خبرنامہ

آرمی چیف کا عہد وفا … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آرمی چیف کا عہد وفا … اسد اللہ غالب

جزل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان کے اگلے مورچوں کا معائنہ کیا ہے، آپریشن شروع ہونے کے بعد وہ کئی مرتبہ ایسے دورے کر چکے ہیں، وہ اپنے جوانوں اور افسروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ آپریشن کے کمانڈر جنرل ربانی کا اپنابیٹا داد شجاعت دے رہا ہے۔ یہ پاک فوج ہے۔
اس آپریشن میں پاک فضائیہ بھی کارروائی کر رہی ہے اور عین نشانوں پر میزائل اور بم برسا کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جارہا ہے، بری فوج پیش قدمی کرتے ہوئے علاقے کی صفائی میں مصروف ہے، اب تک دہشت گردوں کی کئی اسلحہ ساز فیکٹریوں پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور ڈھیروں گولہ بارودبھی ہاتھ آیا ہے۔ پاک فوج کو دہشت گردوں کے اسلحے تک پہنچنے میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے، یہ سرفروش ہمارے کل کے امن سکون اور خوشحالی کے لیئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ کمال صبر و ہمت سے کام لیتے ہیں۔ نہ کوئی شکوہ، نہ شکایت۔ بس ایک انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں کہ یہ اس اللہ کی رضا ہے۔
فوج نے جچے تلے انداز میں آپریشن کا آغاز کیا۔ جنرل عاصم باجوہ کے بقول وہ فاٹاکے بیشتر علاقہ پچھلے کئی برسوں کی جنگ میں کلیئر کروا چکی ہے، اب صرف شمالی وزیرستان کا مسئلہ ہے اور وہ بھی اس کے تین مقامات کا۔ یہ آپریشن سال کے آغاز میں ہو جانا چاہئے تھا مگر حکومت کی مصلحتیں آڑے آتی چلی گئیں، ادھر وزیر داخلہ روٹھ کر گھر بیٹھ گئے۔ ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور یہ حضرت اپنی انا کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ کہتے ہیں ان کے خاندان کی فوجی بیک گراؤنڈ ہے اور اگریہ بیک گراؤنڈ نہ ہوتی تو نہ جانے حضرت کیاگل کھلاتے۔ وہ کیوں روٹھے اور کن شرائط پر مانے، اس کا کسی کو کچھ پتا نہیں، کہنے کو ایک وزیردفاع بھی ہیں مگر انہوں نے تو آپریشن پر زبانی کلامی بھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا، بس ایک خاموشی اور یہ خاموشی بھی بہتر ہے ورنہ وہ بولتے تو چھپر پھاڑ کر بولتے۔ وزیراعظم نے عبدالقادر بلوچ کی نگرانی میں ایک کمیٹی بھی بنائی تھی تا کہ آپریشن کے معاملات چلائے جا سکیں فوجی آپریشن نہ تو سستی روٹی کے تندور لگانے کا نام ہے نہ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا۔ نوجوانوں میں ایک سوارب کی بندر بانٹ جس کے لیئے کمیٹی بنائی جائے۔ جنگ کے دوران چین آف کمان کام دیتی ہے، اس میں کسی خواجہ حسان یا حنیف عباسی کا مشورہ کیا کام دے گا، یہ لوگ لاہور اور پنڈی کی میٹرو چلانے کا شوق پورا کرتے رہیں جن کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی جا چکی۔ وہ آرمی کو ایک سو ہو کر دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے دیں۔ جزل راحیل کو کسی جر گے یا کمیٹی کے مشوروں کی ضرورت نہیں، وہ وسیع تجربے کی دولت سے مالا مال ہیں، دنیا کی ایک پیشہ ور فوج کے سربراہ ہیں اور نشان حیدر خاندان کی روایات کے علم بردار، ان کے ساتھی جرنیل بھی سکہ بند اور پیشہ ورانہ تربیت سے مالا مال۔ ان کا کام انہی کو ساجھے۔
میرا اندازہ ہے کہ ابھی فل سکیل فوری آپریشن شروع نہیں ہوا، جلد یابدیر آپریشن ہوگا اور اس کے نتیجے میں دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ مگر جیسا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ وہ اس علاقے میں حکومتی رٹ بحال کرنے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ دہشت گرد جہاں جہاں جا چھپیں گے، ان کا پیچھا کیا جائے گا اور پورے ملک میں ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔
آپریشن کے بعد سول ڈھانچے کو سخت امتحان در پیش ہوگا یہ وہی امتحان ہے جس میں سوات آپریشن کے بعد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فوج نے سوات اور مالاکنڈ کا علاقہ ایک قلیل مدت میں کلیئر کروالیا مہاجرین کی ان کے گھروں میں واپس بھی ہوگئی مگر سول ڈھانچہ آج تک سوات کو ٹیک اوور نہیں کر سکا اور فوج وہیں کی وہیں پھنسی ہوئی ہے۔ عمران خان دعوے بہت کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک لانگ مارچ کرتے ہیں مگر ان کا اصل لانگ مارچ یہ ہے کہ وہ اپنی صوبائی حکومت سے کہیں کہ سوات کا کنٹرول سنبھالے، اس کی پولیس لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرے، تھانہ، کچہری عدالت کا نظام فعال ہو گلی محلوں اور سڑکوں کی مرمت محکمے اپنے ڈھب پرآئیں، یہ سارے کام فوج کے کرنے کے نہیں ہیں، ان میں ہم نے فوج کو خواہ مخواہ الجھا رکھا ہے اور اس کی توانائی ضائع کی جارہی ہے۔
حالیہ آپریشن بھی انشاء اللہ اپنے مقاصد میں بہت جلد کامیاب ٹھہرے گا، قوم کی دعائیں اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہیں۔ اس آپریشن کے بعد بے گھر افرادبھی واپس چلے جائیں گے مگرسول شعبے کوکنٹرول کرنے کے لیئے فاٹا کی مشینری کو تیار ہونا چاہئے، اس سلسلے میں گورنرز سرحد کا اصل کردار بنتا ہے کیونکہ وہ وفاق کے نمائندے کے طور پر اس علاقے کے انچارج ہیں، موجودہ گورنر صوبے کے وزیراعلی رہ چکے ہیں، اس لیئے انکے پاس سول معاملات چلانے کا تجربہ بھی ہے، ان کی راہنمائی جناب صدر کوکر نی ہے اور وفاقی حکومت کو بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہے تا کہ سوات کی طرح یہاں بھی فوج کوئی مستقل ڈیرے نہ ڈالنے پڑیں۔
خدشہ یہ ہے کہ آپریشن سے جان بچا کر دہشت گرد پورے ملک میں پھیل جائیں گے، ان کا پیچھا اکیلے فوج نہیں کرسکتی، درجنوں اقسام کی سکیورٹی فورسز اور سول انتظامی کو بھی چوکسی کا ثبوت دینا ہوگا، ان کا کام طاہرالقادری کے گھر پر فائر کرنایا عمران کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کی اسکیمیں سوچنا نہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو بھی اپنے حلقوں میں امن کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیں۔ ایک زمانے میں ٹھیکری پہرے سے محلے میں امن قائم ہوگیا تھا، اب بھی یہ نظام مشکوک افراد کا مکو ٹھپنے کے کام آ سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ حکمرانوں کی نیت نیک ہونی چاہئے کہ گورنس بہتر بنانی ہے۔ صرف مال بنانے پر توجہ نہ ہو۔
مجھے ایک گونہ راحت ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ پوری قوم اس فوجی آپریشن کے لیئے یک سو ہے۔ البتہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا کوئی علاج نہیں، ان کے پیٹ میں تو مروڑ اٹھتا رہے گا۔ منور حسن کی جگہ سراج الحق درفنطنی چھوڑتے رہتے ہیں اور عمران خان کی زبان بھی قابو میں نہیں رہتی۔ انہیں ہر طرف سبزہ نہیں، خزاں نظر آتی ہے، کاش! وہ بنوں کے اردگردگھوم پھر کر دیکھیں، انہیں کوئی ٹینٹ سٹی نظر نہیں آئے گا فوج نے ایک نظم کے تحت مہاجرین کا بوجھ اٹھارکھا ہے، اسی لیے حکومت کو یہ کہنے کا حوصلہ ہوا ہے کہ ہمیں بیرونی امدادکی اپیل کرنے کی ضرورت نہیں۔
میں جب بھی سوشل میڈیا پر جاتا ہوں تو قوم کے نوجوان اپنے بہادر سپاہیوں کو سلیوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جنرل راحیل شریف کے ساتھ ساتھ اگلے مورچوں میں متعین جوانوں کی ولولہ انگیز تصویریں قلب و ذہن کو گرماتی ہیں۔ (09جولائی 2014ء)