قرآن کی ایک آیت ہے جسے ٹکڑوں میں پڑھیں تو مطلب غتر بود ہو جاتا ہے۔
آیت کا پہلا حصہ ہے۔نماز کے قرب مت جاؤ
اس کا کیا مطلب ہوا۔
دوسرا حصہ ہے ، جب تم نشے کی حالت میں ہو۔
اب ان دونوں کو ملا کر پڑھیں تو کیا مطلب نکلا۔
آرمی چیف کے حالیہ بیان کے ساتھ بھی ہم نے یہی سلوک کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملکی سلامتی کے لئے بلا امتیاز احتساب اور کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم نے اپنے سارے تبصروں کازور اسی حصے کے پیش نظر لگایااور سوال اٹھایاکہ آرمی چیف کون ہوتے ہیں ، ہمیں احتساب کاد رس دینے والے۔ کسی نے کہا ، پہلے وہ اپنے ادارے میں احتساب کی مثال قائم کریں پھر دوسروں کو اس مثال کی پیروی کے لئے کہیں۔ایک صاحب نے طویل فہرست پکڑی ہوئی تھی کہ اب تک کتنے جرنیلوں کا نام کرپشن میں آیا اورا ن کے خلاف کوئی احتساب نہیں ہوا ، کسی نے جنرل کیانی کے بھائی کا نام لیاا ور کوئی مشرف تک پہنچ گیا کہ ا سے کس نے ملک سے بھگایا۔ کسی نے ریلوے اسکینڈل میں ملوث جرنیلوں کے نام گنوائے، کسی نے ڈی ایچ اے کا نام لیااور کوئی ای ایم ای شہدا سیکٹر کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
سوال سارے معقول تھے۔ مگر ان سب نے آرمی چیف کے بیان کے آخری حصے پر نظر ہی نہ ڈالی ، جس میں انہوں نے پیش کش کی کہ فوج احتساب ا ور کرپشن کے خاتمے کی ہر بامعنی کوشش کی حمائت کرے گی۔
اس بیان کے بعد آرمی چیف پر جو لوگ برستے رہے، ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ یہ گز بھر لمبی زبان کا استعمال کیا معنی رکھتا ہے،ا ورا س کا جواز کیا تھا۔
اس ساری کبج بحثی سے ایک نکتہ عیاں ہو کر سا منے آجاتاہے کہ ہم نہ کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں ، نہ کسی کے خلاف احتساب کے مطالبے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم سب کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک محاورہ ہے کہ ا س حمام میں سب ننگے ہیں۔
پچھلے دو ہفتوں سے ہر سیاسی رہنما کرپشن کے خاتمے پر زور دے رہا ہے۔پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ وزیر اعظم بھی پیش کش کر چکے ہیں کہ کرپشن کی عدالتی تحقیقات کروا لی جائیں ، اس اعلان کے بعد تو احتساب کا عمل شروع ہو جانا چاہئے تھا مگر حکومت کی ہر تجویز کو اپوزیشن مسترد کئے چلے جا رہی ہے، تحریک انصاف کچھ کہتی ہے، پیپلز پارٹی کچھ اور ۔ جماعت ا سلامی الگ بات کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عدالتی کمیشن بننے کی ہی نوبت نہیں آئی،تحقیقات تو دور کی بات ہے۔اصل بات یہ کہ تحقیق کسی کو وارا ہی نہیں کھاتی، عمران خان نے لندن جاتے ہوئے جہانگیر تریں کو پہلو میں بٹھارکھا تھا۔ ان حضرت کا نام بھی پانامہ۰ لیکس میں شامل ہے، اس فہرست میں دو سو سے زاید پاکستانیوں کے نام ہیں۔ ان میں دو تو بڑے میڈیا ہاؤس ہی ہیں اور پھر ہر بڑا صنعتی خاندان، سیف ا للہ گروپ سے شروع ہو کر سفائر گروپ تک۔ یہ کیوں چاہیں گے کہ کوئی کمیشن بنے ، مسئلہ صرف حسین ا ور حسن کا ہوتا تو اب تک کمیشن بن چکا ہوتا اور کھرا کھوٹا سامنے آ چکا ہوتا مگر یہاں تو سینکڑوں باثر افرادا ور گروپ ہیں جن کی گرد کو بھی کوئی نہیں چھو سکتا۔ سیاستدان ا ور وہ بھی حکمران کو رگیدنا آسان ہے مگر کسی مگر مچھ کا نام لیتے ہوئے سب ڈرتے ہیں۔ان کے ساتھ لاکھوں اور لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ اب کون اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گا۔یا آ بیل مجھے مار کا مطالبہ کرے گا، کوئی اتنا احمق بھی نہیں اور کاروباری شخص تویسی حماقت کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو لکڑ ہضم پتھر ہضم ثابت ہوئے ہیں ، وہ اگر کرپشن نہ بھی کریں، آف شور کمپنیوں میں پیسہ نہ بھی لگائیں یا بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں اپنی دولت نہ بھی چھپائیں تو وہ اربوں کے قرضے لیتے ہیں اور افسر شاہی کے ساتھ ساز باز کر کے معاف کرا لیتے ہیں، یہ تو اس ملک کے غریب غربے ہیں ، ان کا بس چلے تو صدقات و زکوات تک ہڑپ کر لیں ا ور قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر بھی ا جارہ داری حاصل کر لیں۔
میں آج ایک محفل میں شریک ہواہوں جہاں یہی باتیں زیر بحث تھیں مگر ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔اس محفل میں وزیر اعظم کی بیماری بھی زیر بحث آئی،ا ور ان کی پاکستان آمد کے فوری بعد کی مشاورتی مصروفیات کا ذکر بھی ہوا۔ اورآر می چیف کے بیان کی طرف بھی اشارہ ہو۔ا افسوس کہ ہمارے دانشور بھی اس بیان کے صرف آدھے حصے پر بات کرر ہے تھے، آرمی چیف کی اس پیش کش کو کسی نے گھاس نہیں ڈالی کہ بامعنی احتساب کی فوج حمائت کرے گی۔ میں نے اپنے دوستوں سے یہ جاننے کی بڑی کوشش کی کہ پانامہ لیکس میں دو سو سے زاید پاکستانیوں کے نام ہیں ، نہ آپ ان کی بات کرتے ہیں، نہ وہ اپنے بارے میں پریشان ہیں۔تو پھر حسن اور حسین کو بھی ان کے حال پر چھوڑدیں ، پانامہ لیکس والے ان کے خلاف تحقیقات کی سردردی میں خود مبتلارہیں۔میری جچی تلی رائے ہے کہ جس طرح شہباز میاں ان دنوں اورنج ٹرین ہی کی بات کرتے ہیں ا ورا سکے مخالفین کے عزائم کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وزیرا عظم کو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔یہ منصوبہ اس خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے ا ور پاکستان جن ثمرات سے بہرہ مند ہوگا ، ان کا تصورکر کے دل بلیوں اچھلتا ہے۔
پیپلز پارٹی تو این آر او زدہ ہے۔ا سنے تو اپنے سارے گناہوں کواس این آر او کے پیچھے چھپا رکھاہے، باقی بچتی ہے تحریک انصاف،اس کو احتساب کا شوق ہے تو پہلے شوکت خانم کے چندے کے حساب کے لئے عدالتی کمیشن بنا دیا جائے۔وہ اس پل صراط کو عبور ہی نہ کر پائے گی،ا س نے کسی ا ور کا کیا احتساب کرنا ہے۔
فوج کو بھی یہ سب پتہ ہے۔آرمی چیف نے تو ایک ا صولی بات کی ہے، نہ اس سے زیادہ ، نہ اس سے کم۔اس کی جہاں تک بساط ہے وہ ایک گینگ کے بعددوسرے گینگ کا صفایا کرتی چلی جا رہی ہے، فاٹا، بلوچستان ، کراچی اور اب کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ۔
پنبہ کجا کجا نہم، والی بات ہے۔یہاں کون ہے جو کہے کہ دامن نچوڑ دوں تو فرشتے وضو کریں۔