خبرنامہ

آئی ایس آئی کا افتخار

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آئی ایس آئی کا افتخار

دنیا میں دس ممالک کے انٹیلی جنس ادارے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ آئی ایس آئی اس فہرست میں نمایاں ہے۔ ہر ملک کے جاسوسی ادارے کے کھاتے میں غلطیوں کا ایک پلندہ ہے۔ آئی ایس آئی سے کبھی غلطی سرزد نہیں ہوئی لیکن اب ایبٹ آباد کی غلطی اس کے سر منڈھی جارہی ہے۔
ممبئی دھماکوں کے فوری بعد امریکی سینیٹر جان کیری نے بھارت پہنچ کر کہا تھا کہ آئی ایس آئی کو لگام دینے کی ضرورت ہے، اور پھر امریکی کانگریس نے کیری لوگر بل منظور کیا جس کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ آئی ایس آئی کے پرکاٹ دیئے جائیں اور اس کی نکیل سول حکومت کے ہاتھ میں دے دی جائے۔
آئی ایس آئی کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب برٹش انڈیا سے وراثت میں ملنے والے آئی بی کو کشمیر میں بھارتی مداخلت کی خبر تک نہ ہوئی۔ جب سے یہ نیا ادارہ تشکیل پایا ہے، اس نے خطے میں پاکستان کی دھاک بٹھا دی ہے، جب پاکستان کے پاس ایٹم بم نہیں تھا، تب بھی پاکستان کو کوئی تر لقمہ نہیں سمجھتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اپنے اسباب ہیں مگر مغربی پاکستان پر بھارت کو لشکرکشی کی جرات نہیں ہوسکی۔
امریکہ خطے کو بھارت کی نظروں سے دیکھتا ہے، بھارت امریکہ کے سامنے واویلا کرتا ہے اور امریکہ آنکھیں بند کر کے بھارت کے الزامات کو پاکستان پر اچھال دیتا ہے۔ اب افغان مسئلے میں امریکہ کو شکایت پیدا ہوئی کہ آئی ایس آئی بعض جہادی گروپوں کو افغانستان میں حملوں کے لیے استعمال کرتی ہے، اس طرح آئی ایس آئی کے خلاف امریکہ اور بھارت کے بغض کے دھارے آپس میں مل گئے ہیں۔
پاکستان کے اندر حکومت اور آئی ایس آئی کے درمیان اختلافات ابھارنا بھی امریکی اور بھارتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ خود امریکہ میں سی آئی اے پرحکومت کا ڈھیلا ڈھالا سا کنٹرول ہے۔ سی آئی اے کو ریاست کے اندر ریاست کا درجہ حاصل ہے لیکن اس نے پاکستان کی سویلین حکومتوں کو بھڑکانے میں بھی کسر نہیں چھوڑی۔ آئی ایس آئی نے اندرونی سیاست میں اگرکبھی حصہ لیا تو اسکی داغ بیل بھٹو صاحب نے بھی جنہوں نے اس کا ایس ونگ شروع کیا۔ یہ سیاسی ونگ نہیں بلکہ سٹریٹیجک ونگ تھا۔محترمہ بے نظیر نے آئی ایس آئی پر قابو پانے کے لیئے ایک ریٹائرڈ جنرل کو اس کا سربراہ بنایا، ایسی ہی ایک کوشش میاں نواز شریف نے بھی کی اور ایک ریٹائرڈ جنرل کو اس کا مدارالمہام بنا دیا، دوسرے دور میں انہوں نے فوج کے اندر سے جنرل ضیا الدین بٹ کو اس کی سربراہی سونپی اور بعد میں انہیں آرمی چیف بھی بنانے کی کوشش کی۔
جنرل مشرف کے بعد پی پی پی حکومت بنی تو ایک بار پھر آئی ایس آئی کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اسے وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا مگر یہ نوٹی فیکیشن پنگھوڑے میں ہی دم توڑ گیا۔ بعد میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے آئی ایس آئی کے سویلین کنٹرول کے لیے ایک پرائیویٹ بل ڈرافٹ کیا لیکن اس کے پیش ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
اب نئی حکومت آئی ہے تو وزیراعظم اپنے وزیر داخلہ کو لے کر آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر جا پہنچے ہیں۔ خود وزیراعظم بھی فوج اور آئی ایس آئی پرمکمل کنٹرول کے حامی ہیں اور ان کے وزیرداخلہ تو عمران خان کی پشت پناہی کے لیے کھلم کھلا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کوموردالزام ٹھہرا چکے ہیں۔
سابق وزیراعظم گیلانی نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ ہزاروں امریکیوں کو ویزے کیوں دیئے، میں پوچھتا ہوں کہ اسامہ کس کے ویزے پر چھ سال تک پاکستان میں بیٹھا رہا۔ انہوں نے چین کے خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کو برداشت نہیں کر سکتے۔
میموگیٹ کے خالق منصور اعجاز نے جو پاکستانی نہیں تھا، ایک کالم میں لکھا کہ آئی ایس آئی پرحکومت پاکستان کو کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ جان کیری نے بھی ایک بل منظور کرایا جس کا مقصد یہ تھا کہ آئی ایس آئی کو حکومت پاکستان کے کنٹرول میں لایا جائے۔ بھارت بھی واویلا کرتا ہے کہ آئی ایس آئی اسے چین نہیں لینے دیتا۔ ان سب کے در میان قدر مشترک کیا ہے اور کیوں ہے۔
آئی ایس آئی اس وقت بہت اچھی تھی جب اس نے سوویت روس سے جنگ کا خطرہ مول لیئے بغیر سویلین مجاہدین کے ذریعے سوویت فوجوں کو افغانستان میں شکست سے دوچار کیا۔ یہ آئی ایس آئی تھی جس نے خبر نکالی تھی کہ کہوٹہ پر حملے کے لیئے جموں ایئر پورٹ پر اسرائیلی بمبار تیار کھڑے ہیں، یہی آئی ایس آئی تھی جس نے دہلی کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی طیاروں کو جلد بازی میں بھارتی فضائیہ کا رنگ و روغن کرتے ہوئے تصویریں بنائی تھیں لیکن رنگ کرنے والے اسرائیلی فضائیہ کا نشان مٹانا بھول گئے۔ اور یہی آئی ایس آئی ہے جس نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اب شمالی اتحاد کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیئے ہیں، اس سے کرزئی کا دماغ گھوم کر رہ گیا ہے۔ اور امریکہ کوسمجھ نہیں آتی کہ قطر مذاکرات کو کیسے آگے بڑھائے۔ جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے جنرل کیانی اور آب پارہ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے جنرل ظہیر کے در میان سوچ اورعمل کی اس ہم آہنگی نے دنیا کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے چکرانے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ہم خود کیوں چکرائے چکرائے سے ہیں۔
آئی ایس آئی کو وزیر داخلہ کے ماتحت نہیں کیا جاسکتا، یہ وزارت دفاع کا حصہ ہے۔ یہ محکمہ وزیراعظم کے پاس ہے۔ ان کے ہاتھ میں اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ میڈیا نے گزشتہ روز کے دورے پر دو طرح کے تبصرے کئے ہیں، ایک یہ کہ وزیر اعظم فوج اور اس کے اداروں کے ساتھ شکوک وشبہات رفع کرنا چاہتے ہیں، دوسرے یہ کہ وہ ان پراپنامکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور یہ دورہ اس کا ایک اظہار ہے، ایک اور تبصرہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے افشا سے آئی ایس آئی کا مورال گر چکا ہے، وزیراعظم اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کے دفتر میں گئے۔
دعا یہ ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کامل ہم آہنگی کی فضا برقرار ہے۔ فوج اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے اور وزیر اعظم ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ آنے والے دنوں میں خطے میں آئی ایس آئی کو شاندار کردار ادا کرنا ہے اور اسے آزادی عمل درکار ہے۔ یہ ہمارے ملک کا افتخار ہے۔
(13 جولائی 2013ء)