پاکستان کے پالیسی ساز … تنویر قیصر
بہت صبر اور لاتعداد تجربات کے بعد پاکستان اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنا ہے تو پاک افغان بارڈر کو مکمل طور پر مضبوط باڑ کے حصار میں لانا ہوگا۔بہت ہو چکا افغانیوں کے ساتھ بھائی چارہ اور پچھلے سات عشروں میں بہت دی گئی افغانیوں کو کھلی سرحدی چھُوٹ؛ چنانچہ پاکستان کے سویلین اور سیکیورٹی حکام نے 2611کلومیٹرطویل پاک افغان بارڈر پر مضبوط خار داراور تہ دار باڑ لگانے، وہاں بلند سنگی قلعے بنانے اور مناسب فاصلوں کے وقفے پر مسلّح چیک پوسٹیں تعمیر کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔
بجا طور پر اس فیصلے کو جرأت مندانہ،شاندار اور حوصلہ افزا کہا جا سکتا ہے۔خیبر پختون خواہ میں پاک افغان مشترکہ بارڈر 1230کلومیٹر اور بلوچستان میں یہ سرحد 1381کلومیٹر طویل ہے۔افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر ،کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق:پاکستان سیکیورٹی فورسز نے پہلے فیز کے طور پر خیبر ایجنسی، باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں ، پاک افغان بارڈر پر، 237کلومیٹر طویل خار دار باڑ لگا دی ہے۔ یہ تقریباً چھ فٹ بلند ہے۔
افغانستان نے پاکستان کو اس اقدام سے روکنے کے لیے دھمکی آمیز بیانات بھی دیے ہیں ، پاکستانی سرحد پر تعینات پاک سیکیورٹی فورسز پر خونریز حملے بھی کیے ہیں جن کا فوری طور پر دندان شکن جواب بھی دیا گیا ہے۔ اِن چپقلشوں کے باوجود پاکستان نے باڑ لگانا بند نہیں کی ہے کہ اِسی اقدام سے پاکستان کو افغانی اور بھارتی دراندازوں سے محفوظ اور مامون بنایا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر پاکستان نے جدید43چیک پوسٹیںاور مضبوط قلعے تعمیر کر لیے ہیںجب کہ 63 چیک پوسٹیں اور قلعے زیر تعمیر ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ 2019ء تک پاکستان اپنے پاک افغان بارڈر پر مزید338 سرحدی چیک پوسٹیں اور قلعے استوار کرے گا اور ساری پاک افغان سرحد پر تہ دار باڑ لگائے گا۔
معاشی طور پر پاکستان ایسے نسبتاً کمزور ملک کے لیے یہ اقدام خاصا مہنگا ہے لیکن پاکستان کو دہشت گردوں و امن دشمنوں سے بچانے، افغانی و بھارتی خفیہ اداروں کے گماشتوں سے محفوظ رکھنے اور پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے والے عالمی اسمگلروں سے نجات دلانے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ تو بھرنا ہی پڑے گا۔ پاکستان اب کسی مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔قوی امکان ہے کہ ڈھائی ہزار کلو میٹر سے زائد طویل پاک افغان سرحد پر جاری اِن اقدامات سے پاکستان اور افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ انشاء اللہ۔
عمومی طور پر پاکستان گذشتہ 70برسوں سے اور خصوصی طور پر پچھلے 37برسوں سے پورے اخلاص کے ساتھ مسلسل، برادر افغانستان کی ہر طرح سے اعانت کرتا آرہا ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان نے اپنی بھی پرواہ نہیں کی لیکن افغانیوں اور افغان حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کو کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آسکی ہے۔
افغانستان میں اگر امن قائم نہیں ہو سکا ہے تو اس میں ہمیشہ افغانیوں کے اپنے غیر سنجیدہ اعمال بھی شامل رہے ہیں۔ یوں کبھی سوویت روس وہاں آ دھمکا تو کبھی امریکا نے یلغار کر ڈالی۔ افغان عوام نے جارحیت کے خلاف مزاحمت تو کی لیکن اپنی بے معنی قبائلی جبلتوں کے تحت اِن مزاحمتوں کی کامیابی کے ثمرات نہ سمیٹ سکے۔ امریکا اِسی لیے تو افغانستان میں مستقل ڈیرے ڈالے نظر آ رہا ہے۔
9جولائی2017ء کو خبر آ ئی ہے کہ چھ سو جدید جنگی ٹرک ایک امریکی بحری جہاز سے کراچی میں اتارے گئے ہیں۔یہ جنگی ٹرک پاکستان کے راستے افغانستان بھجوائے جا رہے ہیںجہاں یہ 8500امریکی فوجیوں کے حوالے کیے جائیں گے۔یہ تجویز بھی امریکا میں زیر غور ہے کہ مزید 4500 امریکی فوجی افغانستان میں اتارے جائیں۔
افغانستان کے لیے چھ سو جدید جنگی ٹرکوں کا آنا اور مزید فوجیوں کو بھجوانے کی تجویز اِس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ امریکا، افغانستان میں اپنے قیام کو طُول دینے کا مکمل پروگرام بنا چکا ہے۔دریں حالات افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہاکہ افغان جنگجو طالبان کا بنیادی مطالبہ ہی یہ ہے کہ پہلے امریکی فوجیں افغانستان سے نکلیں، پھر افغانستان کے سیاسی اور ’’منتخب‘‘ حکمرانوں سے بات ہوگی۔
اگر امریکا مزید افغانستان میںپاؤں پسارنا چاہتا ہے تو پھر کہاں کا پائیدار امن؟ یوں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی لا یعنی ہی قرار پائے گا۔واقعہ یہ ہے کہ امریکا، افغانستان میں شکست بھی کھا چکا ہے اور امن قائم کرنے میں بھی ناکام رہا ہے لیکن اکلوتی سُپر پاور ہونے کے ناتے یہ دونوں باتیں تسلیم کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس میں شدید قسم کی ندامت اور شرمندگی چھپی ہے؛ چنانچہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ وہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔کبھی ڈُو مور کہہ کر اور کبھی حقانی نیٹ ورک کی مدد کرنے کے الزام لگا کر۔
امریکا کے لیے نہائیت شرم کی بات ہے کہ وہ دنیا میں سب سے طاقتور ہونے کا دعویدار ہے لیکن وہ پندرہ سولہ سال سے افغانستان پر ’’قابض‘‘ ہونے ، اپنے مخالفین کے خلاف اربوں ڈالر کا اسلحہ پھونکنے اور افغانستان میں اپنے 2200 فوجی مروانے کے باوجو دنہ تو طالبان کو مکمل شکست دے سکا ہے اور نہ ہی سر زمینِ افغانستان و بدقسمت افغان عوام کو پائیدار امن کا تحفہ دینے میں کامیاب ہُوا ہے۔
سوویت روس نے تو افغانستان میں اپنے پندرہ ہزار فوجی مروانے کے بعد شکست بھی تسلیم کر لی تھی اور افغانستان سے نکل بھی بھاگا تھا لیکن ’’امریکا بہادر‘‘ کے لیے یہ داغِ ندامت اپنی پیشانی پر لگانا قبول نہیں ہو رہا۔ امریکا نے افغان امن کو مزید تباہ کرنے کے لیے یہ غلیظ حرکت بھی کی کہ افغانستان میں بھارت کو کھُل کھیلنے کی مکمل اجازت دے دی۔
پاکستان کے ایک سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور سابق وزیر جناب رؤف خٹک نے اپنے ایک حالیہ تجزئیے میں بجا لکھا ہے :’’ عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کا راستہ پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد، سے ہو کر جاتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ قدرت نے پاکستان کو ایسا اہم جغرافیہ عطا کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے معاملات میں پاکستان کو نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سوال مگر یہ ہے کہ (امریکی سرپرستی میں)بھارت نے افغانستان میں جس طرح پاؤں جمائے ہیں، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ افغانستان میں قیامِ امن کا راستہ نئی دہلی سے شروع ہوتا ہے اوراسلام آباد سے گزرتا ہُوا کابل جاتا ہے۔‘‘ گویا افغانستان میں رہ کر بھارت کی پاکستان کے خلاف شرارتیں اور شیطانیاں ختم ہوں گی تو تب ہی افغان امن کے خواب میں رنگ بھرے جا سکیں گے۔
افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی جب بھی ہم بات کرتے ہیں تو ہمیں امریکی سینیٹروں کے اُس وفد کے تازہ ترین دَورے کو بھی پیشِ نگاہ رکھنا چاہیے جو حال ہی میں، جولائی 2017ء کے پہلے ہفتے، پاکستان آیا تھا(پھر وہ افغانستان بھی پہنچا) اِس وفد نے وزیراعظم جناب نواز شریف سے بھی ملاقات کی اور وہ سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملا۔ان امریکی سینیٹروں نے جنوبی وزیرستان کا احوال بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اورخاصے اطمینان کا بھی اظہار کیا۔
اس وفد میں دو ارکان بڑے اہم تھے: سینیٹر جان مکین اور سینیٹر الزبتھ وارن۔اوّل الذکر سینیٹ میں امریکی آرمڈسروسز کمیٹی کے سربراہ ہیں اور امریکی صدر کا انتخاب بھی لڑ چکے ہیں۔ سینیٹر الزبتھ وارن امریکا کی ابھرتی ہُوئی سیاستدان ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر کا الیکشن لڑنے جارہی ہیں۔
اِس وفد کا پاکستان میں لہجہ کچھ اور تھا اور جب یہ افغانستان پہنچ کر صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملا تو اس کا لہجہ پاکستان کے بارے میں کچھ مختلف رنگ اختیار کر گیا۔ یہ رنگ منفی بھی تھا اور منافقت کا حامل بھی۔ یقینا پاکستان کو اس لہجے نے مایوس کیا ہے۔
یہ وفد جب پاکستان اور افغانستان کے دَورے کے بعد امریکا پہنچا اور امریکی میڈیا سے ملا تو بھی اُس نے پاکستان کے بارے میں مثبت باتیں کم کیں اور منفی باتوں کا اظہار زیادہ کیا؛ چنانچہ واشنگٹن میں موجود ایک پاکستانی نژاد اخبار نویس کو(جو الزبتھ وارن اور جان مکین کی امریکی صحافیوں سے بات چیت کے دوران وہاں خود موجود تھا) اپنی رپورٹ میں بجا طور پر یہ لکھنا پڑا کہ ’’ امریکا قطعی طور پر افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں نہیں ہے، بلکہ وہ افغان بد امنی کو بہانہ بنا کر افغانستان میں اپنا قیام مزید کئی برسوں تک ممکن بنانے کا خواہشمند ہے۔ ‘‘ اِس پیش منظر میں پاکستان کے پالیسی سازوں کو ہمہ وقت اپنی آنکھیں اور اپنے کان کھول کر رکھنا پڑیں گے، اگرچہ یہ بڑا مشکل کام ہے!!