تجزیہ : قدرت اللہ چودھریسب کچھ وہی، کچھ بھی نیا نہیں، کھیل بھی پرانا، کھلاڑی بھی پرانے، کھیل کا میدان بھی نیا نہیں۔ جال بھی پرانا، شکاری بھی پرانے، شراب بھی پرانی، بوتل بھی پرانی، نعرے بھی پرانے، نعرے لگانے والے بھی پرانے، عوامی تحریک نے انقلاب سے مایوس ہوکر اب قصاص کا نعرہ لگا دیا ہے۔ استعفا لینے اور حکومت گرائے بغیر واپس نہیں جانا، کیا پہلے بھی یہی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا؟ پھر ایک انقلاب کے بغیر واپس ہوگئے اور دوسرے کی جیب آج تک استعفے سے خالی ہے۔ وہی عوامی تحریک اور وہی ہاتھوں میں کدالیں لئے اور کفن پہنے قبریں کھودتے ہوئے جوشیلے کارکن جو ایک حکم پر یوٹرن لے لیتے اور دوسرے پر دائیں بائیں جس جانب حکم ہوتا ہے، گھوم جاتے ہیں۔ علامہ مشرقی یاد آتے ہیں، کیا ان کی تحریک تھی اور کیا اٹھان تھی، چپ راست کرنے والوں کا کیا بانکپن تھا اور کیا سجیلے باوردی سیاسی کارکن تھے، لیکن 1947ء میں دلی کی جامع مسجد کے خاموش میناروں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک ہی حکم کے ذریعے یہ تحریک آنّا فاناً تتر بتر ہوگئی۔ 4 جولائی کو قائد تحریک علامہ مشرقی کا یہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا کہ تحریک کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ہے۔ قائد تحریک نے یہ فیصلہ اس لئے سنایا کہ ان کے حکم کے مطابق تین لاکھ بندے جمع کرنے کا جو ٹارگٹ پیروکاروں کو دیا گیا تھا، وہ پورا نہیں ہوسکا تھا۔ عمران خان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ 10 لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع ہوں گے، لیکن اگر یہ حسرت ناتمام رہی تو کیا وہ علامہ مشرقی کی طرح اپنی تحریک کی بساط لپیٹ دیں گے یا پھر خفت مٹانے کیلئے کسی اگلے دھرنے کا اعلان کر دیں گے۔ کیا خوب کہا مخدوم جاوید ہاشمی نے جو گھر کے پرانے بھیدی ہیں کہ ایک گھنٹہ پہلے عمران خان کو پتہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے جلسے میں کیا کہنا ہے تو گویا تقریر کے مضامین غالب کے الفاظ میں غیب سے آتے ہوں گے۔ڈاکٹر طاہر القادری کچھ عرصے سے تحریک انصاف سے ناراض ناراض چلے آرہے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ عمران خان نے انہیں دھرنے اور رائے ونڈ کے جلسے کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا۔ اس لئے عوامی تحریک ان کے کسی پروگرام میں شامل نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنی تحریک قصاص البتہ الگ سے شروع کئے رکھی اور پھر اچانک یہ کہہ کر بیرون ملک چلے گئے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن یورپی یونین میں اٹھائیں گے، اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ مرحلہ کہاں تک پہنچا، ان کی قانونی ماہرین سے مشاورت کیا رنگ لائی اور یہ معاملہ یورپی یونین کی عدالت وغیرہ یا کسی سیاسی پلیٹ فارم پر اٹھایا گیا یا نہیں؟ البتہ ایسی اطلاعات ضرور آتی رہیں کہ تحریک انصاف کوشش کرے گی کہ اپنے دھرنے میں عوامی تحریک کو بھی شامل کرے۔ اس بات کا امکان یوں ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پس پردہ کوششیں جاری تھیں، اب نہیں کہا جاسکتا کہ عوامی تحریک کے تازہ فیصلے تک پہنچنے کے حقیقی محرکات کیا ہیں اور اس نتیجے تک پہنچنے میں پس پردہ رابطہ کرنے والوں کا کتنا ہاتھ ہے۔ 14 اگست 2014ء کو لاہور سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے جلوس اپنے اپنے پروگرام سے نکلے تھے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری کو گجرات میں ناشتہ دیا جانا تھا، لیکن وہ وہاں رکنے کی بجائے سیدھے اسلام آباد پہنچ کر خیمہ زن ہوگئے، عمران خان بھی ان سے تھوڑے فاصلے پر اپنے کارکنوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور دونوں لیڈروں نے دھرنے کے شرکاء سے دن میں کئی کئی مرتبہ خطاب شروع کر دیا۔ دونوں دھرنے الگ الگ براجمان تھے، تاہم جب انہوں نے ڈی چوک کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کیا تو باہم مدغم ہوگئے۔ ڈی چوک میں بھی اگرچہ فاصلے تو موجود تھے لیکن بعض اوقات ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کا احساس ہوتا تھا۔ کنٹینر سے تقریریں الگ الگ ہوتی تھیں لیکن ایک موقع پر عمران خان اور طاہر القادری ایک ہی کنٹینر پر آگئے اور اپنے خطاب میں موخر الذکر نے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کو ’’سیاسی کزن‘‘ قرار دے دیا۔ پرجوش تقریریں جاری رہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کے پیش نظر انقلاب تھا، جس کی رعایت سے وہ قائد انقلاب بھی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ ابھی تک ان کے انقلاب کا کہیں دور دور تک امکان نہیں۔ اب تو وہ اپنی احتجاجی تحریک کا نام بھی بدل کر ’’تحریک قصاص‘‘ رکھ چکے ہیں۔ گویا انقلاب کا مقصد اگر پوری طرح ختم نہیں ہوا تو بھی فی الحال نظروں سے اوجھل ضرور ہے، اور جو چیز سامنے ہے، وہ قصاص ہے۔2014ء کے دھرنے میں عمران خان کا مطالبہ یہ تھا کہ وزیراعظم استعفا دیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک برس تک اسی طرح دھرنے میں بیٹھے رہیں گے لیکن استعفا لئے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔ لیکن ڈھائی ماہ بعد ڈاکٹر طاہر القادری اپنا دھرنا سمیٹ کر لاہور آگئے اور کارکنوں کو اپنے گھر کو واپس جانے کی اجازت دے دی، جن سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جو لیڈر انقلاب کے بغیر واپس آئے اسے قتل کر دیا جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے اس فیصلے نے عمران خان کو مایوس نہیں کیا اور وہ بدستور وہاں بیٹھے رہے۔ حتیٰ کہ 126 دن بعد انہیں بھی دھرنا پیک اپ کرنا پڑا۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید دھرنے میں شریک تھے۔ چودھری محمد سرور گورنر پنجاب ہونے کے باوجود دھرنے کا چکر لگا آئے تھے۔ انہی دنوں کسی سیاسی تجزیہ نگار نے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ پروگرام کے مطابق چودھری سرور جلد تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ اب وہ خود اس تحریک کا حصہ ہیں، لیکن ان کے ہاں اتنی گرمجوشی بھی نہیں، جتنی اس وقت تھی جب وہ باقاعدہ گورنر تھے، اور اس حیثیت میں دھرنوں کا جائزہ لیتے تھے۔بنیادی طور پر تو یہ شو تحریک انصاف اور عوامی تحریک ہی کا ہے۔ مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید احمد کی حمایت انہیں پہلے کی طرح حاصل ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے تو اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کریں لیکن یہ وہی اپوزیشن ہے جس کے بارے میں عمران خان نے کہہ رکھا ہے کہ وہ منافقوں کا ٹولہ ہے۔ کل ہی انہوں نے آصف علی زرداری کے بارے میں کہا کہ وہ خود ڈاکو ہیں، وہ نواز شریف کو کیسے پکڑ سکتے تھے۔ ہمیں احتجاج سے روکنے کے لئے باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب ان ریمارکس کے بعد اگر ’’ڈاکو آصف علی زرداری‘‘ عمران خان کے ساتھ جاتے ہیں، تو پھر ان کے حوصلے کی داد دینا پڑے گی