خبرنامہ

آمریت کی پٹری پلٹن میدان میں الٹ گئی….اسداللہ غالب

آمریت کی پٹری پلٹن میدان میں الٹ گئی….اسداللہ غالب

جنرل مشرف خود کو کسی افلاطون یا سقراط کا استاد سمجھتے ہیں اور دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، اب کہتے ہیں کہ آمریت کی پٹڑی پر ملک چلتا ہے تو ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتا ہے اور جب سویلین آ جائیں تو ٹرین کو ایسی پٹڑی پر ڈال دیتے ہیں جس پر سے ٹرین ہی الٹ جاتی ہے اور آمریت کے دور کی خوشحالی سے لوگ محروم ہو جاتے ہیں۔ مشرف کی دانائی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے، آگے کہتے ہیں کہ اگر اچھے کام کی خاطر آئین کو ایک طرف کرنا پڑے تو کوئی ہرج کی بات نہیں۔
گیارہ سال تک ملک کی سیاہی اور سفیدی کا مالک بنا رہنے والا یہ بھی کہتا ہے کہ ملک کو بچانے آ رہا ہوں، شوق سے تشریف لایئے جناب! بھگوڑا ہونا ویسے بھی بزدلی ہے، پہلے تو ان عدالتوں میں حاضری لگوایئے جہاں سے مفرور ہیں، پھر کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں اور پھر سپریم کورٹ کے کسی لارجر بنچ کا فیصلہ بھی سننے کی ہمت کریں، اس کے بعد بھی آپ کے پاس وقت بچ جائے تو ملک کو بچانے کی وہ ساری کوششیں کر دیکھئے جو گیارہ سالہ دور حکومت کے باوجود آپ نہیں کر سکے۔
مگر پہلے تو آپ سے یہ بحث ہو جائے کہ ملک کو آمروں نے خوش حالی دی اور سول جمہوریت نے بدحالی دی، کیا کہنے ایوب خاں کے گیارہ سالہ طویل دور حکومت کے، جب دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھی اور راوی ہر سوچین لکھتا تھا اور آپ عشرہ ترقی منا رہے تھے۔ ایوب کے دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور تاریخ اسے سیاہ ترین لفظوں میں لکھے گی کہ آپ نے ایک ریفرنڈم میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کیا، خدا نخواستہ ایوب خان آزادی پاکستان کی تحریک کے وقت کوئی چھوٹا موٹا جرنیل ہوتا تو قائداعظم کو پاکستان بنانا مشکل ہو جاتا۔
ایوب خان سے جب اقتدار نہیں سنبھالا گیا تو زمام حکومت اگلے آرمی چیف جنرل یحییٰ خاں کو دے دی جیسے پاکستان ایوب خان کو کسی جاگیر میں ملا ہوا اور وہ جسے چاہے اسے عطا کر دے، خیر سے یہ جاگیر بھی تھا تو ایوب کے ہونہار جانشین یحییٰ خان نے صرف دو سال کے اندر اس کا حلیہ گاڑی کر رکھ دیا۔ جناب سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک الیکشن کروا بیٹھے مگر اس کے نتیجے پر عمل کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی کرسی تب چھوڑی جب ان کی آمریت کی پٹڑی پر چلنے والی ٹرین پلٹن میدان میں جا الٹی۔ وہ آرمی چیف تھے۔ اس قدر ماہرانہ صلاحیتوں کے مالک کہ اپنی ہزاروں( میں نوے ہزار نہیں کہتا مگر یہ ایک کور تو ضرور تھی) کی تعداد میں فوج کو بھارت کے جنگی کیمپوں کی راہ دکھائی اور قائداعظم کا پاکستان دولخت کر دیا، وہ پاکستان جس کیلئے لاکھوں خواتین ، جوانوں، بچوں اور بوڑھوں نے ہجرت کرتے ہوئے جانیں قربان کیں، جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے طویل اور جانگسل جدوجہد کی۔ انہوں نے انگریز، ہندو اور مارآستین قسم کے یونین اسٹوں سے چومکھی جنگ لڑی۔ یہ پاکستان کسی آمر نے نہیں، ایک سویلین لیڈر نے بنایا تھا۔ وہ تھا بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، وہ کوئی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہیں تھا۔
تیسرے آمر کے کارنامے ملاحظہ فرمایئے، یہ جنرل ضیاءالحق تھے، انتہائی مسکین صورت مگر ملکی تاریخ میں پہلے منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر فائز ہو گئے، جس وزیراعظم کو انہوں نے گھر بھیجا تھا، اس نے ملک کو ایٹمی پٹڑی پر چڑھایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے، وہ ڈاکٹر قدیر کو باہر سے لایا۔ اسے تمام وسائل فراہم کئے، امریکہ کو خبر ملی تو اس کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے سرعام کہا کہ ہم بھٹو کو نشان عبرت بنائیں گے اور ایک منتخب وزیراعظم اور ملک کو ایٹمی پٹڑی پر چڑھانے والے سویلین لیڈر کو نشان عبرت بنانے کیلئے ایک آمر نے خوشدلانہ اور فخریہ کردار ادا کیا اور اسے پھانسی پر چڑھا دیا۔ یہی نیک فریضہ خود جناب مشرف بھی انجام دینا چاہتے تھے، اس وقت اس آمر کا شکار ایک اور منتخب وزیراعظم تھا، اس کے پاس ایوان میں دو تہائی اکثریت بھی تھی مگر جنرل مشرف نے کارگل ایڈونچر کی آڑ میں ان سے مخاصمت مول لے لی، اس ایڈونچر میں مشرف صاحب کشمیر کا ایک انچ بھی آزادا نہ کروا سکے بلکہ انہیں اپنے مجاہدین کو بھارتی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑا جن پر دو دو ہزار پونڈ کے بم دن رات گرائے گئے اور ان کا بھارتی فضائیہ نے قیمہ بنا دیا، اللہ ان شہیدوں کے درجات بلند کرے، نشان حیدر لالک جان کو سلام اور کرنل شیر خان کو سلام، وہ تو اس بدقسمتی سے آگاہ نہ تھے اور فوج کے ہر حکم کے پابند تھے، مگر مشرف کی پلاننگ، جنگ عظیم کے دو عظیم جرنیلوں منٹگمری اور رومیل سے بڑھ کر تھی۔ اس طرح تو وہ بھی اپنی افواج کو برباد نہ کر سکے تھے۔
آمر مشرف کے اپنے دور کو دیکھئے، نعرے بہت لگے کہ مگرمچھوں کا کڑا احتساب ہوگا، کالا باغ ڈیم بنے گا لیکن مگر مچھ ان کی کابینہ کا حصہ بن گئے اور کالا باغ، سبز باغ ثابت ہوا۔ اب بھی مصوف یہی سبز باغ دکھانا چاہتے ہیں اور قوم اور ملک کو درپیش فرضی خطرات کے مقابل نجات دہندہ اور مسیحا بننا چاہتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ وہ پاک فوج کا حصہ نہیں بلکہ کسی مریل سی سیاسی پارٹی کے خود ساختہ سربراہ ہیں جس کے پرندے اڑان بھر کے دوسری سیاسی پارٹیوں کی شاخوں پر جا بیٹھے ہیں۔ جنرل مشرف اپنے تئیں فوج کے نمائندے بنتے ہیں مگر میں قارئین کو یقین دلاتا ہوں کہ فوج سے جو ایک بارنکل گیا۔ بس وہ نکل گیا، اس کی طرف حاضر سروس فوج آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کی بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے دل میں ملک و قوم کا درد ہے اور وہ رہنمائی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ایک بات اور بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ جنرل مشرف کے زوال کے بعد جنرل کیانی، جنرل راحیل کے دماغ میں آمر بننے کا بھوت سوار نہیں ہوا اور جنرل قمر جاوید کو چیف بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر وہ تحمل کے ساتھ ہر سیاسی تصادم کو ٹال رہے ہیں اور اپنے دونوں پیش روﺅں کی طرح ملک کو دہشت گردی کے فتنے سے نجات دلانے کیلئے قربانیاں دینے کی روایت پر کار بند ہیں۔
اس پس منظر میں جنرل مشرف صاحب ضرور تشریف لائیں، ان کیلئے ایک تو پنجرے تیار ہیں، ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاءالحق ان پنجروں میں پھنسنے سے بچ گئے، مشرف صاحب بچتے دکھائی نہیں دیتے، وہ خود سے نہ بھی آئے تو ان کو کھینچ کر لایا جائے گا اور لوگ انہیں دیکھیں اور کہیں گے کہ پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں۔
جہاں تک سویلین دور کا تعلق ہے تو مشرف لاہور آئیں، انہیں میں ٹکٹ خرید کر میٹروبس کی سیر کرواﺅں گا، وہ ملتان میں اس کے مزے لیں، یا اسلام آباد پنڈی میں، مشرف نے ملک کو لوڈشیڈنگ کے جن اندھیروں میں ڈبویا تھا، وہ اب ختم ہو چکے، اور مشرف کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی جب وہ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک کی سج دھج دیکھیں گے۔ ان کی زبان مجبور ہو کر نعرہ لگائے گی کہ نواز شہباز زندہ باد!
آمر ضیاءاور آمر مشرف کی پٹڑی پر فرقہ واریت پروان چڑھی اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، پچھلے نو برسوں کے سویلین ادوار میں ان فتنوں کی سرکوبی ہو چکی۔ کس منہ سے کرتے ہیں آمریت اور سویلین حکومت کا موازنہ!!!
کیا آمریت پلٹن میدان میں دفن نہیں ہو گئی تھی، جب جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے سر نڈر کیا۔ اس تجہیزو تکفین کے بعد بھی آمریت سے عشق اور آئین کو رسی کی ٹوکری میں پھینکنے کا عشق کا فور نہیں ہوا۔
میں افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، وہ ملکی سلامتی اور قومی آزادی کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے سر دھڑ کی بازی بھی لگا رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭