یاد ماضی عذاب ہے یارب … خورشید ندیم
ماضی کا حوالہ سبق کے لیے ہے، اگر کسی کے پاس دیدہء عبرت نگاہ ہو۔ بصورت دیگر ایک طعنہ ہے جسے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ کون ہے جو غلطی نہیں کرتا۔ غلطی کرنا باعثِ افسوس نہیں، افسوس کی جا یہ ہے کہ کوئی اپنی غلطی پر اصرار اور دوسروں کی غلطی پر طعنہ زنی کو اپنا شعار بنا لے۔ آگے بڑھنے کے لیے آگے دیکھنا پڑتا ہے، ماضی سے عبرت پکڑتے ہوئے۔
”نواز شریف آج کس منہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ کیا یہ وہی نہیں‘ جن کی سرپرستی ایک فوجی آمر نے کی؟‘‘ ”بھٹو کون ہیں؟ وہی تو ہیں جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ آج پیپلز پارٹی کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتی ہے؟‘‘ یہ استدلال ہے جو اکثر پیش کیا جاتا ہے۔ ماضی قریب کا حوالہ تو کسی حد تک گورا ہے کہ اسے تضاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، ماضی بعید تو کم نگاہی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اندازِ نظر اس ارتقا کی نفی ہے جس سے فرد گزرتا ہے اور سماج بھی۔ اگر کوئی بڑا ہونا چاہتا ہے تو ہم اسے یہ موقع کیوں نہیں دیتے؟
پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو ماضی کا وہی حوالہ قابلِ قبول رہنا چاہیے جس میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہو۔ نواز شریف صاحب کل اگر یوسف رضا
گیلانی صاحب کو ہٹانے کے لیے عدالت کے ساتھ کھڑے ہوئے تو آج ان کو سوچنا چاہیے کہ وہی ہتھیار ان کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کو نکالنے کا اختیار اگر عوام کے پاس ہے‘ جیسے وہ آج کہہ رہے ہیں تو اس کا اطلاق گیلانی صاحب پر بھی ہونا چاہیے۔ نواز شریف صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حادثے سے سبق سیکھیں۔ معاشرے کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ اس موقف کی صداقت کو جانچے۔ کیا یہ موقف قابلِ قبول ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے نصب کے ساتھ عزل کے فیصلے کا حق بھی عوام ہی کے پاس ہونا چاہیے؟ بحث اس سوال پر مرتکز رہے گی تو معاشرہ فکری یک سوئی حاصل کر پائے گا۔ ورنہ یہ ایک مناظرہ ہے، جو جیتنے کے لیے کیا جاتا ہے، تفہیم کے لیے نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ سب سے غلطیاں ہوئیں۔ سب استعمال ہوئے۔ آج سب اپنی اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کے دعوے داروں نے سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہیں کیا‘ جو جمہوریت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ میں یہ بات بارہا لکھ چکا کہ مسلم لیگ کے اقتدار کا پہلا شکار خود مسلم لیگ کی تنظیم ہوتی ہے۔ یہ اس سارے عرصے میں عضوِ معطل کی طرح رہتی ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے‘ اگرچہ اس کا معاملہ ن لیگ سے بہت بہتر ہے۔
ماضی سے وابستہ ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت مقتدر قوتوں کا نشانہ بنتی ہے تو دوسری جماعتوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے کہ اگلا ہدف ان میں سے کوئی جماعت ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے گروہی مفادات کے اسیر ہیں اور ان کا حوالہ وہی ماضی ہے۔ چونکہ کل دوسری جماعت نے مشکل وقت میں اس کا ساتھ نہیں دیا تھا، اس لیے آج اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔ کل پیپلز پارٹی کے بارے میں ن لیگ کا رویہ یہی تھا۔ آج پیپلز پارٹی بھی اس کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کا قصہ بھی مختلف نہیں۔ عمران خان اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ اس ملک میں اپنی مرضی کی حکومت بنا سکتے ہیں۔ ان کی ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اقتدار کے اس کھیل میں کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے لیے فضا ہموار کرنے میں معاون ہے۔ اقتدار کے کھیل میں کون کب کسی کا دوست ہوا ہے؟
اہلِ سیاست ماضی سے عبرت پکڑے بغیر یہ خیال کر رہے ہیں کہ ان کے اصل حریف دوسرے اہلِ سیاست ہیں۔ وہ یہ تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ اقتدار کے مراکز میں معرکہ آرائی ہے۔ اس میں یہ طے کیا جانا ہے کہ کسی تنازع کی صورت میں فیصلہ کن اقدام کا حق کسے ملنا چاہیے۔ نواز شریف جب یہ بات کہتے ہیں تو اسے ان کا ذاتی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یوں دیگر اہل سیاست ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں۔ وہ طاقت کے دیگر مرکز کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں یہ اندازِ سیاست موجود رہا تو سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ اگر وزیر اعظم فدویانہ مزاج کے ساتھ حکومت کرے گا تو باقی رہے گا‘ بصورتِ دیگر اس کا انجام نواز شریف صاحب سے مختلف نہیں ہو گا۔
آج اصل مسئلہ یہی ہے کہ ملک کس سیاسی بندوبست کے ساتھ آگے بڑھے گا؟ یہ سوال اگر آج کسی وجہ سے اٹھ گیا ہے تو لازم ہے کہ اس پر 2018ء کے انتخابات سے پہلے ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اسے نواز شریف کی ذات سے بلند ہو کر دیکھا جائے۔ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک بار پھر وہ وزیر اعظم بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ میں ان کی اکتاہٹ سے یہ اخذ کرتا ہوں کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔ مستقبل کا مسئلہ یہ نہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم ہوں گے یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو وزیر اعظم ہو گا، نظمِ حکومت میں اس کی حیثیت کیا ہو گی؟ چیف ایگزیکٹو یا ایک فدوی؟ وہ اسی مسئلے پر گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے ایک طرح سے اس مطالبے کی توثیق کر دی ہے‘ اور یہ بات سب سے خوش آئند ہے۔ سینیٹ پاکستان کا سب سے باوقار ادارہ ہے۔ رضا ربانی صاحب کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔ انہوں نے بروقت ایک صدا بلند کی ہے۔ اس کو بہت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر جماعتی وابستگی سے بے نیاز ہو کر ایک قومی مکالمے کا آغاز کیا جائے تو ہم پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی کلچر کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ اگر اہلِ سیاست سنجیدہ نہ ہوں تو پھر رائے ساز حلقوں کو تو لازماً یہ کام کرنا چاہیے۔
اس میں شبہ نہیں یہ ایک بحرانی دور ہے۔ بحرانوں میں بڑے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو جماعتی اور گروہی وابستگی سے اوپر اٹھ سکیں۔ سینیٹ کے چیئرمین نے ایک امید پیدا کی ہے‘ ورنہ سیاست اور صحافت کے میدان ان لوگوں سے خالی ہو چکے ہیں‘ جنہیں ہر گروہ کے لوگ یکساں قابلِ احترام سمجھتے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے پاس مجیب الرحمان شامی صاحب جیسی چند شخصیات موجود ہیں لیکن آج سیاست اور صحافت جس نہج پر چل نکلے میں، اس میں سب کو عزتِ سادات کی فکر ہے۔ یوں کوئی نہیں بچا جس کی رائے کو کسی وابستگی سے بلند تر ہو کر سمجھنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ اسی لیے کسی میں یہ گرمجوشی موجود نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کرے۔
رضا ربانی صاحب کی تجویز کو اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی تائید مل جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں اگر مکالمہ سیاسی جماعتوں کے مابین ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ‘میثاقِ جمہوریت‘ قومی سیاسی جماعتوں میں اس مکالمے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ ایک اہم دستاویز ہے جس کی افادیت کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکا۔ اگر سیاسی جماعتیں اس سے اتفاق کریں تو قراردادِ مقاصد کی طرح اسے آئین کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر اس مکالمے کا آغاز سینیٹ کے فورم سے ہوتا ہے تو اس کا وقار اور اعتبار بڑھ جائے گا۔ اگر دوسرے مرحلے میں دیگر ریاستی ادارے بھی اس کا حصہ بنتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس تصادم سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم آج اور آنے والے کل کو سامنے رکھیں۔ گزرا ہوا کل اگر حوالہ بنے تو عبرت کے لیے، طعنے کے لیے نہیں۔