دربار صحافت

پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ تاریخی تناظر میں۔۔مزمل سہروردی

سب نظریں آصف زرداری کی طرف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پریشان ہے۔ انہیں انداذہ ہی نہیں تھا کہ وہ صدارت کی پیشکش بھی ٹھکرا دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں تو تھا کہ ان کے پاس آصف زرداری کودینے کے لئے بہت کچھ ہے وہ مانگ کر تو دیکھیں۔اس لئے ڈیل تو ہو ہی جائے گی۔ لیکن آصف زرداری جیسا ذہین اور زیرک سیاستدان بھی پرانے گلے شکوے لیکر بیٹھ جائے گا ۔ اس کا تو خیال بھی نہیں تھا۔ آصف زرداری تو ماضی میں رہنے والا انسان نہیں ۔ وہ تو آج اورمستقبل کا خیال رکھنے والے انسان ہیں۔لیکن وہ تو گلے شکوے لے کر بیٹھ گئے ہیں تب یہ ہوا تھا اور تب وہ ہوا تھا۔ یہ پرانے حساب کتاب کی تو کسی کو امید ہی نہیں تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ٓاصف زرداری کی بھی چودھری نثار علی خان جیسی صورتحال ہے وہ بھی جو کہنا چاہ رہے ہیں وہ کہہ نہیں رہے اور جو کہہ رہے ہیں اس کا سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ویسے تو آصف زرداری کیلئے لمبی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی وہ کبھی بھی کسی بھی وقت یو ٹرن لینے کے ماہر ہیں۔ لیکن تا دم تحریر معاملہ سادہ ہے کہ آصف زرداری نے اسٹبلشمنٹ سے نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے نواز شریف کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے سانحہ کے بعد سے پیپلزپارٹی نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اور پیپلزپارٹی مستقل مزاجی کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ درست ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت میں تبدیلی آئی ہے لیکن پھر بھی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔حتیٰ کے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کی محاز آرائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد اس فیصلے کے نتیجے میں ملنے والے اقتدار میں بھی مفاہمت کی پالیسی جاری رکھی گئی ۔ آصف زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کوئی سیاسی مفاہمت کی پالیسی نہیں تھی بلکہ اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی پالیسی تھی۔
یہ درست ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں آصف زرداری نے ایک تقریر کی تھی جس سے اسٹبلشمنٹ اوران کے درمیان کشیدگی نظر آئی تھی۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک وقتی مرحلہ تھا جب پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت دائو پر لگ گئی تھی لیکن اس کے بعد اس پر دونوں طرف سے قابو پا لیا گیا تھا۔ آصف زرداری ملک سے باہر گئے۔ کشیدگی کم کرنے کے لئے سندھ حکومت تبدیل کی گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ تبدیل ہوئے۔ اور پھر آصف زرداری واپس آگئے۔ وہ ایک مکمل انڈر سٹینڈنگ سے واپس آئے اور وہ مفاہمت اب تک قائم ہے۔
مفاہمت اور انڈر سٹینڈنگ کی یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ 1986 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی کے بعد واپس آئیں توکیا جنرل ضیاء الحق جیسے مضبوط آمر کی انڈر سٹینڈنگ کے بغیر یہ ممکن تھا۔ کیا اس وقت کی اسٹبشلمنٹ کی مرضی کے بغیر اس قدر شاندار استقبال ممکن تھا۔ پورے پاکستان سے لوگ لاہور آئے اور ایک بھی گرفتار نہیں ہوا۔ اس کے بعد 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ شراکت میں اقتدار حاصل کیا۔ انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ کو نہ صرف تمغہ جمہور یت بھی دیا بلکہ ان کے لئے چائے بھی بنائی۔یہ وہ وقت تھا جب ہماری اسٹبلشمنٹ شدید بحرانی کیفیت میں تھی اور اسے بے نظیر بھٹو کی ضرورت تھی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی ۔ یہ درست ہے کہ اسٹبلشمنت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی۔ آئی جے آئی بنوائی۔ لیکن پھر بھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نہیں کی۔ ناراضگی ہوئی اور ختم ہوئی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب 1993 میں جنرل وحید کاکڑ نے اپنی چھڑی کی طاقت سے نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو گھر بھیجا تب پھر محترمہ نے اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کی بجائے مفاہمت کی۔ اور جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ مفاہمت کی وجہ سے ہی محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ اسٹبلشمنت کی نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان وزارت عظمیٰ کی میوزیکل چیئر کی گیم اسی لئے کامیاب تھی کہ دونوں کھلاڑی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ یہ کھیل کھیلنے کے لئے تیار تھے۔
مفاہمت کا یہ باب یہاں ختم نہیں ہوا۔ 1996 میں محترمہ کی حکومت اسی طرح ختم کر دی گئی جیسا کہ جنرل وحید کاکڑ نے 1993 میں نواز شریف کی کی تھی۔ تب نواز شریف کی اپنے صدر غلام اسحاق خان سے لڑ ائی ہو گئی تھی تو اسٹبلشمنٹ نے دونوں کی چھٹی کروادی تھی اور 1996 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنے صدر فاروق لغاری سے لڑائی ہو گئی تو اسٹبلشمنٹ نے دونوں کی چھٹی کروا دی تھی۔ طریقہ کا ر الگ الگ تھا لیکن نتیجہ ایک ہی تھا۔ تا ہم اس کے بعد محترمہ جلا وطن ہو گئیں۔ مقدمات کی بھر مار ہو گئی۔ تا ہم یہ مفاہمت ختم نہیں ہوئی۔ بات چیت چلتی رہی۔ نواز شریف کو 1999 میں اقتدار سے نکالے جانے اور پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی بات چیت چلتی رہی ۔ اسی لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے لئے کوئی مسائل پیدا نہیں کئے۔
پرویز مشرف نے بھی پیپلزپارٹی کے لئے کوئی مسائل پیدا نہیں کئے۔ محترمہ کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط رہی۔ پھر محترمہ بے نظیربھٹو پرویز مشرف کے دور میں وطن واپس آئیں۔ یہ واپسی بھی ایک مفاہمت اور این آر او کا نتیجہ تھی۔ محترمہ ایک طرف نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کر رہی تھیں تو دوسری طرف این آر او کر رہی تھیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کو قانونی حیثیت دینے کے لئے اپنا امیدوار بھی کھڑا کر دیا۔ حالانکہ ن لیگ اور ایم ایم اے بائیکاٹ کر رہی تھیں۔ وہ اکیلی مشرف کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اور پھر محترمہ کی شہادت ہو گئی۔ نواز شریف انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے لئے تیار تھے لیکن آصف زرداری کی اسٹبلشمنٹ سے انڈر سٹینڈنگ ہو چکی تھی۔وہ محترمہ کی مفاہمت توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اور انہوں نے اقتدار لے لیا۔ وہ لڑنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
آصف زرداری نے اقتدار کے پانچ سال مکمل کئے۔ یہ مفاہمت اور انڈر سٹینڈنگ کے پانچ سال تھے۔ میمو گیٹ جیسی غلطیاں معاف ہو گئیں۔ پھر اقتدار گیا لیکن سندھ کی حکومت رہ گئی۔ یہ بھی کافی تھی۔ لیکن جنرل راحیل شریف کے دور میں کچھ عرصہ کے لئے یہ انڈر سٹینڈنگ خراب ہوئی۔ لیکن پھر سنبھل گئی۔ خراب ہوتے ہوتے سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔
دھرنے کے دنوں میں بھی پیپلزپارٹی نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔ تب بھی آصف زرداری نے پہلے نواز شریف کے خلاف بادشاہت والا پیغام داغ دیا تھا۔ لیکن پھر انہیں پتہ چل گیا کہ اسٹبلمشنٹ نواز شریف کو نکال نہیں رہی۔ دبائو میں لا رہی ہے۔ وہ ایک سمجھدار اور زیرک سیاستدان ہیں ۔ وہ بے لذت گناہ نہیں کرتے۔ انہوں نے نواز شریف کا ساتھ دیا کیونکہ نوازشریف کہیں جا ہی نہیں رہے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں تب بھی انہوں نے اسٹبلشمنٹ کا ہی کام کیا۔ سڑکوں پر عمران خان نے دبائو بنایا ہوا تھا۔ اور پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی نے دبائو بنا دیا۔ جمہوریت کے نام پر روز ن لیگ کو جوتیاں ماری جاتیں اور وہ کھانے پر مجبور تھے۔ حتیٰ کے نواز شریف کو قومی اسمبلی میں اعتزاز احسن سے معافی بھی مانگنی پڑ گئی۔
اس سارے تناظر میں بیچارے بھولے ن لیگ والے یہ سوچ رہے تھے زرداری اسٹبلشمنٹ کے مقابلے ان کے ساتھ آجائیں گے۔وہ لاہور میں موجود ہیں۔بلاول بھی لاہور کے چکر لگا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے لاہور میں ہونے سے ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ دونوں دبائو میں ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جائیں گے۔ کوئی کسی کی لڑائی نہیں لڑتا۔ وہ کیوں نواز شریف کی لڑائی لڑیں گے۔سیاست میں معجزوں کی بھی گنجائش رہتی ہے۔ اور زرداری معجزہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گو کہ اس کے امکانات کم ہیں۔