وزیر اعظم کا استعفیٰ اور ایک شرط … انصار عباسی
جے آئی ٹی کی نواز شریف فیملی کے خلاف ’’نہی چھڈنا‘‘ رپورٹ کے آنےکے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری موجودہ سیاسی کشمکش اگر مزید بڑھتی ہے تو اس سے ملکی حالات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔ ماضی میں جب سیاسی حالات خراب ہوےیا کیے گئے تو اس کے نتیجہ میں پاکستان میں یا تو مارشل لا لگے یا جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا گیا۔ ایسے حالات پیدا کرنےمیں ایک طرف ہماری جمہوری حکومتوں کی اپنی خامیوں کا ہاتھ تھا تودوسری طرف ہماری سیاسی جماعتوںنے بھی عمومی طورپر مہروں کا کردار ادا کیا۔ اگر ہم شکایت کرتےہیں کہ اسٹبلشمنٹ نےسیاسی امور میں مداخلت اور سیاسی کھیل بنانے بگاڑنے کا م کلی طورپر ختم نہیں کیا تو یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے سیاست دان بھی تلخ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد پہلے پی پی پی اور بعد میں ن لیگ نے حکومت بنائی جو ابھی جاری ہے۔ پی پی پی اپنے دور میں سازشوں کا رونا روتی رہی اور ن لیگ کی بھی یہی شکایت رہی۔ نواز شریف حکومت کا موجودہ حالات کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ اُسی سازش کا سلسلہ ہے جو 2014 کے دھرنے پر شروع ہوا۔ حکومتی وزرا اشاروں کنایوں میں سازش کے پیچھے چھپے کرداروں کےبارےمیں بات کررہےہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی سازش ہو لیکن کیا جو الزامات نواز شریف اور اُن کے بچوں پرلگے اُن کی سرے سے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں؟؟ کیا شریف فیملی نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ اُن کی آف شور کمپنیاں ہیں؟؟ کیا گزشتہ پی پی پی حکومت اور موجودہ ن لیگ کی حکومت کو کسی سازش نے روکا کہ اس ملک میں احتساب کے نظام کو نہ بنایا جائے اور کرپشن کرنے والوں کو نہ پکڑا جائے؟ کیا پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں نے نا اہل حکمرانی بھی کسی سازشی کے اسکرپٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے کی؟؟ کیا ہماری جمہوری حکومتوں ، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو کسی بیرونی قوت یا اسٹبلشمنٹ نے منع کیا کہ نہ اصلاحات کرنی ہیں، نہ اداروں کے مضبوطی کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہے، نہ جلد انصاف کےلیے کوئی نظام لانا ہے، نہ سول سروس اور انتظامی مشینری کو غیر سیاسی کرناہے؟ کیا عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو میسر کرنے سے بھی کسی نے ہماری جمہوری حکومتوں اور سیاسی جماعتوںکو روکا؟؟ سچ پوچھیں تو سازشوں کے لیے میدان ہمارے سیاستدان اور ہماری جمہوری حکومتیں خود تیار کرتی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور نا اہل حکمرانی ہے۔ اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا مقصود ہے تو پھر عوام کو خوش کریں اور اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بہترین طرز حکمرانی، اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے ذریعے لوگوں کی زندگی کو آسودہ کریں، انہیں جلد انصاف دینےکے لیے موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات لائیں، سرکاری اداروں کو سیاسی مداخلت، رشوت ستانی اور سفارش سے پاک کریں۔ ماضی میں تو ایسا ممکن نہیں ہوا لیکن اگر ہمارے سیاستدان واقعی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے میں مخلص ہیں تو موجودہ ٹکراو کی صورتحال کو ایک موقع جان کر عوام کےلیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اگرچہ دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے لیکن فیصلہ کی کوئی بھی صورت میں سیاست دانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دوسرے پر الزام تراشی اور سازش سازش کا کھیل کھیلنے کی بجائے وہ کام کر دیں جو ملک و قوم کے مفاد میںہے۔ سپریم کورٹ نواز شریف کے متعلق کیا فیصلہ کر سکتی ہے اس بارے میں ہمیں انتظار کرنا ہو گا اگرچہ قانونی ماہرین کی رائے میں تین قسم کے فیصلے ممکن ہیں۔ اول،سپریم کورٹ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے سکتی ہے۔ دوم، سپریم کورٹ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کا کیس جے آئی ٹی رپورٹ کے تناظر میں ٹرائل کے لیے احتساب عدالت کو بھیج سکتی ہے۔ سوم، سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کر سکتی ہے۔ پہلی صورت میں وزیر اعظم کی فوری چھٹی ہو جائے گی، دوسری صورت میں میاں صاحب کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ برقرار رکھنا اس لیے مشکل ہو گا کیوں کہ ٹرائل عدالت انہیں طلب کر سکتی ہے اُن کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے جبکہ تیسری صورت میں وزیر اعظم کو کلین چٹ مل جائے گی۔میری تجویزہے وزیر اعظم صاحب اپوزیشن رہمنائوں بشمول عمران خان کا فوری ایک اجلاس بلائیں۔ پہلی صورت میں وزیر اعظم اپوزیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروائیں، دوسری صورت میں بھی استعفیٰ کا وعدہ کریں جو ایک شرط سے مشروط ہو جبکہ کلین چٹ ملنے کی صورت میں اُسی شرط پر بغیر استعفیٰ کے اپوزیشن سے عمل درآمد کرنے کا وعدہ لیں۔ شرط یہ ہو کہ اسمبلی کے آخری سال کے دوران اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے لیے مل کر قانونی اور آئینی اقدامات اٹھائے جائیں۔ مثلاً الیکشن اصلاحات کی فوری منظوری اور نفاذ، ایک فعال بااختیار اور آزاد احتساب کے مربوط نظام کا قیام، پولیس اور سول سروس کو غیر سیاسی کرنا، قومی اداروں بشمول ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر، ایس ای سی پی،ا سٹیٹ بینک وغیرہ کو با اختیار اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیے جانے کےلیے قانون سازی، اہم سرکاری محکموں کے سربراہوں کی تعیناتی کےلیے متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں کی منظوری ، جلد انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی نظام میں تبدیلی۔ اس وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے نہ تو ن لیگ اور وزیر اعظم نواز شریف کو ضد کرنی چاہیے اور نہ ہی اپوزیشن بشمول عمران خان اس معاملہ میں کوئی روڑے اٹکائیں۔ اپنی اپنی سیاست کریں، ایک دوسرے کو جو کہنا ہے کہتے رہیں لیکن خدارا اس ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کم از کم اُن معاملات میں تو ایک دوسرے سے تعاون کریں جس پر سب کا ویسے تواتفاق ہے لیکن عملاً کوئی یہ کام کرنےکےلیے تیار نہیں۔ اگرچہ مجھے کوئی زیادہ امید نہیں کہ اپنی اپنی انا اور ضد کے قیدی ہمارے سیاسی رہمنا ایسا کریں گے لیکن ان سیاستدانوں کے یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت اپنے اقتدار کو بچانے یا اس کے حصول کے لیے جنگ کا نام نہیں۔