خبرنامہ

آرمی چیف کے نام خط اور آئی ایس آئی کی کرامت

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آرمی چیف کے نام خط اور آئی ایس آئی کی کرامت

میں نے یہ خط برسوں پہلے پڑھا تھا۔ یہ خط راحیل شریف کے نام ہے جو اس کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نشان حیدر نے تحریرکیا تھا۔ راحیل اس وقت ایک طالب علم تھا، آج پاک فوج کا سربراہ ہے۔
اور اب مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ پاک فوج نے جس طرح اپنے خلاف بیان بازی کی بازی کو آن کی آن میں الٹ دیا ہے، اس میں بھی اس خط کا دخل ہے۔ میں نے پاک فوج کو ہر محاذ پر لڑتے دیکھا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے دور میں پروپیگنڈے کی جنگ چند گھنٹوں کے اندر جیت جانا کسی کرامت سے کم نہیں۔
پہلے یہ خط آپ بھی پڑھ لیں۔
بوبی، اگرتم سچائی پر ہوتو بھی پیچھے نہ ہٹنا، آخری وقت تک ڈٹے رہنا۔سچ کہو، سچ سنو۔ اگر سچ کی قیمت نفرت یا پتھروں کی صورت میں بھی ملے تو قبول کرو لیکن جھوٹ سے دور رہو۔ اپنی لڑائی آپ لڑناسیکھو کبھی منہ بسورتے ہوئے گھر نہ آنا، یہ بتانے کے لیئے کہ تم مار کھا کے آئے ہو خود ہی بدلہ چکاؤ، اگر مارنے والا طاقتور ہے تب بھی کمزوری نہ دکھاؤ۔ اصل بات یہ ہے کہ تم مرد بن کر لڑو۔ اس بات کی کوئی حیثیت نہیں کہ کسے مار زیادہ پڑی مگر بزدلی کبھی نہ دکھانا۔ کوئی تم سے زیادتی کرے تو حساب ضرور بے باق کرنا۔ اگر پتھرسے سر پھاڑنا پڑے تو کر گزرتا۔
آخری فقرہ پھر پڑھ لیجئے اور پھرفوج کے ساتھ لڑائی کے اگلے مرحلے کی تیاری کر لیجئے۔ لڑائی کا پہلا مرحلہ فوج نے جیت لیا۔ ابتدائی لمحات میں تو یوں لگتا تھا کہ بس چند گھنٹوں میں جنرل ظہیرکے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہوگی۔ طاقتور میڈیا پکار رہا تھا۔ فوج کے پاس ایک جنرل عاصم باجوہ تھا اور بس، اس کے پاس نہ اپنا کوئی اخبار تھا، کوئی ٹی وی چینل۔ جب دنیا میں جدیدٹیکنالو ہی نہیں آئی تھی تب گوبلزنے یہ فلسفہ گھڑا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ اب تو ٹیکنالوجی کا دور ہے، ایک بٹن دبانے سے ایک الزام اور ایک تصویر بار بار ٹی وی اسکرین پر آن دمکتی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ خود میں بھی ہمت ہار بیٹھا تھا۔ مگر رات پھیلتی چلی گئی، ٹوئٹر گوگل، ہینگ آؤٹ فیس بک اور یوٹیوب نے دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔
میری تھکی ہوئی آنکھوں نے نئی صبح کے اجالے میں دیکھا کہ ایک یقینی طور پر ہاری ہوئی جنگ جیتی جاچکی تھی۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اس مہارت کو جو سوشل میڈیا نے دکھائی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں سوشل میڈیا نے انقلاب برپا کیئے ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا نے اپنے پٹھے دکھائے۔ ہماری نئی نسل حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہے، اس نے اپنی راتوں کی نیند حرام کی اور چھوٹے چھوٹے جملوں، شوخ و شنگ خاکوں، اور ہلکے پھلے طنزیہ تبصروں سے، افواج پاکستان کے مخالفین کو چاروں شانے چت کر دیا۔ وہ جو جزل ظہیر کے استعفے کا مطا لبہ کررہے تھے، جو آب پارہ کے دفتر کو سیل کرنے کے چکر میں مبتلا تھے اور جن کے بے بنیاد پروپیگنڈے پر بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، وہ سب سوشل میڈیا کی نوجوان نسل کے سامنے گھگھیارہے تھے کیونکہ جن چھوکروں کے الزامات کو وہ اچھال رہا تھا، وہ خود ٹی وی کیمروں کے سامنے بار بار یہ گردان کر رہے تھے کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹا آدمی ہمیشہ پاؤں سر پر رکھ کر بھاگتا ہے۔
سوشل میڈیا نے پاک فوج کا ساتھ کیوں دیا، اس کا رازسمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیئے۔
صرف چھ سال پہلے نوجوان نسل نے بمبئی سانحے کی لائیوکوریج دیکھی۔ بھارت نے جھٹ اس کا الزام آئی ایس آئی پرداغ دیا۔ اور ہم نے ان کے لیے ثبوت اکٹھے کرنے کی ذمے داری سنبھال لی۔ جو کام بھارت کرنا نہیں چاہتا تھا، وہ ہم نے رضاکارانہ انجام دیا اور ہم پاکستان کے نواح میں اجمل قصاب کے مبینہ گاؤں میں کیمرے لے کر جا پہنچے۔ بھارت میں اجمل قصاب پر مقدمہ چلا مگر آٹھ سال میں بھارت ایک بھی ایسی شہادت پیش نہ کر سکا جس سے پاکستان کا دور و نزدیک کا تعلق بھی اس سانحے سے بنا ہو۔
جھوٹ کے کاروبارکی قلعی کھل گئی تھی۔ بھارت میں سمجھوتہ ایک پولیس کو آگ لگی۔ مسافر اس میں کوئلہ بن گئے۔ بھارت نے آؤ دیکھانہ تاؤ،آئی ایس آئی پر اس دہشت گردی کا الزام لگا دیا۔ سوشل میڈیا پر بیٹھنے والوں کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتاتھا۔ اس دہشت گردی میں بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پکڑا گیا۔ یہی حال مالی گاؤں میں قتل عام کا ہوا۔ اس میں بھی آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا مگر سوشل میڈیا نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ مالی گاؤں کی دہشت گردی میں ایک انتہا پسند ہندو دیوی ملوث تھی۔ جس کے جرائم سے پردہ اٹھانے میں ممبئی پولیس کا وہ افسر مہینت کرکرے سرگرم تھا جسے ممبئی سانحے کے ابتدائی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سوشل میڈیا اندھا، کانا اور گونگا نہیں ہے۔ وہ بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کی لرزہ خیز کہانیاں روز پڑھتا ہے۔ عفت مآب کشمیری خواتین کو جس طرح گینگ ریپ کیا جاتا ہے، اس کی گھناؤنی تصویر بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ کشمیر میں جس سائنٹیفک طریقے سے نوجوانوں کو شہید کر کے نسل کشی کی جاتی ہے، اس بہیمیت کی تفصیلات بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو بھارتی فوج کی پاکستان دشمنی کی ایک ایک کہانی ازبر ہوچکی ہے۔ اس نوجوان نسل کوکوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔
جس آئی ایس آئی سے بھارت لرزہ براندام ہے، اسرائیل کے اعصاب پر جس کا خوف طاری ہے، امریکہ جس کے ہاتھوں زچ ہو چکا، اس پر الزام تراشی کو ہماری نوجوان نسل کیسے سچ مان سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کی نوجوان نسل انتہائی تعلیم یافتہ ہے۔ اس کا پہلا سوال ہی یہ ہے کہ بھارت کا میڈیا اپنی خفیہ ایجنسی را کا کچا چٹھا کھولنے کی حماقت نہیں کرتا، اسرائیلی میڈیا بھی اپنے انٹیلی جنس ادارے موساد کا تعاقب نہیں کرتا اور امریکی میڈیا نے بھی اپنی افواج یا سی آئی اے کا پول کھولنے میں دلچسپی نہیں لی تو پاکستان میں میڈیا کے کچھ لوگ اپنی ہی فوج پر کیچڑ کیوں اچھالتے ہیں، ایک بہت بڑا سوال حکومت پاکستان سے بھی پوچھا جارہا ہے۔ جب ٹی وی اسکرین پر ایک الزام اور ایک تصویر بار بار دکھائی جارہی تھی تو کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے بے زبان دفای ادارے کے تحفظ کے لیئے کوئی اقدام کرتی اور نوجوانوں نے یہ سوال سوشل میڈیا پر پوچھا اور تواتر سے پوچھا کہ حکومت کی خاموشی اور بے عملی کا مطلب کیا لیا جائے۔ وزیراعظم نے ایک وقوعہ پر عدالتی کمیشن بنا دیا، اس وقوعہ کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہے اور وزیراعظم نے زبانی لگائے گئے الزام کو بنیاد کیسے بنالیا۔ ایک خاص میڈیا حکومت کا چہیتا کیسے ہو گیا، یہ میرا بھی سوال ہے۔ ایجنڈا کیا ہے۔ کیا باقی میڈیا بوریا بستر لپیٹ لے۔ (23 اپریل 2014ء)