روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے 6 اکتوبر کے شمارے میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس کے حوالے سے جو خبر شائع ہوئی تھی اور جس پر عسکری حلقوں کو بڑے تحفظات تھے، اس کی تحقیقات وزارت داخلہ نے کی تھیں، ان کی روشنی میں سینیٹر پرویز رشید سے وزارت اطلاعات کی ذمہ داریاں مزید تحقیقات تک واپس لے لی گئی ہیں اور آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سینئر افسروں پر مشتمل خصوصی کمیٹی اس معاملے کی مزید تحقیقات کرے گی، اس وقت تک پرویز رشید اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔ یہ بنیادی اصول ہے کہ جس کسی کے خلاف کسی بھی معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہوں وہ اس دوران اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں تاکہ وہ تحقیقات کے دوران اپنے عہدے کا فائدہ نہ اٹھا سکیں، اس لحاظ سے وزیر اطلاعات کی علیحدگی بڑا مثبت فیصلہ ہے، اب مزید تحقیقات میں یہ معلوم کیا جائے گا کہ قومی اہمیت کے اس اجلاس کی خبر ’’لیک‘‘ ہونے میں ان کا کتنا ہاتھ تھا اور کیا وہ اس کے تنہا ذمے دار تھے یا کچھ اور لوگوں پر بھی اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے اور اگر وہ تنہا ذمے دار تھے اور کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہیں تھا تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہئے۔ کیا وزارت سے علیحدگی کافی ہے یا ذمہ داری کا تعین ہونے کی صورت میں وہ مزید سزا کے بھی مستحق قرار دیئے جائیں گے۔ اعلیٰ سطح کے جس اجلاس کی خبر ڈان اخبار کے رپورٹ سرل المیڈا نے شائع کی وہ اس وقت بیرون ملک جاچکے ہیں۔ جب خبر شائع ہوئی تھی اور عسکری حلقوں کی جانب سے اعتراض سامنے آیا تھا تو وزارت داخلہ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا تھا۔ جونہی یہ اقدام کیا گیا اخبارات اور صحافیوں کی تنظیموں نے ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جس کے چند روز بعد ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا تاہم اس دوران اخبار کی انتظامیہ اور سرل المیڈا اپنی خبر کی صحت پر اصرار کرتے رہے، تب یہ سوال اٹھا کہ خبر لیک یا فیڈ ہوئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں جو تحقیقات کی تھیں اس کی تفصیلات تو خود وزیر داخلہ بیان کریں گے تاہم اس سے پہلے ہی پرویز رشید کو ان کے منصب سے ہٹا کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔ عسکری حلقے یہ چاہتے تھے کہ اس معاملے میں جو کوئی بھی ملوث ہو اس کے خلاف ملکی قانون کے تحت قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ اس کارروائی کا حجم کتنا ہو یہ ابھی طے نہیں ہوا تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا قوی امکان ہے لیکن یہ سب کچھ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات کے بعد ہی ہوگا۔ تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ اگر پرویز رشید ملوث تھے تو کیا اکیلے تھے یا ان کے ساتھ بھی کوئی اور تھا پھر یہ سوال بھی ہے کہ کیا یہ سلسلہ یہیں رکے گا یا اس کی زد میں اور لوگ بھی آئیں گے۔ پیپلز پارٹی چونکہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے ناراض رہتی ہے کیونکہ وہ خود بھی پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو ناراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اس لئے پیپلز پارٹی نے لگے ہاتھوں چودھری نثار کے استعفے کا مطالبہ بھی کردیا ہے اور بعض حلقے تو پرویز رشید کے استعفے کو عمران خان کی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں حالانکہ اس معاملے کا نہ تو عمران خان کی تحریک سے کوئی تعلق ہے اور نہ اسلام آباد کے دھرنے سے البتہ اتنا ضرور ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان کی حیثیت سے پرویز رشید عمران خان کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتے تھے، اب عمران خان کیلئے اس میں اطمینان کا یہ پہلو ہے کہ انہیں اب پرویز رشید کے تیکھے بیانات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا اور مزید لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں تو کیا متاثر ہونے والوں میں سیاستدان ہوں گے یا غیر سیاستدان؟ پرویز رشید نے اپنی وزارت کے دوران بعض ایسے بیانات دیئے تھے جن کا مفہوم وہ نکالا گیا جو الفاظ ادا کرتے ہوئے غالباً ان کے اپنے ذہن میں نہیں تھا۔ خصوصاً حامد میر پر حملے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس میں ان کے بعض بیانات پسندیدہ خیال نہیں کئے گئے تھے۔ اس پس منظر کی وجہ سے بھی ان پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ اب ایوان وزیراعظم بھی ان کی کوتاہی کی نشاندہی کررہا ہے اور اسی بنیاد پر انہیں وزارت سے ہٹایا گیا ہے۔ اب تحقیقاتی کمیٹی تمام امور کا جائزہ لے کر مزید ذمے داروں کا تعین کرے گی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بعض سرکاری افسر بھی تحقیقات کے نتیجے میں قصور وار ثابت ہوسکتے ہیں۔