پرسوں صبح میں بستر سے اٹھا تو ساٹھ کی دہائی کے متنازعہ جدید شاعروں کے گروہ کے ایک رکن کی ایک نظم بلاوجہ میرے دماغ میں گھوم رہی تھی۔ میں نے گزشتہ رات کے خوابوں کی گٹھڑی کھول کر دیکھی تو کہیں میاں شہباز شریف گو زرداری گو کے نعرے لگاتے نظر آئے تو کہیں ڈاکٹر بابر اعوان کا جوابی حملہ دکھائی دیا اور کہیں ایم کیو ایم کی ریلی اور لاہور میں عمران خان کے جلسہ عام کے بارے میں پیشن گوئیوں کی جھلکیاں نظر آئیں۔ خیر پہلے وہ نظم پڑھ لیں۔ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔
آکا باکا چڑی چڑاکا
سائیاں دے گھر ہوا کاکا
کاکے ماری چیک
کاکا ٹپ گیا مسیت
یہ نظم 1963-64ء میں بحث کیلئے حلقہ ارباب ذوق میں پیش ہوئی تھی۔ اکثر شرکاء نے اسے بے معنی کہہ کر مسترد کر دیا۔ اختر احسن جو آج کل امریکہ میں ہیں بہت مستند سائیکولوجسٹوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس نظم کے معاملے میں اپنے موقف پر آڑے رہے جو یہ تھا ’’حضرات اپنا دماغ لڑائیے یا تو اس میں میں آپ کو نظر آ جاؤں گا یا آپ اپنے آپ کو ڈھونڈ لیں گے۔ آپ کوشش نہیں کرنا چاہتے تو بھاڑ میں جائیں۔ میں نے نظم لکھ کر اپنا کام پورا کر دیا ہے اور آپ سے معاوضہ نہیں لیتاکہ تشریح بھی کروں۔
اتوار کی صبح جب یہ نظم میرے دماغ میں گردش کر رہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ اختر احسن فوج میں سروسنگ میجر تھے ایوب خان کا زمانہ تھا ممکن ہے انہوں نے اس نظم میں انہوں نے آنے والے کچھ ’’کاکوں‘‘ کی نشان دہی کی ہو جو آگے چل کر چھوٹے موٹے گھر کی بجائے مینار پاکستان جیسی وسیع جگہوں پر پیدا ہوں اور خود ’’چیک‘‘ مارنے کے بجائے دوسروں سے ایسی چیکیں مروانے کی اتنی طاقت رکھتے ہوں۔ ایوب خان کے بعد ’’سائیوں‘‘ نے یحیٰی خان کی شکل میں کاکا پیدا کیا۔ اس کاکے نے ایسی خوفناک ’’چیک‘‘ ماری کہ اس دوران منہ اتنا کھول لیا کہ آدھا ملک اندر دھنس گیا۔ اس عمل کے دوران اس کاکے کے سائیوں کے گھر ایک سویلین کاکا پیدا ہوا۔ وہ بہت سخت جان تھا۔ لیکن 1979ء میں زمین پھٹی اور چیخ مارے بغیر زمین کے اندر اتر گیا۔ میر زادوں کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ان کے گھر بیٹا پیدا ہو جائے تو چوم چوم کر مار دیتے ہیں۔ ہماری جمہوری روایات کی انفرادیت یہ ہے کہ گھر والے چوم چوم کر ’’کاکے‘‘ کو ادھ مویا کرتے ہیں اور بے اولاد پڑوسی صدقہ دیکر اولاد کی خواہش پوری کر لیتے ہیں۔
طویل عرصے کی غیر حاضری سے مجھے کئی نقصانات ہوئے۔ سہیل ظفر صاحب فوت ہو گئے۔ میں کالم نہیں لکھ سکا۔ 1964ء میں ہم اکٹھے روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی میں ملازم ہوئے تھے۔ یہ دوستی روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں ان کے آخری دم تک قائم رہی۔ ہم دونوں نے بہت سے کارنامے مل کر انجام دئیے۔ جن میں سے ایک یادگار کارنامہ حاضر خدمت ہے۔ 1988ء میں جنرل ضیاء کے انتقال کے بعد ہم دونوں اپنے دوست ضیاء الاسلام انصاری مرحوم کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ اس وقت وہ پریس ٹرسٹ کے چیئرمین تھے اور ایوان صدر میں میٹنگ کیلئے گئے ہوئے تھے۔ وہاں پر وہ ایسے پھنسے کہ ہم بور ہو کر تخلیقی کام میں مصروف ہو گئے۔ باتوں باتوں میں فیصل مسجد میں ضیاء الحق کے مزار کا ذکر آیا تو میں نے انہیں کہا کہ یار کیوں نہ ان کے مزار سے ملحقہ چوک کا نام جبڑا چوک رکھ دیا جائے۔ انہوں نے فوری طور پر اس نام کی منظوری دے دی۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ ضیاء الاسلام انصاری صاحب پتہ نہیں کب واپس آئیں گے۔ اس وقت ان کا سرکاری فون ہماری صوابدید پر ہے۔ شہر میں بہت سارے نامور لوگ تمہارے واقف ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر جو یہ شہ پارہ تخلیق کیا ہے اسے آپ اپنے اہم اور بے تکلف شناسوں کو فون کر کے رجسٹرڈ کروا دیں۔ ہماری کوشش کامیاب رہی اور چند دن بعد اس چوک کا عوامی نام ہی جبڑا چوک بن گیا۔ مجھے دعویٰ ہے کہ یہ موزوں نام میری تخلیق اور سہیل ظفر کی پیشکش تھی۔ خیر کوئی اور دعویٰ دار ہو تو براہ کرم مجھ سے رابطہ کرے تاکہ اس کی کاوش ضائع نہ ہو۔
حمید اختر صاحب کی وفات پر بھی مجھ سے کچھ نہیں لکھا گیا۔ حالانکہ میرا ان کے ساتھ 45-46 سال کا تعلق تھا۔ درمیان میں سالہا سال ملاقات کے بغیر بھی گزرے لیکن اس تعلق میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ میں روزنامہ امروز میں سب ایڈیٹر تھا اوروہ اسسٹنٹ ایڈیٹر ’’بکار خاص‘‘ تھے۔ چلتے چلتے ان کے فرائض کی بھی وضاحت کرتا چلوں۔ وہ اس زمانے میں روزنامہ امروز کے ایڈیٹر ظہیر بابر کے بعد سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر تھے۔ یعنی شیڈو ایڈیٹر تھے۔ لیکن ظہیر صاحب کسی وجہ سے ان سے ناراض تھے۔ اس لئے انہیں ہر اہم کام سے فارغ کرکے ایڈیٹر کی ڈاک کا انچارج بنا رکھا تھا۔ حمید اختر صاحب خوبصورت آدمی تھے۔ خوش لباس بھی تھے۔ کبھی سر کے بالوں کی کمی کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے لیکن پردہ داری کیلئے عام طور پر فیلٹ ہیڈ پہن کر اپنی ذاتی گاڑی پر دفتر آتے اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر چائے کا ’’لنگر‘‘ کھلا رکھتے۔ وہ مختلف امور پر باتیں کرنے کیلئے ملاقاتی جمع کر لیتے۔ آخر میں جلدی جلدی ایڈیٹر کی ڈاک نمٹا کر گھڑی دیکھتے ’’اچھا بھائی خدا حافظ‘‘ کہہ کر چلے جاتے۔ وہ امروز اور پاکستان ٹائمز میں بہت مقبول لیکن ایڈیٹر ظہیر بابر کے زیر عتاب تھے اس لئے انہیں بطور سزا فارغ بیٹھنا پڑتا ہے۔ میں نیوز سیکشن میں سب ایڈیٹر تھا اور مجھے 8 گھنٹے مسلسل ڈیوٹی کرنا پڑتی تھی اس لئے بہت تنگ تھا۔ ظہیر بابر صاحب مجھ پر بہت مہربان تھے لیکن حمید اختر صاحب کو دیکھ دیکھ کر مجھ میں بھی زیر عتاب آنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں مولانا چراغ حسرت کے صاحبزادے ظہیر جاوید اور امروز میں حمید اختر صاحب کی کیٹگری کے ایک اور زیر عتاب فخر ہمایوں کا بھی بہت مداح تھا۔ ان کی صدارت میں ظہیر جاوید اور میں نے پنجاب یونین جرنلسٹ کے امروز یونٹ کو الگ سے یونین رجسٹرڈ کرا لیا اور کسی بڑے چھوٹے سے مشورہ کئے بغیر انتظامیہ کو ہڑتال کا نوٹس بھجوا دیا۔ ظہیر بابر صاحب اس کارروائی پر بہت ناخوش ہوئے۔ دوسری طرف ہم بڑے حوصلہ میں تھے۔ ہمارے تمام کولیگز ہمیں اس بہادری پر داد دیتے رہے لیکن آخر میں جب یہ ہڑتال کا نوٹس جنرل باڈی میٹنگ میں پیش ہوا تو ظہیر بابر صاحب کے مقابلے میں ہم پر اپنی مقبولیت کی قلعی کھل گئی۔ 30 کے ایوان میں ہم صرف تین تھے۔ شرمسار ہو کر ظہیر جاوید اور میں نے استعفٰی دے دیا۔ میرا استعفٰی نامنظور اور ظہیر جاوید کا استعفٰی منظور ہو گیا۔ بعد میں کچھ سینئر ساتھیوں نے مداخلت کرکے ظہیر بابر صاحب کو راضی کر لیا کہ وہ ظہیر جاوید کا استعفٰی نامنظور کر دیں لیکن ظہیر جاوید واپس آنے کیلئے تیار نہیں ہوا۔ مجھے سزا تو ملی مگر حمید اختر صاحب سے بالکل الٹی۔ کچھ عرصے تک مجھے ڈبل ڈیوٹیاں ملتی رہیں کہ کبھی میں دن کی شفٹ سے فارغ ہوتا تھا کہ نیوز ایڈیٹر صاحب تحریری حکم بھیج دیتے تھے کہ رات کی شفٹ میں ایک آدمی کم ہو گیا ہے اس لئے تم اوور ٹائم کرو۔
چند ماہ بعد پی پی ایل ورکرز یونین قائم ہوئی۔ جس میں اخبارات کے تمام شعبوں کے کارکن شامل تھے اور یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور سب سے طاقتور یونین تھی۔ اسی سال پنجاب یونین جرنلسٹ کے انتخابات ہوئے اور حمید اختر صاحب اس کے صدر منتخب ہو گئے۔ اے ٹی چودھری صاحب کو پی پی ایل ورکرز یونین کا بلامقابلہ صدر منتخب کر لیا گیا اور خدا جانے کس نے دھکا دے کر مجھے جنرل سیکرٹری بنوا دیا۔ ایک آدھ ماہ بعد ویج بورڈ ایوارڈ کیلئے ہڑتال ہونے والی تھی۔ میں نے اپنی صحافتی یونینوں کے حوالے سے لیبر قوانین کے ماہروں سے مشورہ کیا تو مجھے پتہ چلا کہ پی ایف یو جے اور صحافیوں کی تمام صوبائی یونینوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ میرے والد صاحب لاہور میں لیبر آفیسر تھے۔ وقت بہت کم تھا۔ لیکن میں نے ان کی مدد سے اپنی پی پی ایل ورکرز یونین کو باضابطہ طور رجسٹرڈکروا لیا اور قانون کے تمام تقاضوں کے مطابق اس ہڑتال کیلئے مقررہ مدت میں اپنی یونین کی طرف سے ہڑتال کا نوٹس الگ سے بھجوا دیا۔ ملک بھر میں تمام صحافی ہڑتال پر چلے گئے۔ دوسرے ہی دن پی پی ایل انتظامیہ ادارے نے کارکنوں کے تمام مطالبات منظور کر لئے جس کے بعد ہم قانونی طور پر ہڑتال جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ میں نے حمید اختر صاحب سے اس معاملے پر بات کی اور مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی ہڑتال ختم کر دینی چاہیے اور دوسرے اداروں کی حمایت کیلئے جلسے جلوس نکالنے چاہیءں۔ انہوں نے میری عدم موجودگی میں میری تجویز کو یونین کے دوسرے لیڈروں کے سامنے پیش کیا اور مجھے ’’بزدل‘‘ قرار دے کر میرے خلاف متفقہ فتویٰ لے لیا۔ ٹھیک چار دن کے بعد وہی کچھ ہوا جس سے میں نے حمید اختر صاحب کو خبردار کیا تھا۔ ادارے کی پریس ورکر یونین جو انتظامیہ کے کہنے پر ہمارے ساتھ ہڑتال میں شامل تھی اپنے تمام ورکرز کو لے کر واپس دفتر میں ڈیوٹی پر چلی گئی۔ اسی شام نثار عثمانی صاحب کے دفتر میں میٹنگ ہوئی۔ شیخ حامد محمود نیشنل پریس ٹرسٹ کے سابق چیئرمین اس میٹنگ میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کل تمہارے مزید ساتھی ہڑتال توڑ کر دفتر میں واپس جانے والے ہیں۔ اس لئے ہڑتال کال آف کرکے اپنی جان چھڑا لو۔ میرے دماغ میں حمید اختر صاحب کا طعنہ پھنسا ہوا تھا۔ اس لئے میں نے کہا کہ حمید اختر صاحب سے پوچھ لیں کہ بعد میں اسے بہادری کہا جائے گا یا کہ بزدلی۔ حمید صاحب بڑے صاف دل آدمی تھے۔ انہوں نے اس بات کا برا بھی نہیں مانااور میری بات ہنسی میں اڑ کر شیخ حامد محمود صاحب کی تجویز مان لی۔ اگلے دن ہم سب سر نیچے کرکے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ ٹھیک تین دن بعد انتظامیہ نے اے ٹی چودھری صاحب، عبداللہ ملک صاحب، حمید اختر صاحب،آئی اے رحمان صاحب، منہاج برنا صاحب اور میرے علاوہ سات پریس ورکرز برطرف کئے اور دفتر کے اندر داخلے پر پابندی لگا دی۔ برطرفی کے پروانے لینے والے باقی لیڈر تو گھر چلے گئے اور برطرف ہونے والے پریس ورکرز صرف آئی اے رحمان صاحب، عبداللہ ملک صاحب اور میری ذمہ داری بن گئے۔ ہم ان کی کفالت کیلئے چندہ بھی جمع کرتے اور مقدمے بھی لڑتے تھے۔ انتظامیہ کے خلاف جنرل سیکرٹری کے طور پر میں ہر مقدمے میں مدعی تھا۔ اے ٹی چودھری کے اصرار پر میں نے ایک غلطی کی تھی۔ لیکن آخری مقدمے کے اختتام پر جب انتظامیہ کے وکیل ایم اے رحمان نے (جو بعد میں بھٹو کیس میں اعجاز بٹالوی صاحب کے معاون تھے) مجھے کٹہرا میں کھڑا کیا اور جرح شروع کی تو میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہماری یونین نے قانون سے کوئی انحراف نہیں کیا۔ ہمارے تمام مطالبات نہیں مانے تھے۔ (میں نے چند نام بھی گنوائے جن پر ایوارڈ نافذ نہیں ہوا تھا) اس لئے ہم نے ہڑتال جاری رکھی۔ انہوں نے ایک خط نکال کر سامنے رکھ دیا جس میں مطالبات ماننے پر شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ میں نے کہا کہ اس طرح کے خط ہڑتال کے دوران ہڑتالیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لئے اور ہر روز خبریں چھپوانے کیلئے جاری کر دئیے جاتے تھے اور ہر خط پر میرا صرف نام ہی لکھ دیا کرتے تھے۔ اس خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یہ ایک ذاتی خط ہے جس کا یونین کے ریکارڈ میں کوئی اندراج نہیں۔ تھوڑی دیر بعد عدالت کا وقفہ ہوا تو انتظامیہ کے وکلاء نے عبداللہ ملک صاحب اور آئی اے رحمان صاحب کو پیشکش کی کہ ہم (Dismissal) کو (Termination) میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ آپ اپنے واجبات لے لیں، لمبی مقدمہ بازی میں آپ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یاد رکھیں کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس ایس اے رحمان نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں اور کوئی بھی قانون یا انصاف ہمارے ہاتھ میں ہے۔ انتظامیہ کے وکیل ایم اے رحمان صاحب وقفے کے دوران جج صاحب سے چیمبر میں ملاقات کے بعد یہ پیشکش لائے تھے۔ ہمیں یاد تھا کہ ہائیکورٹ میں ہماری ایک پٹیشن میں میاں محمود علی قصوری وکیل تھے اور جج صاحب نے پوری بات سنے بغیر ہی رد کر دی۔ ہم نے یہ آپشن قبول کر لی۔ اس ساری خجل خواری میں حمید اختر صاحب ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ ان کا سٹائل تھا۔ اس کے باوجود جب انہیں واجبات ملے تو ان کی تمام رقم ہم لوگوں نے بحق سرکار ضبط کر لی۔ اس ’’بحق سرکار‘‘ اکاؤنٹ کا نام روزنامہ ’’آزاد‘‘ تھا۔ وہ اپنے مقدموں کے بارے میں بھی بے پرواہ تھے اور ان مقدموں سے حاصل ہونے والی رقم بھی اسی بے پرواہی سے اخبار کے چندے میں جمع کرا دی۔
عبداللہ ملک صاحب اور رحمان صاحب نے پی پی ایل (پاکستان ٹائمز اور امروز) انتظامیہ کے ساتھ مقدمات سے فارغ ہوتے ہی اخبار نکالنے کے منصوبے پر غور شروع کر دیا۔ میں ہر مشورے میں شامل رہا لیکن کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ اسی زمانے میں حنیف رامے صاحب روزنامہ ’’مساوات‘‘ نکالنے کی تیاری میں تھے اور وہاں میری پکی نوکری کا اعلان کر چکے تھے لیکن میرے پاؤں میں عبداللہ ملک صاحب اور رحمان صاحب نے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ حمید اختر صاحب نے اس معاملے میں کوئی خاص دخل نہیں دیا۔ شاید یہ ان کا لائف سٹائل تھا کہ کبھی کبھار بڑی بڑی اور انتہائی سنگین باتوں کو اس طرح نظر انداز کر دیتے تھے جیسے ان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ وہ اداریہ لکھ کر فارغ ہو جایا کرتے تھے لیکن 7 دسمبر 1970ء کے الیکشن کی رات ایڈیٹوریل سیکشن میں دو بجے رات تک ملک صاحب اور رحمان صاحب کے ساتھ تھے۔ میں نیوز روم میں اکیلا اپنی کاریگری دکھاتا رہا۔ عزیز اختر کے ساتھ مل کر ایک یادگار اخبار بنایا۔ پرنٹنگ کیلئے کاپی بھجوانے کے بعد حمید اختر صاحب کے کمرے میں آیا تو اچانک ہم چاروں کو پتہ چلا کہ ہم نے تو ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا۔ ’’مکمل طعام‘‘ کی توقع صرف عبداللہ ملک صاحب سے لگائی گئی۔ وہ سخاوت کے موڈ میں تھے۔ ہم چاروں ان کے گھر چلے گئے۔ صبح چار بجے حمید اختر صاحب کی کار میں اخبار مارکیٹ جانے کی سوجھی۔ حمید اختر صاحب کار ڈرائیو کر رہے تھے۔ رحمان صاحب ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے اور میں پچھلی سیٹ پر نیم غنودگی کی کیفیت میں تھا کہ ماڈل ٹاؤن والے نہر کے پل پر اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ تیز رفتار کار کوئی ایک فٹ ہوا میں اچھل کر واپس سڑک پر اتری اور اسی رفتار سے دوڑتی ہوئی آگے آگے چلتی گئی۔ رحمان صاحب نے پوچھا ’’کیا ہوا ہے‘‘۔ جواب ملا کچھ نہیں ہوا۔ وہ دوسری طرف کوئی تیز رفتار بس آ رہی تھی جو ہماری کار سے ٹکرا گئی ہو گی۔ دفتر واپس پہنچ کر کار کی بیرونی حالت کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ پچھلا دروازہ پچک کر آدھی سیٹ پر لیٹا ہوا ہے۔ میں اور رحمان صاحب چپ تھے لیکن جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے حمید اختر صاحب نے ماہرانہ ڈرائیونگ پر اپنے آپ کو داد کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
واپس چلتے ہیں روزنامہ ’’آزاد‘‘ کے اجرا کی طرف، جو اصل میں عبداللہ ملک صاحب اور آئی اے رحمان صاحب کا خواب تھا۔ حمید اختر ’’منظوری‘‘ دینے کے لئے تھوڑا بہت وقت نکال لیا کرتے تھے اور میں اپنی ہنڈا ففٹی سی سی رحمان صاحب کا مستقل مشقتی تھا۔ وہ خود بھی رات بھر جاگنے کے عادی تھے لیکن ’’نائٹ برڈ‘‘ کہہ کر خود کو بے قصورسمجھنے کا طعنہ ہمیشہ میرے حصے میں آیا کرتا تھا۔ روزنامہ آزاد کا ڈیکلریشن عبداللہ ملک صاحب نے اپنے ایک پرانے کامریڈ شیخ ریاض سے ’’ادھار‘‘ لیا۔ پھر ایک تہہ خانے میں دفتر بنایا گیا۔ ابھی مالی انتظامی معاملات زیر غور ہی تھے اور امکانات کی شکل بھی نہیں بنی تھی کہ کراچی تک کے بے روزگاروں نے ’’آزاد‘‘ کا رخ کر لیا۔ اکثر سینئر لوگوں کی تنخواہیں ہماری اوقات سے باہر تھیں لیکن ’’آزاد‘‘ اور اس کے منتظمین سٹاف بھرتی کرتے گئے۔ ہم میں سے کوئی تنخواہوں میں رعایت مانگتا تو حمید اختر صاحب کی دریا دلی آڑے آ جاتی۔ اخبار نکلنے سے پہلے سب سے دلچسپ واقعہ یہ ہوا جب ایڈیٹر کا فیصلہ ہونے لگا تو حمید اختر نے روزنامہ ’’امروز‘‘ سے بھاری تنخواہ لینے والے ایک صحافی کا نام پیش کر دیا۔ کچھ دیر سناٹا طاری رہا لیکن آخر مجھے ہی سچ بولنا پڑا جو حمید اختر صاحب کو بہت برا لگا ہو گا۔ میں نے کہا کہ میری صحافتی عمر تو ابھی صرف پانچ سال ہے۔ آپ تینوں حضرات سالہا سال سے مسلمہ ایڈیٹروں میں شمار ہوتے ہیں اور موجودہ صحافت کے درجن ڈیڑھ درجن برانڈ ناموں میں شامل ہیں۔ ابھی تک بلا تنخواہ ایڈیٹر بننے کے قابل بھی نہیں بن سکے۔ مختصر سے ایک اور سناٹے کے بعد حمید اختر صاحب (مدیر مسؤل) آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک صاحب پر مشتمل مجلس ادارت قائم ہوئی۔ مجھے چیف نیوز ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ ہم چاروں کی شرائط ملازمت میں بلاتنخواہ اخباری کام کرنے کے علاوہ چندے جمع کرکے کارکنوں کو تنخواہیں دینا شامل تھا۔ عبداللہ ملک صاحب کے ملک بھر کے سیاستدانوں سے تعلقات بہت وسیع تھے۔ نئی کار کے مالک تھے، شاندار کپڑے پہنتے تھے۔ مولانا مفتی محمود اور مولانا کوثر نیازی کے ساتھ دو ملاقاتوں میں وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اخبار کے فنڈ مانگتے وقت انہیں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ رحمان صاحب کو میری ہونڈا ففٹی سی سی پر جانا پڑتا تھا۔ اس لئے عام طور پر شرمندگی کے ساتھ وعدہ فردا پر بھی قناعت کرنی پڑتی ہے۔ ابتدائی انتظامات مکمل ہوتے ہی اخبار نکل آتا۔
ہمارا پہلا ہی دن تھا جب ایک مذہبی جنونی نے کراچی ائرپورٹ پر پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ کو گاڑی سے کچل کر قتل کر دیا۔ دوسرے اخبار ڈر گئے لیکن میں نے بالکل سیدھی سرخی لگا دی کہ اسے قتل یا ہلاک کر دیا گیا۔ اگلی صبح ہم چاروں اخبار مارکیٹ میں گئے تو کچھ ایجنٹوں اور ہاکروں کا خیال تھا کہ حکومت اسی روز ہی ’’آزاد‘‘ کو بند کر دے گی لیکن ہمارا اخبار پہلے ہی روز ہٹ ہو گیا۔ اگلے تین دن میں نے مزید حقائق اور مختلف اطلاعات جمع کرکے اصل منصوبے کو بے نقاب کر دیا۔ قاتل جماعت اسلامی کا کارکن تھا اور مولانا مودودی کا سچا پیروکار تھا۔ چار دن میں ’’آزاد‘‘ کی دھوم مچ گئی۔ حمید اختر صاحب ادارتی صفحات مکمل ہونے پر چلے جاتے تھے۔ ملک صاحب آدھی رات سے کچھ پہلے تک ساتھ دیتے میں اور آئی اے رحمان صاحب آخری کاپی تک کام کرتے۔ اداریہ اور میگزین کے صفحات کے ساتھ انتظامی معاملات بھی ان کے ذمے تھے۔ نیوز سیکشن کا انچارج میں تھا۔ میں نے ایسی ایسی سرخیاں لگائیں کہ تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ کئی سرخیوں پر عبداللہ ملک صاحب بہت ناراض ہوئے لیکن میری آزادی میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ سمیت چند ’’مہلک‘‘ سرخیوں پر وہ مجھ پر پھٹ پڑے لیکن میں اپنی اس بات پر اڑا رہا کہ آپ اس ملک کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتے۔ ملک صاحب اور رحمان صاحب شیخ مجیب اور بھٹو صاحب کے درمیان کسی نہ کسی تصفیے کے حق میں تھے۔ عبداللہ ملک صاحب کو ایک پاکستان کیلئے تحریری اور تقریری جنگ لڑنے کا یہ انعام بھی ملا کہ انہیں بنگالیوں کا حامی قرار دے کر مارشل لا عدالت نے ایک سال قید کی سزا سنا دی۔ یہ مقدمہ بھٹو صاحب کے روزنامہ مساوات کے مطالبے پر قائم ہوا جس نے ان کی ایک تقریر کو سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے انہیں ’’غداری‘‘ کا ملزم بنانے کیلئے پورا زور لگا رکھا تھا۔ ’’مساوات‘‘ بھٹو صاحب کے نام پر بکتا تھا۔ میں نے یہی ’’کارڈ‘‘ زیادہ خوبصورتی سے کھیلا اور ’’مساوات‘‘ کی سرکولیشن ہتھیا لی۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ بھٹو صاحب ’’آزاد‘‘ کے کنٹرولنگ شیئرز کو خریدنے کیلئے تیار تھے۔ وہ جب بھی لاہور آتے ’’مساوات‘‘ اور ’’آزاد‘‘ کو آمنے سامنے رکھ کر یہ سوال پوچھا کرتے تھے کہ ان میں سے میرا اخبار کونسا ہے۔ بھٹو صاحب کی حد تک یہ پالیسی سرکولیشن بڑھانے کیلئے میری کامیاب حکمت عملی تھی۔ صرف بھٹو صاحب کے معاملے میں ہی نہیں، میں نے دوسرے اہم واقعات میں سرخیوں اور تصویروں سے ایسے ایسے نئے رنگ بھرے کہ جوانمردی کے باوجود ’’آزاد‘‘ اردو صحافت کے منفرد دور کی یادگار بن گیا۔
قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج آنے پر میں نے اتنا خوبصورت اخبار نکالا تھا کہ مارکیٹ میں جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ اگلے روز منیر نیازی مرحوم نے مجھے بتایا کہ ہاکروں نے تمہارے اخبار کا صرف صفحہ اول دکھانے پر لوگوں سے سات روپے وصول کئے۔ میں نے یہ کہانی اس لئے لکھی ہے کہ آزاد کی ٹیم میں سے کوئی لکھ یا کروڑ پتی نہیں تھا۔ لیکن واجبی سے کم وسائل کے باوجود ہم نے ’’آزاد‘‘ کو ہمیشہ یاد رہنے والا اخبار بنا کر دکھا دیا تھا۔ عبداللہ ملک صاحب مشکل وقت میں ہمیں ’’کھوبے‘‘ سے نکال لیا کرتے تھے لیکن مارشل لا کے مقدمے میں جیل جانے کے بعد جب ان کے اپنے اثاثے منجمد ہو گئے تو ہمیں ہار ماننی پڑی اور اخبار بند ہو گیا۔ میں نے اپنے ’’ہنڈا فرینڈ‘‘ رحمان صاحب سے اجازت لیکر اپنی ہنڈا ففٹی سی سی بیچ کر قرضے چکائے اور مساوات کا نیوز ایڈیٹر بننے کیلئے رامے صاحب کی پیشکش قبول کر لی۔ یونین میں میرا اپنا گروپ بھی تھا اس لئے میں تو بے عزتی سے بچ گیا لیکن انہی کارکنوں نے جن کو آزاد نے مانگ تانگ کر ایک سال تک زندہ رکھا تھا، ملک صاحب، حمید اختر صاحب، رحمان صاحب کے احسانات کا بدلہ خوب چکایا۔ میں ان کے بارے میں دیواروں پر لگے ہوئے پوسٹر اور سڑکوں پر لٹکتے ہوئے بینر دیکھتا تو میرا دل پھٹنے لگتا تھا، پھر مجھے یاد آتا کہ ہم بے قصور تو نہیں تھے جب ہم بڑی بڑی تنخواہوں والے بے روزگار اور ناکارہ لوگوں پر ترس کھا رہے تھے اور حمید اختر صاحب، رحمان صاحب اور ملک صاحب چندوں، امدادوں، قرضوں کے علاوہ برطرفی کے عوض ملنے والے ذاتی واجبات احسان فراموشوں کی نذر کر رہے تھے۔ انہوں نے مالک بن کر اپنے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔ پی ایف یو جے کے عظیم رہنما منہاج برنا صاحب بھی پی پی ایل سے ہمارے ساتھ برطرف ہوئے۔ کچھ برا وقت انہوں نے روزنامہ ’’آزاد‘‘ کی تنخواہ پر گزارا۔ جب حالات بہتر ہوئے اور دوبارہ وہ پی ایف یو جے کے صدر بھی بن گئے پھر انہی کے حکم پر پی ایف یو جے کے تین بنیادی ستونوں آئی اے رحمان، عبداللہ ملک اور حمید اختر کو پی ایف یو جے کی رکنیت سے نکالا گیا، بعد میں ایک مرحلے پر میں نے برنا صاحب کے مخالف ضیاء الاسلام انصاری مرحوم کے گروپ کی مدد سے ایگزیکٹو کے اجلاس میں ان کی رکنیت بحال کروائی لیکن جب یہ فیصلہ جنرل باڈی کے اجلاس میں پیش ہوا تو ایک خاص گروپ سے ان کے خلاف شرمناک نعرے لگوائے گئے۔ میں شرمندہ ہو کر اجلاس سے باہر نکل آیا۔
حمید اختر صاحب کے بارے میں ابھی بہت سی باتیں باقی ہیں اور ایک سوال کا قرض بھی کئی سالوں سے مجھ پر واجب الادا ہے کہ ’’ردانقلاب‘‘ کا مرتکب ہو کر میں لاہور میں دائیں بازو کے ٹریڈ یونین لیڈر ضیاء الاسلام کا ساتھی کیوں بن گیا تھا۔ یہ اسی کہانی سے جنم لینے والی ایک اور کہانی ہے۔۔۔ لکھوں گا لیکن ’’کاکے‘‘ کی ’’چیک‘‘ کا راز بتانے کے بعد!