چوہدری شاہ محمد عزیز از جمیل اطہر
چوہدری شاہ محمد عزیز مدیر و مالک ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ لائل پور میں صحافت کے چہار درویشوں میں سے ایک درویش تھے، یہ چاروں ملک امام بخش ناسخ سیفی روزنامہ ’’سعادت‘‘، چوہدری ریاست علی آزاد روزنامہ ’’غریب‘‘ اور جناب غلام رسول خلیق قریشی روزنامہ ’’عوام‘‘ کے مدیر و مالک تھے۔ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کا اجراء 1948ء میں ہوا، یہ شام کو شائع ہوتا تھا اور اس میں منڈیوں کے بھاؤ اور تجارتی اتار چڑھاؤ کی خبریں ہوتی تھیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی یہ نماز عصر اور مغرب کے درمیان پہنچ جاتا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی غلہ منڈی میں چوہدری شاہ محمد اینڈ سنز کے نام سے آڑھت کی ایک دوکان تھی جہاں چوہدری شاہ محمد عزیز کے بیٹے چوہدری عبدالاحمد کاروبار کرتے تھے۔ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہونے والی خبریں بھی چوہدری عبدالاحمد بھیجتے تھے۔ میں اور میرے ساتھیوں نے 1956-57ء میں انجمن صحافیاں ٹوبہ ٹیک سنگھ قائم کی جس کا صدر چوہدری عبدالاحمد اور سیکرٹری مجھے چنا گیا۔ اس کے دوسرے ارکان میں ناصح سرہندی، صوفی غلام رسول ضیائی، شیخ عنایت اللہ سرہندی اور چوہدری منظور احمد ناز بھی شامل تھے، اس دوران سرگودھا سے بابا ضامن علی حیدری بھی ایک انشورنس کمپنی کے لئے کام کرتے کرتے ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے جن کی وجہ سے یہ انجمن اختلافات کا شکار ہوگئی اور ایک روز ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں خبر شائع ہوئی کہ مجھے انجمن صحافیاں سے نکال دیا گیا ہے۔ میں تو پہلے ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ چھوڑ کر لائل پور جانے کے لئے پا بہ رکاب تھا اس لئے میں نے اس خبر کی کوئی پرواہ نہ کی البتہ چوہدری عبدالاحمد کے متعلق میرے دل میں گرہ ضرور بیٹھ گئی۔ میں لائل پور چلاگیا اور روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے 120 روپے ماہانہ پر میری تقرری ہوگئی۔ میرے کام کے اوقات تو پانچ بجے شام سے نو بجے رات تک تھے، مگر میں رات کو ایک بجے کاپی پریس میں جانے تک کام کرتا تھا۔
مصطفی صادق ریذیڈنٹ ایڈیٹر، منصور حیدر کھوکھر نیوز ایڈیٹر اور حافظ بشیر سہیل برانچ منیجر تھے، مجھ سے پہلے اشرف طاہر (اداکارہ روبینہ اشرف کے والد) اور ممتاز افسانہ نگار منصور قیصر نیوز ڈیسک پر کام کرتے تھے۔ ہم کاپی پریس بھیج کر گورونانک پورہ میں منصور حیدر کے گھر چلے جاتے جہاں اُن کی اہلیہ پراٹھوں سے ہمیں ناشتہ کراتیں اور اسی نشست میں ہم اپنا اخبار نکالنے کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے خاکے بناتے، اسی دوران اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر میرنوراحمد نے جناب مظفر احسانی کو ایڈیٹر انچارج مقرر کرکے لائل پور بھیج دیا، اُن کا نام تو پرنٹ لائن میں شائع نہیں ہوتا تھا لیکن عملاً اُنہوں نے اخبار کے تمام انتظامی و ادارتی امور سنبھال لئے تھے۔ اُن کی سرگرمیوں کا نشانہ تو مصطفی صادق صاحب تھے لیکن اُنہوں نے ابتدائی مشق کے طور پر میری گوشمالی کا کام شروع کردیا، اُن دنوں روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے آخری صفحہ پر ’’گھنٹہ گھر سے گھنٹہ گھر تک‘‘ کے عنوان سے میرا ایک کالم شائع ہوتا تھا ایک روز مظفر احسانی صاحب نے میرے ایک کالم پر اعتراض کیا جس پر میں نے پہلے سے تحریر کردہ اپنا استعفیٰ جیب سے نکال کر اور اُس پر تاریخ درج کرکے مظفر احسانی صاحب کو پیش کردیا، میں یہ استعفیٰ دے کر قریب ہی واقع اپنی رہائش گاہ پہنچا ہی تھا کہ چپراسی میرے استعفیٰ کی منظوری کا خط لے کر آگیا۔
میرے دوست ایثار راعی جو لائل پور میں روزنامہ ’’کوہستان‘‘ کے نمائندہ خصوصی تھے میرے حالات سے اچھی طرح واقف تھے، اُن کو اندازہ تھا کہ ’’آفاق‘‘ سے ملنے والے ایک سو بیس روپے سے میں کمرے کا کرایہ ادا کرتا تھا، کھانے پینے کے اخراجات اور کالج کی فیس بھی اسی رقم سے ادا ہوتی تھی، ایثار راعی کو فکر لاحق ہوئی کہ یہ سارے اخراجات اب کس طرح پورے ہوں گے، میں نے ایثار کو بتایا کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ کالج کی فیس کی ادائیگی ہے، باقی مسائل سے تو بعد میں نمٹ لیں گے۔ اگلی صبح ایثار راعی یہ خوش خبری لے کر میرے پاس آئے کہ انہوں نے میرے لئے ایک ملازمت کا بندوبست کرلیا ہے۔ جب انہوں نے یہ بتایا کہ جس اخبار میں مجھے کام کرنا ہے وہ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ ہے (جس کے مالک کے بیٹے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انجمن صحافیاں کی رُکنیت کے مسئلہ پر بدمزگی پیدا ہوئی تھی) تو میں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، ایثار راعی چونکہ چوہدری شاہ محمد عزیز سے میری ملاقات کا وقت طے کرچکے تھے اس لئے مجھے بادل نخواستہ ایثار کے ساتھ پانچ بجے شام پیپلز کالونی میں چوہدری صاحب کی قیام گاہ پر جانا پڑا۔ چوہدری صاحب نے پُرتکلف چائے پلائی، دو چار باتیں پوچھیں اور مجھے اگلے روز شام پانچ بجے ڈیوٹی پر بلالیا۔ اُن دنوں لائل پور سے چار مقامی روزناموں کے علاوہ لاہور کے دو اخبارات ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’آفاق‘‘ کے ایڈیشن بھی شائع ہوتے تھے۔ اُدھر ملتان سے دو اخبارات ’’امروز‘‘ اور ’’کوہستان‘‘ نے اپنے ایڈیشن شروع کردئیے، اس موقع پر ’’نوائے وقت‘‘ کی انتظامیہ نے اپنا لائل پور ایڈیشن بند کرنے اور ملتان سے ’’نوائے وقت‘‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی بندش کے بعد چوہدری شاہ محمد نے ارادہ کیا کہ وہ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کو تجارتی کی بجائے سیاسی اخبار بنادیں اور اسے شام کے بجائے صبح کے وقت شائع کریں اور میرا تقرر اسی کام کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔
میں چوہدری صاحب کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کے دفتر میں چلا گیا اور نیوز ایڈیٹر کی میزپر خبروں کی چھان پھٹک میں مصروف ہوگیا۔ اُس وقت میں بہت ہی دُبلا پتلا ہوتا تھا اور کرسی پر بیٹھے ہوئے مشکل ہی سے یہ دکھائی دیتا تھا کہ کوئی شخص مصروف کار ہے، مجھے وہاں بیٹھے آدھا گھنٹہ ہوا ہوگا کہ ایک نہایت صحت مند، بھاری جسم اور لانبے قد کا شخص کمرے میں داخل ہوا اور کاتبوں کے تخت پوش پر کام کرنے والوں سے دریافت کرنے لگا کہ نیوز ایڈیٹر صاحب کہاں ہیں اور کیا وہ ابھی کام پر نہیں آئے؟ کاتبوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں ! وہ بیٹھے ہیں اور اپنا کام کررہے ہیں، یہ صاحب پُنوں خان تھے جنہوں نے بتایا کہ وہ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کے نیوز ایجنٹ ہیں اور میری طرف دیکھ کر ازراہِ تمسخر کہا ’’یہ تو کسی طرح بھی ایڈیٹر دکھائی نہیں دیتے‘‘۔ خیر میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ فرمائیں میرے لئے کیا حکم ہے، انہوں نے بغل میں سے ایک اخبار نکالا اور میری طرف اچھالا اور ایک خبر پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’یہ صبح کے اخبار میں ہیڈ لائن لگے گی‘‘ ، یہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی تھا جس کے آخری صفحہ پر تین چار سطروں پر مشتمل ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کا عنوان تھا ’’لانڈھی کا مل مالک گرفتار‘‘ میں نے معذرت کی کہ ابھی تو کاپی کا کام شروع ہوا ہے دو بجے شب کاپی پریس جائے گی، اس وقت تک جتنی خبریں موصول ہوں گی ان میں سے ہیڈ لائن کے لئے خبر منتخب کی جائے گی، میری زبان سے حرفِ انکار سُن کر پُنوں خان نے مجھے حکم دیا کہ میں چوہدری شاہ محمد عزیز سے ٹیلی فون ملاکر اُن سے اِن کی بات کراؤں، میں نے فون ملاکر انہیں دے دیا، پہلے تو پنوں خان نے فون پر میرے لئے یہ الفاظ کہے ’’چوہدری صاحب تُسیں کس نُوں ایڈیٹر لگا دِتّا ہے، ایہہ تے کسی طرح بھی ایڈیٹر نہیں لگ دا، ساتھ ہی انہوں نے چوہدری صاحب کو بھی الٹی میٹم دے دیا کہ اگر لانڈھی کے مل مالک کی گرفتاری کی خبر شہ سرخی نہیں ہوگی تو وہ صبح اخبار نہیں اٹھائیں گے، اس موقع پر چوہدری صاحب نے ٹیلی فون کا ریسیور مجھے دینے کے لئے کہا اور مجھے انہوں نے یہ ہدایت کی کہ میں پنوں خان سے کہہ دوں کہ یہ خبر شہ سرخی لگ جائے گی اور ساتھ ہی کہنے لگے، ’’تُوں اپنی مرضی کریں کہ کیہڑی خبر ہیڈ لائن لگانی اے‘‘۔
’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں کام کرتے ابھی مجھے چند روز ہی ہوئے ہوں گے کہ چوہدری صاحب نے مجھے طلب فرمایا، میں ان کے کمرے میں گیا تو انہوں نے کسی تمہید کے بغیر کہا، ’’کاکا ! (یہ دفتر میں کام کرنے والوں کے لئے ان کا تکیہ کلام تھا) تم ابھی بچے ہو، تمہیں صحافت کا کوئی تجربہ نہیں ہے، ذرا ہوشیاری سے کام کرو، یہاں بہت گھاگ لوگ ہیں، تمہیں ان سب پر نظر رکھنا ہے، اداریہ نویس شیدا صاحب ہیں وہ ڈاک میں موصول ہونے والے اخبارات گھر لے جاتے ہیں اور ان میں سے اداریہ نقل کرکے لے آتے ہیں، تمہارا کام ہے کہ وہ یہاں سے کوئی اخبار گھر نہ لے جائیں‘‘، میں نے چوہدری صاحب کی باتیں سنیں اور واپس اپنی نشست پر آکر کام میں مصروف ہوگیا۔ غروبِ آفتاب کے وقت قریب ہی واقع چائے خانہ پر جانے کے لئے دفتر سے باہر نکلا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ مجھے ایک سایہ سا دکھائی دیا، یہ بزرگ صحافی جی ایم شیدا تھے انہوں نے پوچھا کہاں جارہے ہو، جواب دیا سامنے چائے والے کے پاس چائے پینے جارہا ہوں، شیدا صاحب نے اشاروں میں بتایا کہ وہ بھی اُدھر آرہے ہیں، مجھے ہدایت دی کہ میں وہاں اُن کا انتظار کروں، چند منٹوں میں ہی شیدا صاحب (جی ایم شیدا، اُس وقت لائل پور کے ایک بزرگ صحافی) تشریف لائے، مجھ سے اُنہوں نے دریافت کیا کہ چوہدری صاحب نے تمہیں بلایا تھا، کیا بات ہوئی تمہاری اُن کے ساتھ؟ میں نے شیدا صاحب کو بتایا کہ مجھے اُنہوں نے اخبار کی پالیسی کے متعلق کچھ رہنمائی کی، شیدا صاحب نے کہا پالیسی کی بات چھوڑو، اصل بات مجھے بتاؤ جو اُنہوں نے تم سے کہی، میں نے پھر وہی بات دہرائی، شیدا صاحب قدرے طیش میں آگئے، اور کہنے لگے شاہ محمد کو کیا پتہ پالیسی کیا ہوتی ہے، پالیسی تو اخبار کی میرے ہاتھ میں ہے جو اداریہ لکھتا ہے اس کے ساتھ اُنہوں نے کہا تم تو اصل بات مجھے سے چھپالو، مگر تمہارے بارے میں اُنہوں نے مجھے جو کچھ کہا ہے، وہ سُن لو انہوں نے مجھے کہا ’’شیدا صاحب! آپ کی تو ساری عمر اس اخبار میں گذری ہے وہ جو نیا لڑکا ’’عینکو‘‘ (اشارہ عینک لگانے والے کی طرف تھا) ہمارے اخبار میں آیا ہے یہ سو ’’چلتروں‘‘ کا ایک ’’چلتر‘‘ ہے اُس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کوئی ایسی ویسی خبر اخبار میں نہ لگادے جو ہمارے لئے پریشانی کاباعث بن جائے، یہ بات سُننے کے بعد مجھ میں بھی صبر نہ رہا اور میں نے شیدا صاحب کو بتایا کہ چوہدری صاحب نے مجھے اُن کے متعلق کیا ہدایت دی ہے، وہ بات سن کر اُنہوں نے قہقہہ لگایا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے، ’’بس تم اپنے کام سے کام رکھو اور مجھے میرا کام کرنے دو اور روزانہ اسی وقت چائے پینے کے لئے تم یہاںآجایا کرو‘‘۔
ایثار راعی مجھے ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں کام کرنے کے لئے پیپلز کالونی میں چوہدری شاہ محمد عزیز کی کوٹھی پر لے جارہے تھے تو میں نے اُن سے کہا تھا، یار! میں یہاں کام نہیں کرنا چاہتا، چوہدری صاحب کے بیٹے عبدالاحمد سے پہلے ہی میرے تعلقات کشیدہ ہیں اور میرا یہاں کام کرنا اُنہیں برداشت نہیں ہوگا۔ ایثار راعی نے پوچھا،’’کالج کی فیس کے حساب میں تمہیں کتنی رقم ادا کرنا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا 141 روپے، ایثار نے کہا کہ جتنے دنوں میں یہ پیسے پورے ہوجائیں کسی نہ کسی طرح یہاں کام کرلو، فیس اداکرنے کے بعد دیکھا جائے گا کہ یہاں کام کرنا تمہیں پسند ہے یا نہیں، جس روز تنخواہ کے حساب سے ڈیڑھ سو روپے بن رہے تھے میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ ڈیڑھ سو روپے کے لئے ایک درخواست چوہدری صاحب کو بھیجی، اُنہوں نے مہربانی کرتے ہوئے بھائی کو ڈیڑھ سو روپے دے دئیے، میں نے کالج کی فیس ادا کی اور ایثار راعی کو بتایا کہ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں میرے کام کے دن پُورے ہوگئے اور اب چوہدری صاحب کو فون کرکے بتادو کہ وہ اب کام پر نہیں آئے گا۔
ان ایک دو تجربات کو اب بھول جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ چوہدری شاہ محمد عزیز نے لائل پور سے ایک اچھا تجارتی اخبار نکالا، اسے کامیابی سے چلایا وہ اس میدان کے اولیں صحافی تھے، اس سے پہلے اُنہوں نے روزنامہ ’’سعادت‘‘ کے مدیر ناسخ سیفی سے اُن کا ایک اخبار ’’تجارتی رہبر‘‘ لے کر نکالا تھا۔ جونہی اُنہوں نے کچھ قدم جمائے تو اپنا ڈیکلریشن لے لیا اور ’’تجارتی رہبر‘‘ سیفی صاحب کو واپس کر دیا جو اب ناسخ سیفی کے بڑے صاحبزادے عتیق الرحمن شائع کر رہے ہیں۔ چوہدری شاہ محمد عزیز کئی رفاہی و سماجی انجمنوں کے کرتا دھرتا رہے۔ وہ ٹی بی ایسوسی ایشن اور روٹری کلب کے عہدیدار رہے، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب رجانہ میں اُنہوں نے اسلامیہ ہائی سکول قائم کیا۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے انسداد تپ دق کی مساعی پر ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کا خصوصی سپلیمنٹ شائع کیا اور اُس کی تمام آمدنی ٹی بی ایسوسی ایشن کو عطیہ کردی، جس کے سربراہ فیصل آباد کے ایک صنعت کار میاں فضل احمد تھے۔ چوہدری شاہ محمد عزیز کے تین صاحب زادے چوہدری عبدالاحمد، عبدالرشید غازی اور چوہدری عبدالمجید تھے۔ چوہدری عبدالاحمد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آڑھت کا کاروبار کرتے تھے، اب وفات پا چکے ہیں ان کا بیٹا طارق فاروق لاہور میں پاکستان لیبر پارٹی کا چیئرمین ہے اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔ عبدالرشید غازی کا ابتدا ہی سے اپنا الگ کاروبار تھا، ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کے دفتر اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے برانچ آفس کے مابین فائن آرٹ پریس کے نام سے اُن کا اپنے والد سے الگ پرنٹنگ پریس تھا، اس کے علاوہ اُنہوں نے پیکجنگ کا بھی ایک پریس لگا رکھا تھا، وہ کئی سال لائل پور میں ’’ڈان‘‘ کے نمائندہ خصوصی بھی رہے۔ چوہدری صاحب 7 مئی 1979ء کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔ اخبار کا انتظام و انصرام عبدالرشید غازی کے ہاتھ میں آگیا جنہوں نے ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کی پیشانی میں ’’بزنس‘‘ کا لفظ چھوٹا اور عملی طور پر اخبار کو ’’ڈیلی رپورٹ‘‘ کا نام دے دیا اور اسے تجارتی اخبار کے بجائے مکمل سیاسی اخبار کی صُورت دے دی، وہ سالہا سال پیپلز پارٹی کے ہم نوا رہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں اخبار کو پیپلز پارٹی کے ترجمان سے بھی بڑھ کر اینٹی ضیاء بنادیا جس سے اسے بے پناہ مقبولیت ملی، پھر جب نواز شریف عتاب میں آئے تو عبدالرشید غازی نے اخبار کو پرو نواز شریف بنادیا۔ اس طرح اُنہوں نے اپنے اخبارکو اینٹی اسٹیبلشمنٹ اخبار بنائے رکھا۔ اُنہوں نے سرکاری اشتہارات اور نیوز پرنٹ کے کوٹے کی کبھی پروا نہیں کی۔ اخبار کی آمدنی کا زیادہ انحصار مقامی اشتہارات اور اشاعت پر رہا۔ اُنہوں نے جدید پرنٹنگ مشینری سے اخبار کی رنگین طباعت کا اہتمام کیا۔ عبدالرشید غازی کی زیر ادارت ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ اشاعت و معیار کے اعتبار سے ایک امتیازی اخبار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو انہوں نے ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کو ایک برانڈ نیم بنا دیا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ ’’ڈیلی رپورٹ‘‘ ’’ڈیلی یارن رپورٹ‘‘ اور رپورٹ کے لاحقہ کے ساتھ کئی اور اخبارات عبدالرشید غازی کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں کیونکہ نام تو ان کے اخبار کا ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ ہے مگر بزنس کا لفظ چھوٹا لکھے جانے کے باعث قارئین میں ’’ڈیلی رپورٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔