمارے دیہات بھی جدید ترقی کے اثرات و ثمرات سے فیضیاب ہو رہے ہیں لیکن اتنی سی مورل ویلیو تو وہاں اب بھی موجود ہے کہ پنچایت میں جھوٹا ثابت ہونے کے بعد وہ مارے شرم کے پانچ‘ سات روز تو گھر سے باہر نہیں نکلتا۔
وزیراعظم سے ہائی مورل ویلیوز پر استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کا تو اپنا حال یہ ہے کہ صبح و شام بے پر کی اڑاتے اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ جھوٹ پکڑا جاتا ہے لیکن اس پر کسی ندامت‘ کسی معذرت کا اظہار تو کجا‘ کسی تاخیر کے بغیر نیا جھوٹ مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ وہ 35 پنکچر والی بات‘ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی نوازشریف کو ٹیلی فونک کال‘ جس میں پنجاب میں 35 پنکچرز کی اطلاع دی گئی تھی یہ 35 پنکچرز پنجاب کے 35 انتخابی حلقوں میں دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ نون کو جتوانے کا کوڈ ورڈ تھا۔ خان کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس اس کال کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ کہانی کے مطابق ایک غیر ملکی سفارت کار نے یہ کال ریکارڈ کر لی تھی۔ وہاں سے یہ ”خبر‘‘ آغا مرتضی پویا تک پہنچی‘ انہوں نے اپنے ایک دوست کو بتایا‘ وہاں سے یہ خان تک پہنچی۔ 35 پنکچر والی اس کال کے علاوہ خان دھاندلی کے الزام کے حق میں کئی اور ”دلائل‘‘ بھی دیتا‘ اردو بازار لاہور میں چھپنے والی جعلی بیلٹ پیپر اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کا تیار کردہ رگنگ پلان۔ اس کے بقول لاہور میں حساس ادارے کا ایک اعلی افسر بھی اس میں ملوث تھا (اخبار نویسوں کے اصرار پر اس کا جواب تھا‘ وہ اس افسر کا نام اسلام آباد کے دھرنے میں بتائے گا) اس کا الزام تھا کہ الیکشن کمشن کے علاوہ اعلی عدلیہ نے بھی اس میں ”شرمناک‘‘ کردار ادا کیا جس کی بحالی کے لئے اس نے جیل کاٹی تھی۔ خان کی 21 سالہ سیاسی زندگی کا کل اثاثہ یہ ہفتے بھر کی جیل تھی) اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسے طلب کر لیا تو اس کا عذر تھا‘ اسے ”شرمناک‘‘ کے معنی معلوم نہ تھے اور یہ کہ اعلی عدلیہ سے اس کی مراد ریٹرننگ آفیسر تھی (یہ کون ریٹرننگ افسر تھے جن کی بحالی کے لیے اس نے مہم چلائی اور جیل کاٹی تھی؟) خان کی طرف سے ”آر اوز کے الیکشن‘‘ والی بات کی پس پردہ کہانی بھی دلچسپ تھی‘ زرداری صاحب نے خان کی عیادت کے لئے فون کیا اور اس میں ”آراوز کے الیکشن‘‘ والی بات بھی اس کے کان میں پھونک دی۔ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے عالی مرتبت چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن کے لئے تحریک انصاف نے ملک کے مہنگے ترین قانون دان جناب عبدالحفیظ پیرزادہ (اب مرحوم) کی خدمات حاصل کی تھیں۔ انہوں نے جوڈیشل کمشن میں پیش کرنے کے لئے 35 پنکچرز والی ریکارڈنگ سمیت ضروری ثبوت و شواہد طلب کئے تو خان کا جواب تھا‘ یہ سب باتیں تو انہوں نے دوسروں سے سنی تھیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی خان کا کہنا تھا‘ وہ 35 پنکچر والی بات‘ ایک سیاسی بیان تھا۔ یاد آیا زرداری صاحب نے تیس 30 دن میں ججوں کی بحالی والے معاہدہ بھوربن سے انحراف پر کہا تھا‘ نوازشریف کے ساتھ وہ ایک سیاسی معاہدہ ہی تو تھا‘ میں نے کوئی حدیث تو نہیں لکھ دی تھی۔ جناب افتخار محمد چوہدری اور سیٹھی صاحب کی طرف سے ہتک عزت کے مقدمات عدالتوں میں فیصلے کے منتظر ہیں) ”پانامہ لیکس کی پیروی سے روکنے کے لئے دس ارب روپے کی پیشکش‘‘ پر شہبازشریف کی طرف سے اتنی ہی رقم کے ہرجانے کا کیس بھی دائر کیا جا چکا ہے۔
خان کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس اڑھائی تین سال سے الیکشن کمشن میں زیرسماعت ہے جس میں پٹیشنر کوئی اور نہیں۔ خود تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر ہے۔ مسلم لیگیوں کی طرف سے 62-63 کے تحت دائر کردہ کیس الگ ہے‘ ایک کیس توہین عدالت کا بھی ہے۔ خان الیکشن کمشن کے روبرو پیش ہونے کی بجائے‘ اسے دھمکیوں کے ذریعے دبائو میں لانے کی کوشش کرتا رہا اور اب جناب سہیل وڑائچ سے تازہ گفتگو میں اس نے موجودہ الیکشن کمشن کے تحت آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد کی دہشت گردی کی عدالت میں مسلسل عدم حاضری‘ اس کی طرف سے اشتہاری قرار دیئے جانے (اور اب اس کی پاداش میں جائیداد کی قرقی کا نوٹس) ایک الگ کہانی ہے اور ”مافیا‘‘ وہ وزیراعظم ہے‘ جو جے آئی ٹی کی طرف سے طلب کئے جانے پرنہ صرف خود حاضر ہوا بلکہ اپنے بیٹوں‘ بیٹی اور داماد کو بھی پیش کر دیا۔
اِدھر خان پنجاب میں پیپلز پارٹی کی وکٹیں گرا رہا ہے‘ ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی نے خان کی انتہائی قیمتی وکٹ گرا دی۔ ناز بلوچ تحریک انصاف کے ساتھ اپنی طویل رفاقت ختم کرتے ہوئے‘ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی۔ تحریک انصاف کی نائب صدر‘ اپنی پارٹی کا میڈیا فیس بھی تھی۔ اس موقع پر اس نے بڑا جامع فقرہ کہا‘ ”تبدیلی کی علمبردار تحریک انصاف‘ خود تبدیل ہو گئی ہے‘‘ (خان کے اردگرد چہروں پر ایک نظر ڈال لیں) ناز کا کہنا تھا‘ 2013ء کے عام الیکشن میں تحریک انصاف نے کراچی سے سات لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اور اب یہاں نوبت چند ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ (صوبائی اسمبلی کے حالیہ ضمنی الیکشن میں پانچ ہزار ووٹوں کے ساتھ چوتھا نمبر) ناز نے کوئٹہ میں قومی اسمبلی کے تازہ ضمنی الیکشن کا ذکر نہیں کیا۔ محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی یہ نشست اب مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے چوالیس ہزار چھ سو دس ووٹوں کے ساتھ جیت لی۔ بی این پی (مینگل) پینتیس ہزار چار سو اکیاسی ووٹوں کے ساتھ دوسرے‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی بیس ہزار چار سو پچاسی ووٹوں کے ساتھ تیسری اور پیپلز پارٹی انیس ہزار آٹھ سو چالیس ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ اور اب جگر تھام کے خان اعظم کے امیدوار کے ووٹ بھی جان لیجئے دو ہزار آٹھ سو پچیس