خبرنامہ

آپریشن کی حمایت اور مخالفت

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آپریشن کی حمایت اور مخالفت

پیر کے روز کیولری گراؤنڈ لاہور میں ایک فوجی افسر کا جنازہ اٹھا، اس میں لاہور کے کور کمانڈر اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے بھی شرکت کی،اس شہید فوجی افسر کو خانیوال میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔
راناثناء اللہ نے ایک روز یہ دعوی کیا کہ پنجاب میں کہیں طالبان کا وجود نہیں۔ رانا صاحب اگر اپنی راجدھانی کے نقشے پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ خانیوال اور لا ہور دونوں پنجاب میں واقع ہیں۔ کبوتر اگر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے یا شتر مرغ خطرے کو بھانپ کر اپنی چونچ ریت میں دھنسالے تو کیا خطرے کا وجود مٹ جائے گا، رانا ثناء اللہ کو اس سے زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، مگر ایک بات انہیں اور بتاتا چلوں کہ کامرہ پر آخری حملے میں ایواکس طیارے کو تباہ کیا گیا تو اس میں ایک دہشت گرد کاتعلق میرے علاقے کے نواحی گاؤں برج کلاں سے تھا، یہ گاؤں لاہور کے جنوب میں پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ صرف آدھ گھنٹے کی مسافت پر۔
اسی روز یہ اندوہناک خبر بھی آئی کہ طالبان نے پاک فوج کے دو درجن مغوی اہل کاروں کو ذبح کردیاہے۔
رانا ثناء اللہ جس حکومت کا حصہ ہیں، اس کے سربراہ اس قدر مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کہ وہ چین کے دورے پر معمول کے مطابق روانہ ہو گئے حالانکہ ان کے بڑے بھائی جو وفاقی حکومت کے سربراہ ہیں، انہوں نے فوجی اہل کاروں کی شہادت کے غم میں کراچی کا دورہ منسوخ کر دیا مگر یہ کیفیت صرف ایک روزتک قائم رہ سکی، اگلے دن انہوں نے اپنی نامز کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے جبکہ قوم طبل جنگ بجنے کا انتظار کر رہی تھی۔
فوجی آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بڑا مشکل ہے۔ اس کے حق میں بھی دلائل دیئے جاتے ہیں اور مخالفت میں بھی۔ میاں نواز شریف کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ وہ آپریشن کا حکم بمشکل ہی دیں گے کیونکہ آپریشن کے نتیجے میں ان کو ذاتی طور پر نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، سو قوم کا نقصان ہوتا رہے، مسلح افواج کے اہل کاروں کی زندگی داد پرلگی ر ہے، وزیراعظم ذاتی نقصان سے بچنے کی ہرممکن کوشش جاری رکھیں گے۔
محب وطن طبقے دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے بہر صورت سخت گیرفوجی آپریشن کے حق میں ہیں۔ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ کہنا تھا سلطان میسور کا اور انہوں نے اس پرعمل کر دکھایا۔ مریں گے یا ماردیں گے، سسک سسک کر نہیں مریں گے۔ ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال بھی ہے جس نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی، اس سری لنکا کی فوج کو دہشت گردی سے لڑنے کی ٹریننگ ہماری فوج نے دی، جو فوج دوسروں کو ٹریننگ دے سکتی ہے، اپنے ہاں بھی یقینی طور پر کامیاب آپریشن کرسکتی ہے۔ مایوسی کی کوئی وجہ ہیں، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔ کیا یہ سارے اصول صرف بیت بازی کے لیئے ہیں۔ نہیں، ہم وہ قوم ہیں جسے قائد اعظم نے مشکل ترین حالات میں ایک آزاد مملکت لے کر دی۔ ہم وہی قوم ہیں جس کے ایک اور قائد نے کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے اور ہم نے یہ بم بنا کر دکھا دیا، یہ وہی قوم ہے جس کے قائد اعظم ثانی نے تمام تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود ایٹمی دھماکے کر دکھائے، اب قائد تو وہی ہے، اس کے اندر حوصلہ بھی وہی چاہئے، ہر ناممکن کام ممکن ہو جائے گا۔ یہی وہ منطق ہے جس کی بنیاد پر محب وطن حلقے صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ فوجی آپریشن ناگزیر ہو چکا، نوائے وقت کا ادارتی تبصرہ ہمارے لیے مشعل راہ ہونا چاہئے۔ فوجی آپریشن کے حق میں امریکہ بھی ہے، بھارت بھی ہے، خود طالبان بھی ہیں اور ہمارا طالبان میڈیا بھی ہے۔ طالبان میڈیا وہ ہے جو طالبان کا حامی ہے مگر بظاہر میں غیرت کا سبق پڑھا کر کہہ رہا ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی پر، رام بھلی کرے گا۔ امریکہ اور بھارت کی خواہش ہے کہ پاک فوج اندرونی کشمکش میں کمزور ہو کر رہ جائے، اس کا ڈنگ مر جائے، ان غیر ملکی قوتوں کو معلوم ہے کہ فوجی آپریشن سے قوم میں تفرقہ پھیلے گا۔ اکہتر میں تو چندلوگ تھے جنہوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی اورا نہیں بنگلہ دیش کی حکومت سے تمغے مل رہے ہیں۔ بھٹونے فوجی آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بچ گیا، جماعت اسلامی نے اس فوجی آپریشن میں فوج کا ساتھ دیا تھا اور اب اس کے لوگ بنگلہ دیش میں پھانسی بھگت رہے ہیں مگر آج ہماری جماعت اسلامی گوڈے گوڈے طالبان کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہے۔ فوجی آپریشن کا سن کر وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے۔
سول سوسائٹی میں طالبان کے اور بھی ہمدردموجود ہیں، اکثر مذہبی جماعتیں تحریک انصاف اور ہر قسم کی جے یوآئی، میڈیا کا بڑاحصہ۔ امریکہ اور بھارت کی کوشش ہے کہ پاک فوج آپریشن میں کودے اور ملک کے اندر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو جائے، اس طرح دنیا کی بہترین لڑاکا اور پروفیشنل فوج کے پر کٹ جائیں گے، امریکہ اور بھارت کو اس گھڑی کا بیتابی سے انتظار ہے۔ طالبان میڈیا، ہردم اکسارہا ہے کہ فوج کل کے بجائے آج ہی آپریشن کا آغاز کرے، یہ میڈیا لال مسجد کی تاریخ دہرائے گا جب پہل تو فوج کو،کوسا گیا کہ اس کی ناک تلے مسجد میں اسلحے کا ڈھیر لگ گیا، کبھی حکومتی رٹ کا طعنہ دیا گیا اور جب فوج نے آپریشن کیا تو معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کے نوحے پڑھے جانے لگے۔ یہی کچھ سوات کی شورش پر میڈیا نے کیا۔ پہلے تو یہی طعنے کہ حکومت اور فوج بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کی رٹ کو چیلنج کیا جارہا ہے، حکومت اور فوج نے خاموش تماشائی کا کردار اپنا لیا ہے مگر جب فوج نے آپریشن کیا اور چند ماہ کے اندر امن امان قائم کر دکھایا تو برسوں گزرجانے کے بعد بھی طالبان میڈ یا ظلم کی داستانیں دہرارہا ہے۔ فوج کے مظالم کے قصے تراش رہا ہے۔ اب اگر فوج نے فاٹا میں فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کر دیا تو اس میڈیا کے ہر آن بدلتے تیور دیکھنے کے لائق ہوں گے۔ اور فوج، حکومت وقت کی طرف دیکھ رہی ہے،حکومت گومگو کی کیفیت میں ہے۔ وزیراعظم کی پارٹی کچھ اور چاہتی ہے مگر وزیراعظم کچھ اور فیصلہ کرتے ہیں، وہ جو کہتے ہیں، کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں، وہ کہتے نہیں۔ آخر تین بار حکومت میں رہنے کا تجر بہ ہیں تو کام آئے گا نا؟
دنیا میں کون سا ملک ہے جس نے دہشت گردی کے مسئلے پر سمجھوتہ کیا ہو۔ بھارت میں کشمیری عوام حقیقی معنوں میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن بھارت نے ایک محدود سے علاقے میں آٹھ لا کھ فوجی گھسیڑ دی ہے، بھارت کے درجنوں صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارت نے کسی کے ساتھ تھک ہار کر مذاکرات کاراستہ اختیار نہیں کیا۔ کیا امن صرف پاکستان کو چاہئے اور وہ بھی بھیک کے طور پر۔(19 فروری 2014ء)