ڈاکٹر انور سدید صاحب سے میرا رابطہ ان کی وفات سے چند روز پہلے تک برقرار رہا۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے سخت علیل تھے۔ چلنے پھرنے سے قاصر ہوئے تو بینائی نے بھی رفتہ رفتہ ان کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا مگر قلم کے ساتھ اپنا تعلق انہوں نے مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھا، شاید قلم کو وہ اپنے لئے ’’لائف سیونگ ڈرگ‘‘ سمجھتے تھے۔ اس لئے جیسے تیسے اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ اپنے خیالات کو قلم کے سہارے کاغذ پر بکھیرتے اور اشاعت کے لئے مجھے بھجواتے رہے۔ ان کے ہر مضمون کے ساتھ میرے نام کورنگ لیٹر ہوتا جس میں وہ اپنے مرض کی جملہ تفصیلات بتاتے اورآخری سطر میں یہ فرمائش کرتے کہ اس مضمون کی جلد اشاعت ممکن بنا لیں کیونکہ یہ شائع ہو گا تو مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ ملے گا اور لکھتا رہوں گا تو میری سانس کی ڈوری جسم کے ساتھ بندھی رہے گی۔ تکلیف دہ علالت کے باوجود ہر کرنٹ ایشو پر بے لاگ اور ماہرانہ تبصرہ تحریر کرتے ہوئے شاید وہ زندگی کے ان لمحات کو اپنے لئے آسودہ بنا لیتے مگر اس علالت میں بھی ان کی حاضر دماغی اور قلم پر ان کی گرفت کی مضبوطی دیکھ کر مجھے اکثر غالب کا یہ شعر یاد آتا کہ ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
چند روز قبل ان کے کورنگ لیٹر کے ساتھ ان کا جو مضمون موصول ہوا وہ ایک مرحوم شخصیت کی یاد میں لکھا گیا تھا۔ کورنگ لیٹر میں یہ پیغام کہ صحت اب بس جواب دے رہی ہے دعا کریں۔گذشتہ روز مجھے نیوز روم کی جانب سے ایک خبر بھجوائی گئی جو ڈاکٹر انور سدید کی سخت علالت کے پیش نظر قارئین نوائے وقت سے ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل پر مبنی تھی۔ میں نے یہ خبر اشاعت کے لئے واپس بھجوائی تو دل میں کرب کی کیفیت پیدا ہو گئی، اتوار کو یہ خبر شائع ہوئی اور اسی روز ان کے انتقال کی خبر آ گئی۔ اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون۔
انور سدید صاحب کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر طائرانہ نظر ڈالیں تو وہ انسان سے زیادہ مشین نظر آتے ہیں۔ سرکاری ملازمت سے ادب اور پھر صحافت کی خدمت تک ان کی زندگی کا کوئی لمحہ انہیں فارغ نہیں دکھائے گا۔ محکمہ انہار میں روٹی روزی والی عملی زندگی کا آغاز کیا مگر اعلیٰ تعلیم کی لگن دل سے محو نہ ہونے دی۔ معروف نقاد اور دانشور ڈاکٹر وزیر آغا کے گرائیں ہونے کے ناطے ان کے ساتھ رفاقت کا سلسلہ ادبی رفاقت میں تبدیل ہو گیا اور پھر وہ وزیر آغا مکتبۂ فکر کا حصہ بن گئے مگر وہ میدان ادب میں جستیں بھرتے ہوئے اپنے ممدوح ڈاکٹر وزیر آغا سے بھی کہیں آگے نکل گئے۔ میں نے 1972ء میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بی اے میں داخلہ لیا تو اس وقت ڈاکٹر وزیر آغا کے چھوٹے بھائی امجد علی آغا اس کالج کے پرنسپل تھے۔ دلدار پرویز بھٹی کی بھی اسی سال جی سی ساہیوال میں بطور لیکچرار پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی جو ہمارے انگریزی کے استاد تھے اور اپنی ظریفانہ طبیعت اور فنکارانہ صلاحیتوں کے باعث کالج کی ہر دلعزیز شخصیت بن گئے تھے۔ مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کا تبادلہ کسی دوسرے کالج میں ہوا تو ہم طلبہ نے ان کے حق میں باقاعدہ مظاہروں اور پرنسپل آفس کے گھیرائو کا سلسلہ شروع کر دیا چنانچہ محکمہ تعلیم ان کے تبادلے کے احکام واپس لینے پر مجبور ہو گیا۔ کالج میں ہم نوجوان لکھاریوں کا بھی ایک گروپ بن گیا تھا چنانچہ ڈاکٹر امجد علی آغا کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی تعلق استوار ہوا تو انہی کی زبانی ڈاکٹر وزیر آغا اور پھر ڈاکٹر انور سدید سے آگاہی ہوئی۔ بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں داخلہ لیا تو ڈاکٹر انور سدید کو ادبی مجالس میں رونق افروز ہوتا پایا۔ ان کے اکثر تنقیدی مضامین میں ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ ان کے لئے تعریفی کلمات میں ہوتا جبکہ ان کی تحریریں احمد ندیم قاسمی کی ادبی حیثیت میں نقائص نکالتی نظر آتیں۔ مجھے چونکہ جی سی ساہیوال کی لائبریری میں احمد ندیم قاسمی کی شاعری اور افسانوں پر مشتمل کتب کے مطالعہ کا موقع مل چکا تھا اور میں انہیں اپنے دور کے بڑے ادیبوں اور شعرا کی صف میں نمایاں مقام پر موجود پاتا تھا۔ اس لئے ڈاکٹر انور سدید کے تنقیدی مضامین میں جب میں نے احمد ندیم قاسمی کے باے میں نامناسب الفاظ کا مطالعہ کیا تو مجھے بہت گراں گزرا۔ مجھے میدان ادب میں کسی گروپ بندی کا تو قطعاً علم نہیں تھا مگر جب ادبی محفلوں میں شرکت کے دوران مجھے احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی گروپنگ کا اندازہ ہوا تو اس گروپنگ کے پس منظر سے آگاہی نہ ہونے کے باعث میں نے اس کا کھوج لگانا شروع کر دیا۔
احمد ندیم قاسمی کے گروپ میں ان کے رطب اللسانوں کا جم غفیر ہوتا تھا جن میں عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، خالد احمد اور دوسرے کئی قلمکار نمایاں نظر آتے جبکہ ڈاکٹر انور سدید تن تنہا ڈاکٹر وزیر آغا کی ڈھال بنے نظر آتے۔ ان ادبی گروپوں میں تفریق ’’فنون‘‘ اور ’’اوراق‘‘ کے ذریعے اجاگر ہوتی تھی۔ فنون احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت نکلتا تھا اور اوراق کی ادارت ڈاکٹر وزیر آغا اور پھر ڈاکٹر انور سدید نے سنبھالے رکھی۔ اس گروپ بازی میں ادب کی کیا خدمت ہوئی مجھے آج تک اس کی اس لئے بھی سمجھ نہیں آئی کہ صحافتی مصروفیات کے باعث مجھے ادبی مجالس اور مشاعروں میں شرکت کا موقع ہی نہیں مل پاتا تھا مگر ڈاکٹر انور سدید آسمانِ ادب پر جتنی بلندی پر چمکتے نظر آئے وہ ان کے لئے ڈاکٹر وزیر آغا کی ممدوحیت کا ہرگز متقاضی نہیں تھا کیونکہ ان کا مقام مجھے ڈاکٹر وزیر آغا سے بھی آگے کا نظر آتا تھا۔ زود نویس اتنے کہ ہر صنفِ سخن میں 80 سے زائد کتب ان کے زرخیز ذہنِ رسا کی علامت بن گئیں۔ سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد پیشہ صحافت اختیار کیا تو ایک سکہ بند صحافی کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئے اور پھر اپنی زندگی کے آخری سانس تک عملی طور پر اس پیشے کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہوں نے صحافت کا آغاز روزنامہ خبریں کے ادارتی سیکشن سے کیا اور پھر صحافتی سفر میں اپنا اگلا پڑائو نوائے وقت میں ڈالا۔ بیچ میں کہیں روزنامہ پاکستان اور قومی ڈائجسٹ میں بھی جلوہ گر نظر آتے رہے۔ نوائے وقت میں ادارتی سیکشن ان کی جولانیٔ قلم و طبع کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا۔ میری نوائے وقت سے وابستگی 1981ء سے شروع ہوئی تو یہاں میگزین کے ادبی صفحے میں عطاء الحق قاسمی اور انعام الحق جاوید کے ساتھ مجھے بھی معاونت کا موقع ملا۔ قاسمی صاحب نوائے وقت کے مقبول کالم نگار تھے اور احمد ندیم قاسمی گروپ سے وابستگی ان کا امتیازی وصف تھا۔ جب انور سدید صاحب نے نوائے وقت جوائن کیا تو ادبی گروپوں کی متضاد خیال آفرینیوں کی جھلک یہاں بھی نظر آنے لگی۔ احمد ندیم قاسمی کے ساتھ کسی ایشو پر مقدمہ بازی میں بھی ڈاکٹر انور سدید کا خاصہ عمل دخل رہا۔ میرے خیال میں احمد ندیم قاسمی کا بلند ادبی مقام و مرتبہ کسی گروپنگ کے سہارے کا متقاضی نہیں تھا مگر شاید ان کے مصاحبین نے انہیں کمپنی کی مشہوری کی خاطر انہیں گروپ بازی میں الجھائے رکھا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کے انتقال کے بعد ڈاکٹر انور سدید نے ان کے حوالے سے اپنی سوچ میں خاصی تبدیلی پیدا کر لی تھی اور وہ گروپنگ کی بنیاد پر قاسمی صاحب کے بارے میں اظہار خیال سے گریز پا نظر آنے لگے۔ انہوں نے تقریباً دس سال قبل خرابی صحت کے باعث نوائے وقت سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی مگر اس کے ساتھ اپنا قلم کا ربط و رشتہ برقرار رکھا۔ وہ اپنی زندگی میں دو بار ریٹائر ہوئے۔ ایک ریٹائرمنٹ انہوں نے سرکاری ملازمت میں اپنی عمر کے 60 سال پورے ہونے پر لی اور دوسری ریٹائرمنٹ انہوں نے نوائے وقت سے خرابی صحت کے باعث حاصل کی مگر یہ ریٹائرمنٹ صرف آفس میں نہ آنے کی حد تک تھی۔ اپنے گھر انہوں نے یادوں کا دبستان کھولے رکھا۔ کاغذ پر موتیوں کی طرح پروئے ان کے الفاظ اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ بس ان کی یادیں ہیں اور ہم ہیں دوستو ؎
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا