خبرنامہ

آرمی چیف جنرل باجوہ کے پہلے دو سو دن، اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آرمی چیف جنرل باجوہ کے پہلے دو سو دن، اسداللہ غالب

کرکٹ کے کھلاڑیوں کے لئے عمرہ، عالمی فٹ بال ٹیم کو خوش آمدید، پی ایس ایل فائنل کا پاکستان میں انعقاد، سانجھی ساری خوشیاں اپنی۔ جنرل قمر باجوہ نے گلی محلے کے لوگوں کو اپناگرویدہ بنا لیا ہے۔

ہر چند جنرل راحیل کا ڈنکا بجتا رہا، ان کی شہرت نے ان کے حاسد بھی پیدا کئے اور ان کے بظاہر جو حاسد تھے، وہ اندر سے ان کے ہمدرد نکلے۔
مگر جنرل قمر باجوہ انتہائی نامساعد حالات میں آئے، پہلے تو انہیں ایک حکومتی سینیٹر ساجد میر کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان کے بارے میں ایک گھناﺅنا الزام لگا دیا، اس الزام کے بعد وزیراعظم کے لئے قمر باجوہ کو آرمی چیف بنانا مشکل تھا مگر پھر بھی انہوں نے بنا دیا۔
جنرل راحیل کو آخری لمحے تک بھارتی گولہ باری سے واسطہ پڑا، خیال یہ تھا کہ بھارت کو جنرل راحیل سے پرخاش ہے اور وہ انہیں انگیج رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ کسی دوسری طرف دھیان دینے کے قابل نہ رہیں بلکہ دہشت گردی کے خاتمے پر بھی دلجمعی سے توجہ نہ دے سکیں۔ راحیل کے جانے کے بعد لوگوں کو توقع تھی کہ بھارت نئے آرمی چیف کو تنگ نہیں کرے گا، جنرل قمر باجوہ نے بھی پہلے اخباری تبصرے میںاسی توقع کا اظہار کیا کہ انشا اللہ کنٹرول لائن پر حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی مگر زیاہ دیر تک نہیں، بہت جلد بھارتی فوج جنرل قمر باجوہ کے گلے پڑ گئی۔
جنرل راحیل ورثے میں ایک مسئلہ اور چھوڑ گئے تھے، وہ تھا ڈان لیکس کا، مگر جنرل باجوہ نے ابتدا میں اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا مگر کہا جاتاہے کہ وہ اندرونی دباﺅ کا شکار تھے، یوںدبی ہوئی محاذ آرائی پھر گرمی کا باعث بنی۔ معاملہ اس وقت زیادہ خراب ہو گیا جب فوج نے ایک ٹویٹ کیا اور حکومت نے پروپیگنڈے کی یلغارکر دی، وہ دھلائی کی گئی کہ فوج کو یہ ٹویٹ واپس لینا پڑا مگر ایک کمانڈر کے طور پر جنرل قمر باجوہ کو ادارے کے اندر مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ سقوط ڈھاکہ تو دشمن کے سامنے سرنڈر تھا مگر یہ سرنڈر اپنوں کے سامنے تھا، پتہ نہیں جنرل قمر باجوہ نے اپنے اندرونی دباﺅ کا کس طرح مقابلہ کیا مگر حکومت کے سامنے انہوں نے پسپائی اختیار کر کے اس محاذ آرائی کا باب بند کر دیا۔
جنرل قمر باجوہ کو اپنے لئے نئی صف آرائی کی ضرورت بھی تھی، انہوں نے اس کے لئے ہائی کمان میں ضروری تبدیلیاں بھی کیں۔ یہ سب کچھ ہر نیا آرمی چیف کرتاہے اس لئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔
دہشت گردی کامسئلہ جوں کا توں تھا، جنرل کیانی اور جنرل راحیل نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں مگر یہ مسئلہ چھو منتر سے تو حل نہیں ہوا کرتا، سری لنکا کو دہشت گردی پر قابو پانے میں چوبیس برس لگے۔ امریکہ بھی پچھلے بیس برس سے دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے، پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا حلیف ہے، اس لئے جنرل قمر باجوہ کو اس محاذ پر اپنے پیش رووں کی طرح مستعدی دکھانا تھی۔ دہشت گردوں نے بار بار ان کے لئے چیلنج پیدا کئے۔ اکیلی فوج نتائج نہیں دکھا سکتی تھی کیونکہ نیشنل ایکشن پلان سرد خانے کی نذر ہو چکا تھا، ویسے اس پر پہلے دن سے ہی عمل نہیں ہوا۔ صوبائی حکومتوں نے اپنے ذمے کا کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی، پنجاب نے تو فوج اور رینجرز کو اپنی حدوں میں برسوں تک گھسنے کی اجازت ہی نہ دی۔ بس کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں فوج، رینجرز اور ایف سی کی کارروائیاں جاری رہیں۔
جنرل باجوہ کو ایک نئے محاذ سے بھی واسطہ پڑ گیا، یکایک کسی بھی وجہ کے بغیر ایرانی سرحد پر گرمی بڑھ گئی، ایرانی فوج نے بلا اشتعال پاکستان میں اسی طرح کی گولہ باری شروع کر دی جیسے بھارتی فوج کنٹرول لائن پر کرتی چلی آ رہی ہے۔ افغانستان نے بھی آنکھیں دکھائیں۔ کچھ جھڑپیں جنرل راحیل کے دور میں ہو چکی تھیں مگر جنرل قمر باجوہ کے سامنے تو افغان فوج تن کر کھڑی تھی، جس کا سخت جواب دینے کی ضرورت تھی اور پہلی بار پاک فوج نے افغان علاقے میں گھس کر کارروائی کی اور افغانیوں کو ڈنڈے کی طاقت سے ٹھنڈا کیا۔
ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ شروع سے پاکستان کی پریشانی کا باعث ہے، جنرل قمر باجوہ نے جب دیکھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے جنت بن چکی ہے اور وہ ڈیورنڈ لائن کو جہاں سے چاہے روند کر ملک میں گھس آتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لیتے ہیں تو انہوں نے وہ فیصلہ کیا جو ستر برس پہلے ہو جانا چاہئے تھا، ڈیورنڈ لائن پر اسی طرح کی باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا گیا جیسے بھارت نے اپنی سرحد پر کیا ہے اور دنیا کے کئی ملک بھی اپنے تحفظ اور دفاع کے لئے ایسی باڑ لگا چکے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ تو میکسیکو کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، چینی صدر نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ خنجراب کی چوٹیوں پر آسمان تک ایک کنکریٹ کی دیوار کھڑی کر دی جائے تاکہ پاکستان سے کوئی دہشت گرد چین کے اندر پر نہ مار سکے۔ جنرل قمر باجوہ کے لئے بھی افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے ایسی دیوار تعمیر کرنا ایک مجبوری بن گئی اور وہ اس منصوبے کو اپنے ایمان کا حصہ بنا چکے ہیں۔
خارجہ پالیسی پر حاوی ہونے کا طعنہ تو جی ایچ کیو کو سننا پڑتا ہے مگر پاکستان میں کوئی ایک فرد ایسا نہیں جو یمن، شام ا ور اب قطر میں پاکستان کے کردار کے بارے میں کوئی دوسری رائے رکھتا ہو، صاف نظر آتا ہے کہ ہر کوئی عد م مداخلت کی پالیسی کے حق میں ہے، اس لئے کہ پاکستان کے اندر پہلے ہی خونریزی بند نہیں ہو رہی، بیرونی جھگڑوں میں ٹانگ اڑانے کا مطلب یہ تھا کہ یمن، شام اور قطر کی جنگ کو اپنی سرحدوں میں درآمد کر لیا جائے، سو جنرل راحیل نے یمن میں پاک فوج نہ بھیجی اور شام میں بھی فوجی مداخلت سے گریز کیا، اسی دانش مندی کا مظاہرہ جنرل قمر باجوہ نے بھی قطر کے سلسلے میں کیا، حالانکہ ایران اور ترکی نے قطر کی حمائت کا اعلان کر دیا تھا، اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کی وجہ سے پاکستان بھی مجبور تھا کہ وہ قطر میں مداخلت کرے مگر ایک مشکل فیصلہ کرنا تھا اور جنرل قمر باجوہ نے یہ فیصلہ کر دکھایا، پاکستان دوسروں کی آگ میں نہیں کودا۔
اندرونی سیاسی محاذ کسی پل صراط سے کم نہیں تھا۔ پانامہ کیس، جے آئی ٹی وغیرہ کی وجہ سے حکومتی صفوں سے خفیہ طاقتوں کو مطعون کیا جا رہا تھا، پاکستان میں خفیہ طاقت سے مراد فوج لی جاتی ہے مگر جنرل قمر باجوہ کا دامن صاف تھا، نیت نیک تھی، کوئی خفیہ ایجنڈہ نہیں تھا، اس لئے انہوں نے ہر نوع کی اشتعال انگیزی کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
جنرل قمر باجوہ نے اپنی ذات کی وہ تشہیر تو نہیں کی جو ان کے پیش رو جنرل راحیل کے لئے کی گئی مگر جنرل باجوہ کے کارنامے خود بولتے ہیں اور وہ عوام کے دلوں میں سہجے سہجے جگہ بنا رہے ہیں۔ ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ جنرل باجوہ کے دور میں بیرونی خطرات کا سر کچلا گیا اور اندرونی محاذ پر بھی تندہی سے فوج نے سرگرمی دکھائی مگر سیاسی محاذ سے فوج کوسوں دور کھڑی نظر آتی ہے۔
سیاسی حلقوں کے لئے اس سے زیادہ موافق حالات اور کیا ہوں گے کہ وہ اپنے جھگڑے خود طے کریں، اور فوج کو دفاع وطن کے مقدس فریضے کے لئے یکسو رہنے دیں۔
رہا مسئلہ امریکہ کو مطمئن کرنے کا تو جارج واشنگٹن ہوں یا ابراہام لنکن یا جارج بش یا کلنٹن یا اوبامہ یا ٹرمپ، دنیا کی کوئی طاقت امریکہ کو مطمئن نہیں کر سکتی، امریکہ نے ہر کسی سے پنگا لے رکھا ہے۔ اس لئے سینیٹر مکین اگر حقانی نیٹ ورک کا قصہ اور قضیہ چھیڑیں تو اس پر چنداں حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا جواب یہی ہے جو جنرل قمر باجوہ نے دیا ہے کہ افغان حکومت اپنے علاقوں میں اپنی رٹ تو قائم کر کے دکھائے۔ پھر دوسروں سے ایساکوئی مطالبہ کرے۔ لگتا ہے کہ ہر پاکستانی فوجی راہنما کی طرح جنرل قمر باجوہ بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے کے قائل ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت، باتوں سے نہیں مانتے۔ اس طرح ان کے پہلے دو سو دن فیصلہ کن مرحلے کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔