خبرنامہ

احتساب، شہباز شریف اسٹائل۔۔۔اسداللہ غالب

سردار محمد چودھری مرحوم آئی جی پولیس پنجاب کے طور پر میاں نواز شریف کے انتہائی قریب تھے، انہوں نے ایک کتاب بھی تصنیف کی، ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر۔ان کی کتاب جہان حیرت ایسے مواد سے اٹی ہوئی ہے جس میں فوجی ڈکٹیٹر شپ سے نفرت کاا ظہار ہوتا ہے،وہ جنرل یحی خاں کو ٹرائل کے لئے کورٹ لے جایا کرتے تھے، ایک دن جان بوجھ کر ہیلی کاپٹر کے بجائے جیپ میں لے گئے، راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آیا جہاں ہجوم نے یحی خان کو پہچان لیا اور ان پر پتھر برسانے لگے۔ سردار چودھری نے بمشکل انہیں بچا کر عدالت پہنچایا مگر انہیں اتنا ضرور جتلا دیا کہ فوجی حکومت اور ڈھاکہ سرنڈر کی وجہ سے عام لوگوں میں ان کے خلاف کس قدر نفرت بھری ہوئی ہے۔
اسی چودھری سردار محمد کی وفات ہو گئی، اس کے بعد حکومت بدلی ا ور میاں شہباز شریف پنجاب میں وزیر اعلی کی مسند پر فرو کش ہوئے۔سردار چودھری کا بیٹا پنجاب بنک میں اعلی عہدے پرتھا جس کے کسی اسکینڈل کی زد میں وہ بھی آ گئے۔انہوں نے باپ کے تعلقات کی بنیاد پر چیف منسٹر کو فون کیا کہ انکل، میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور گندم کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے، وزیر اعلی نے جواب دیا کہ اس اسکینڈل میں میرا سگا بیٹا بھی ہوتا تو میں کوئی رو رعائت نہ کرتا، آپ بھی میرٹ پر تفتیش میں بری ہو گئے تو ہو گئے ورنہ میری طرف سے معذرت!!بہر حال آپ سے کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔
میٹرو بس کا منصوبہ شروع ہوا تو پہلے پہل اس کے خلاف شور اٹھا کہ یہ جنگلہ بس منصوبہ ہے، پھر الزام تراشی کی گئی کہ اس میں پیسہ کھایا گیا ہے ا ور وہ بھی اربوں کے حساب سے، پنڈی میں بھی میٹرو بن گئی ا ورا س پر بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا ، چیف منسٹر کو ہی کرنا پڑا، یہی بس ملتان میں بن رہی ہے، ابھی اس پر زبان طعن دراز نہیں کی گئی، مگر لاہور میں میٹرو ٹرین پر تو ایسا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، میں نے اپنے کانوں سے سنا، چیف منسٹر اپنے دوست کیپٹن شاہین کے گھر پر مدعو تھے، انہوں نے جذباتی آواز میں کہا کہ ان کے خلاف ایک پائی کی کرپشن کا الزام درست ثابت ہو جائے تو وہ ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں اور خود کو یہ سزا دیں گے کہ سیاست سے ہمیشہ کے لئے دست کش ہو جائیں گے۔
شہباز شریف کے یہ چیلنج ریکارڈ پر ہیں ، وہ ہر فورم پر انہیں دہرا چکے ہیں مگر کوئی شخص کسی ایک الزام میں ان کے خلاف عدالت میں نہیں گیا۔چین جیساملک اگر ان پر اعتماد کرتا ہے اور ان کے کہنے پر اربوں کے منصوبے لا رہا ہے ا ور قرضوں پر قرضے دیئے چلا جا رہا ہے تو یہ اس کے بھر پور اعتماد کا بین ثبوت ہے جو اسے شہباز شریف کی ذات ا ور گورننس پر ہے۔
شہباز شریف کی ذات کے گرد ایک ا سکینڈل اور گھڑا گیا تھا ، یہ تھا بیکری اسکینڈل جس میں ان کی بیٹی کو مطعون کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے گارڈز سے ایک بیکری والے کی پٹائی کی تھی۔اور میڈیا پر کہا یہ جا رہا تھا کہ یہ زیادتی چیف منسٹر کے برتے پر کی گئی ہے تو گویا الزام سیدھا شہباز شریف پر تھا، ان دنوں اوپر حکومت زرداری کی تھی جسے میثاق لندن کا کوئی پا س لحاظ نہ تھا۔ان کی حکومت نے اس الزام کو اپنے لفافہ برداروں کے ذریعے خوب خوب اچھالا، چیف منسٹر نے اس کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان کے نواسے کو کسی ٹیچر کی کوچنگ کے باعث ایچی سن کالج میں داخلہ مل گیا ہے، سو اس ٹیچر کا شکریہ ادا کرنے کے لئے شہبا زمیاں کی بیٹی نے سوچا کہ کیوں نہ ان کے گھر ایک کیک دے آؤں، وہ ایک بیکری پر گئیں ، روایتی سے کیک دیکھ کر انہوں نے دکاندار سے پوچھا کہ کیا کوئی بہتر کیک بھی ہیں، اس آدمی نے کہا کہ نیچے بیس منٹ میں اور بھی ورائٹی ہے، محترمہ سیڑھیاں اتریں، نیچے گھپ اندھیرا تھا ،ا نہوں نے کاؤنٹر والے شخص سے کہا کہ مجھے کہاں بھجوا دیا، وہاں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ،ا س پر کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص نے قہقہ لگایا، محترمہ نے احتجاج کیا تواس پر اس نے اور بھی زور سے قہقہ لگایا، محترمہ سمجھ گئیں کہ یہ شخص ان کا مذاق اڑا رہا ہے،ا س وقت بیکری کے پبلک ایڈریس سسٹم پر سورہ رحمن کی تلاوت ہو رہی تھی، محترمہ سے رہا نہ گیا ، کہنے لگیں یا تو اس سورہ کی تلاوت بند کردو یا میرے ساتھ ٹھٹھہ بند کرو، مگردکاندار کے قہقہے تھے کہ بلند تر ہوتے چلے گئے،ا س پر محترمہ کے گارڈ نے مداخلت کی کہ ایک خاتون کا کیوں ٹھٹھہ اڑا رہے ہو،ا س موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی اور ایک دوسرے کی دھکم پیل کی نوبت بھی آئی۔ہر دکان کی طرح اس دکان میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے اور یہ فلم بن رہی تھی جو میڈیاتک پہنچ گئی۔اور یہ شور بلند ہو گیا کہ چیف منسٹر کی یٹی اورا س کے گارڈز نے ایک بیکری والے کی مرمت کر دی ہے۔بات زیادہ پھیلی تو شہباز میاں کے داماد عمران علی یوسف نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گارڈز کو پولیس کی تحویل میں دے دیتے ہیں ،مگر شور مچانے والے اس پر خاموش نہ ہوئے، اس اثناء میں عمران یوسف علی کراچی کام کے لئے گئے توانہیں شہباز شریف کا فون موصول ہو اکہ فوری طور پر واپس آؤ، وہ لاہور ایئر پورٹ پر اترے ہی تھے کہ انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار نے فون پر کہا کہ تم وہ کام کر رہے ہو جو میں نہیں کر سکا ۔ اصل میں جب ارسلان افتخار کے خلاف کرپشن کے الزامات سامنے آئے تو ایک دوست کی حیثیت سے عمران یوسف علی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ گرفتاری دے دے،ا س سے اس کا باپ ہیرو بن جائے گاا ور ارسلان کا قد بھی بڑھ جائے گا۔عمران یوسف علی کو ارسلان کی بات سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، پھر اسے فون پہ فون آنے لگے کہ ہر ٹی وی چینل پر خبریں چل رہی ہیں کہ عمران کی گرفتاری عمل میں آنے والی ہے۔عمران سیدھا چیف منسٹر کے پاس پہنچا،اس نے کہا کہ میں تو موقع پر موجود ہی نہ تھا ، گارڈز کو ہم پولیس کے حوالے کر چکے، محترمہ نے تو گالی گلوچ بھی نہیں کی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ ا س وقت آپ کی نہیں ، میری بیٹی کی نہیں ، خود میری عزت اچھالی جا رہی ہے ، کیا تم میری خاطر قربانی دینے کو تیار ہو، عمران نے بلا جھجک کہا کہ آپ میرے والد صاحب کی جگہ پر ہیں، میرے جیل جانے سے آپ کی عزت بچتی ہے تو میں یہ قربانی دینے کوتیار ہوں، چیف منسٹر نے ا س نوجوان کو گلے لگا لیاا ور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تم بے گناہ ہو مگر ہمارے خاندان کو رسوا کیا جا رہا ہے۔ہمارا قصور ہے یا نہیں، ہمیں اس ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنی ہے اور یہ کہہ کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے زیادہ طاقتور حاکم اور باجبروت چیف منسٹر نے اپنے داماد کو پولیس کی تحویل میں دے دیا ۔
میں نے احتساب کا یہ قصہ بہت ہی اختصار سے بیان کیا ہے کہ کالم کی بساط ہی اتنی ہے۔
ہم مسلمان ہیں اور ہم نے سن رکھا ہے کہ ہمارے پیغمبر ﷺ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا۔
میں نہیں جانتا کہ پانامہ لیکس پر میاں نواز شریف کیا رستہ اپنائیں گے، ابھی تو ان کے لئے صحت کاملہ کی دعا ہے مگر میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگر پانامہ لیکس میں شہباز شریف یا حمزہ شہباز کا نام آیا ہوتا تو وہ خود کو نیب یا ایف آئی اے کے سپرد کر چکے ہوتے یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو چھوڑ دیتے۔اور یہ تاج و تخت ٹھکرا دیتے۔
ویسے تو وزیر اعظم نے بھی سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا تھامگر اپوزیشن نے ان کی ایک نہ چلنے دی تو پھر وزیرا عظم کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس اپوزیشن کا ہر میدا ن میں مقابلہ کریں اور خم ٹھونک کر کریں۔