خبرنامہ

اخوت کی طلسم ہوشربا…. اسد اللہ غالب….انداز جہاں

اخوت کی طلسم ہوشربا…. اسد اللہ غالب….انداز جہاں
میراا رادہ تھا کہ رمضان المبارک میں کوئی سیاسی بات نہیں کروں گا اور صرف نیکو کاروں کا ذکر کر کے خود بھی نیکیاں کمائوں گا۔ نیکی کا ذکر بھی نیکی ہے۔، کچھ کوشش کی بھی مگر ملک میں سنگین مسائل کھڑے ہو چکے ہیں جس کے باعث قلم اسی طرف رواں رہتا ہے اور نیکی کے پرچار کے مواقع نہ مل سکے۔
میں اخوت کے نظام کو سمجھ کر اس پر لکھنا چاہتا تھا۔ یہ ادارہ لوگوں کی زندگی میں کیسے انقلاب لاتا ہے ا ور ان کے لئے نت نئے روزگار کے مواقع کیسے پیدا کرتا ہے، یہ تھی میری جستجو، میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتابیں پڑھیں۔ انٹرنیٹ سے ا ستفادہ کیا اور کچھ عملی مثالیں اور کہانیاں تلاش کر نے میں کامیاب ہو گیا۔
محض یہ کہہ دینا کہ فلاں ادارہ بے حد نیکی کے کاموں میں مصروف ہے، اس سے پتہ نہیں چلتا کہ نیکی کیا کی، کس سے کی اور اس کا فائدہ بھی ہوا یا نہیں مگر چند کہانیوں سے ساری بات سمجھ میں آ گئی۔
قرضہ حسنہ دینے والے سب سے بڑے ادارے ’’اخوت‘‘ سے اب تک ہزاروں خاندان مستفید ہو چکے ہیں۔ ’’اخوت‘‘ سے قرض حاصل کرنے اور باعزت روزگار کرنے والے چند افراد کی حقیقی کہانیاں پیش خدمت ہیں۔
پہلی کہانی محمد سلیم کی ہے۔ یہ کچھ عرصہ ایک فیکٹری میں کام کرتا رہا۔ پھر بیروزگار ہو گیا۔ بہت کام تلاش کیا لیکن ناکامی ہوئی۔ کسی نے اخوت کا بتایا تو اس نے دس ہزار قرض لیا اور پھلوں کی ریڑھی لگا لی۔ اس سے کام چل نکلا تو اس نے دوبارہ مزید تیس ہزار قرض لیا اور پرچون کی دکان ڈال لی۔ اس کے چار بیٹے تھے اور چاروں نالائق ۔ تعلیم سے دور بھاگتے تھے۔ایک بیٹی البتہ پڑھنا چاہتی تھی لیکن اس کے پاس اسے پڑھانے کے لئے پیسے نہ تھے۔ پرچون کی دکان ڈالی تو یہ چل نکلی۔ اس نے مزید قرض لیا اور ایک اور دکان ڈال لی جس میں دو بیٹے بیٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ تیسری دکان بھی شروع کر لی۔ اب اس کے چاروں بچے اس کا بازو بن چکے ہیں اور دکانوں پر محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کی اکلوتی بیٹی کا ایف اے میں داخلہ بھی ہو گیا ‘اسے آگے بھی پڑھانے کا ارادہ ہے کیونکہ اب اس کے پاس وسائل بھی ہیں اور حوصلہ بھی اور یہ سب اخوت کے قرض حسنہ سے ممکن ہوا۔
دوسری کہانی رحمان بی بی کی ہے۔ اس کے شوہر کی وفات ہوئی تو اس کیلئے مسائل اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ اس کے پاس سرمایہ ‘جائیداد‘ بینک بیلنس کچھ بھی نہ تھا۔ بس ایک ہنرتھا۔ اسے کروشیا کا کام آتا تھا۔ وہ کپڑوں پر خوبصورت ڈیزائن بنانے کی ماہر تھی۔ وہ اس ہنر کو استعمال میں لا کر زندگی کی گاڑی چلا سکتی تھی لیکن اس کام کیلئے بھی اسے چھوٹی موٹی رقم درکار تھی۔ کسی نے اسے بلا سود قرضے فراہم کرنیوالے ادارے ’’اخوت‘‘ کا بتایا تو رحمن بی بی نے قرض کی درخواست دے دی۔ اسے دس ہزار روپیہ قرض مل گیا۔ اس نے ان پیسوں سے کپڑا‘ کروشیا اور اون خریدی‘ خوبصورت چادریں تیار کیں‘ انہیں مارکیٹ میں فروخت کیا اور معقول آمدنی حاصل کی۔ اس نے محلے کی کئی عورتوں کو بھی ساتھ ملا لیا‘ یوں دیگر گھروں میں بھی معاشی حالات بہتر ہونے لگے۔یہ تمام عورتیں نہ صرف معاشی طور پر محفوظ ہو چکی تھیں بلکہ ان کے اخلاق اور رویے میں بھی تبدیلی آ گئی تھی۔
تیسری کہانی رفاقت علی کی ہے جو عزم و ہمت کی زندہ مثال ہے۔ رفاقت علی جس محلے میں رہتا تھا وہاں ایک شخص نے پستول نکالا اور فائر کھول دیا۔ رفاقت علی قریب سے گزر رہا تھا کہ ایک گولی اس کی ٹانگ میں جا لگی‘ گولی کا زہر پھیل گیا اور ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔ ہسپتال سے فارغ ہوا تو بیروزگاری نے دبوچ لیا۔ اس کے حالات خراب اور بچوں کی تعلیم تک چھوٹ گئی۔ پھر اس نے سنار کا کام سیکھا اور ایک دکان میں ملازم ہو گیا۔ کسی نے اسے اخوت کا بتایا تو اس نے قرض لیا‘ اوزار اور مشین خریدی اور دکان کرائے پر لے لی۔ خدا کے فضل سے کام چل نکلا‘ آمدنی بڑھنے لگی‘ بچے بھی دوبارہ سکول جانے لگے اور گھر کے حالات بھی بہتر ہو گئے
چوتھی کہانی محمد انور کی ہے جس نے مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کر کے دوسروں کے لئے عظیم مثال قائم کی۔ اڑسٹھ سالہ محمد انور گرین ٹائون کا رہائشی ہے۔ چار سال قبل تک وہ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کے بیٹوں کی شادیاں ہوئیں اور انہوں نے باپ سے حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ وہ محمد انور سے جھگڑتے اور اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ سڑکوں پر ٹھوکریں کھانے لگا‘ فٹ پاتھ پر سوتا اور دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو گیا۔ ایک روز کسی کو اس پر رحم آیا تواسے اخوت کے دفتر لے آیا۔ محمد انور کو قرض ملا تو اس نے قسطوں پر موٹرسائیکل خریدلی اور کرائے پر دینے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کا خرچہ نکلنے لگا اور رہنے کا بندوبست بھی ہو گیا۔ آج اس کی دکان میں چار موٹرسائیکلیں ہیں اور وہ اسی سے روزگار چلا رہا ہے۔اسے کسی سے مانگنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو چکا ہے بلکہ کچھ پیسے ہر ماہ اخوت کو قسط کے علاوہ بھی دیتا ہے تاکہ نئے قرض خواہ بھی اپنا کاروبار کر سکیں۔
پانچویں کہانی انجم بشارت کی ہے۔ یہ گھر میں ہی چھوٹی سی مشین لگا کر آرڈر پر ایکسپورٹ کوالٹی مال تیار کرتے تھے۔ان کے گھر ڈکیتی ہو گئی جس میں چور تیار مال کے ساتھ ساتھ ان کے تمام اوزار تک لے گئے۔ ان کی ساری کمائی لٹ گئی۔ اس واقعے سے انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ بستر پر لگ گئے اور سات برس بیمار رہے۔ ان کی بیگم کو سلائی کڑھائی کا کام آتا تھا اور وہ ایک فیکٹری میں پروڈکشن کا کام کر چکی تھیں۔ انہیں کسی نے اخوت کا بتایا تو انہوں نے رابطہ کر کے پچیس ہزار قرض حسنہ لیا۔ یہ سود سے بغیر تھا اس لئے اس قرض میں برکت ہوئی۔بشارت صاحب کی بیوی نے سلائی مشینیں خریدیں اور گھر کا خرچ بھی چلایا اور بچت بھی کی۔ کچھ عرصہ بعد قرض واپس کر دیا اور دوبارہ ایک لاکھ روپے قرض لیا جس سے بشارت صاحب نے وہ اوزار اور مشین خریدی جس پر کام کر کے وہ گھر کا گزارا چلاتے تھے۔ اب وہ پہلے کی طرح کام کرنے لگے تھے اور انہیں ڈکیتی کا غم بھی بھول گیا اور وہ دوبارہ سے معقول زندگی گزارنے کے قابل ہو گئے۔
یہ کہانیاں آپ نے پہلے بھی سنی ہوں گی اور آئندہ بھی سنتے رہیں گے۔یہ نیکی اور فیض و برکت کے سرچشموں کی کہانیاں ہیں۔ کہتے ہیں دیئے سے دیا جلتا ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس قدر دیئے جلا چکے ہیں کہ معاشرے میں ان کی روشنی حاوی نظر آتی ہے، یہ محیرا لعقول کارنامے انہوںنے اخوت کے پلیٹ فارم سے انجام دیئے۔دنیا میں بنگلہ دیش کے ادارے گرامین کا بہت ذکر ہوتا تھا کہ اس نے مڈل کلاس کی زندگی میں ایک خاموش انقلاب پید ا کر دیا مگر جب پردہ ہٹا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ تو قرض در قرض کے لعنتی نظام میں جکڑے جا چکے ہیں، اس پر وہ لوگ بھی شرمندہ ہوئے جنہوںنے گرامین کے مالک ڈاکٹر یونس کو نوبل انعام سے نواز دیا تھا۔ مگر پاکستان میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے اخوت کو جس مرضی جے آئی ٹی کے معیار پر پرکھ لیجئے، اس کے ایک ایک پرت کا خورد بینی جائزہ لے لیں ، آپ کو کوئی جھول نظر نہیں آئے گا، اخوت سے جس کسی نے روزی روٹی کمائی، اسے یہ احساس نہیں ہوا کہ اس پر کسی نے کبھی احسان بھی جتا یا ہو۔ ہر کسی کی عزت نفس محفوظ رہی۔ کوئی اہل کار ڈنڈا لے کر قرض کی واپسی کے لئے ان کے تعاقب میں نہیں آیا ، اور اسی رویئے کے باعث اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح ننانوے فی صد سے بھی زیادہ ہے جبکہ عام سودی قرضوں اور بنکوں کے مرہون منت ادارے ننانوے فی صد قرض کھا جاتے ہیں۔کسی کے مقدمے بنکنگ کورٹوںمیں چلتے ہیں، کوئی نیب کے ہاتھوں رسوا ہوتا ہے اور کوئی بھاری سفارش تلاش کر کے قرضے مع سود معاف کرا لیتا ہے جس سے بنکاری نظام بیٹھ رہا ہے۔ مگر اخوت کا نظام پھیل رہا ہے، اس قدر پھیل رہا ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب خود بھی اس قدر بڑی کامیابی پر حیران ہو ہو جاتے ہیں۔