خبرنامہ

اسحاق ڈار پانامہ میں، بھید میں کھولتا ہوں۔۔۔اسداللہ غالب

پانامہ جانے میں ہماراآئین رکاوٹ نہیں بنتا،اسرائیل جانے میں ممانعت ہے ، پھر بھی کتنے ہی پاکستانی دوہری شہریت کے طفیل اسرائیل جا کرحج اکبر کا ثواب کما چکے ہیں، ان میں ہمارے چودھری سرورا ور ملک غلام ربانی بھی شامل ہیں، جب ہم نے انہیں برا بھلا نہیں کہا تو پانامہ جانے والے پر کیوں انگلیاں اٹھائیں گے۔
ہمارے وزیرا عظم نے لندن پہنچنے پر کہا تھا کہ انہیں کوئی ڈر خوف ہوتا تو وہ پانامہ جاتے مگر وہ تو علاج اور چیک اپ کے لئے لندن آئے ہیں۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ عمران خان کو پانامہ لیکس کی بڑی فکر لاحق ہے مگر وہ بھی لند ن ہی گئے، ایک بڑے ہوٹل میں چندہ اکٹھا کیا، اپنے سابق سسرال پہنچے تو پاکستانیوں کا ایک جلوس بھی وہاں پہنچ گیا، لوگ پوچھ رہے تھے کہ خان صاحب، کتنا مال کمایا ہے اور کہاں ڈپازٹ کر اچلے ہو، ادھر خواجہ آصف کامطالبہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ عمران خان پہلے شوکت خانم کے فنڈز کاحساب دیں ، یہ تو زکوات، صدقات کا مقدس پیسہ ہے،ا سکی ایک ایک پائی کا حساب دینا خان صاحب کا فرض بنتا ہے۔ پیسہ ہو اور خورد برد نہ ہو ، یہ کیسے ہو سکتا ہے، یہ الزام ایسا ہی ہے جیسے عمران خان پانامہ لیکس پر بلیم گیم کا ڈھول گلے میں لٹکا کر پیٹے چلے جا رہے ہیں۔مگر سچ جھوٹ کا پتہ تو تحقیقات کے بعد ہی لگ سکتا ہے، عمران کہتا ہے کہ پانامہ کی تحقیقات کراؤ اور ہم کہتے ہیں کہ شوکت خانم کا حساب دو۔ میرا مزید مطالبہ ے کہ بنی گالہ کا حساب پیش کرو، ا سکے لئے پیسہ کہاں سے آیا، اتنا بڑا محل جس کی ایک چھڑے چھڑانگ انسان کو قطعی ضرورت نہیں۔پتہ نہیں چھوٹو گینگ کے سربراہ کا کچے کے علاقے میں کتنا بڑا محل ہے، اس کا علم تو آج کل میں ہو جائے گا، فوج نے کاروائی شروع کر دی ہے، اس سے بچ کر چھوٹو کہاں جائے گا، سب کچھ الم نشرح ہو جائے گا مگر عمران خان سے کون حساب لے گا۔
کیا ہمارے وزیر خزانہ نے پانامہ کا سفر عمران سے حساب لینے کے لئے کیا ، مگر اس کے لئے پانامہ جانے کی کیا ضرورت تھی اوراس قدر چھپ کر کیوں چلے گئے، عمران نے اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ فرسٹ کلاس میں سفر کیا، اسحق ڈار باہر نکلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔ گمان یہ ہے کہ حکومت نے جو نئی پی آئی اے بنائی ہے،ا سکے کسی جہاز سے گئے ہوں گے، تبھی تو پکڑائی نہیں دے رہے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تخت سلیمانی پر بیٹھ کر چلے گئے ہوں اور سر پہ سلیمانی ٹوپی بھی پہن رکھی ہو،اس طرح وہ تو کسی کو نظر میں آ ہی نہیں سکتے تھے۔ اورسوال یہ ہے کہ اگر اسحق ڈار پانامہ گئے تو یہ وزیر اعظم ہاؤس کا کنٹرول کس نے سنبھال رکھا ہے، ایک تو وزیرا عظم کا مثنی، اوپر سے وزیر خزانہ کا مثنی، اس حکومت کے پاس آخر کیا جادو ہے۔
پانامہ کے وزیر نے کہا کہ ان سے پاکستان کے وزیر خزانہ نے ملاقات کی اور پانامہ لیکس پر گہری تشویش کااظہار کیا۔ مگرا س وزیر کو کیا ہو گیا کہ چوبیس گھنٹے بعد اپنا بیان بدل لیا۔ ادھر ہم اپنے وزیر خزانہ کے لتے لینے کی تیاری کر رہے تھے کہ پانامہ کے وزیر نے سارا کھیل ہی خراب کر دیا ، آخرتوو ہ پانامہ کا وزیر ہے، جب اس ملک سے دنیا بھر کے بارے میں گند اچھالا جا سکتا ہے تو ایک اسحق ڈار کے بارے میں ہلکا پھلکا سا انکشاف سا منے آ گیا تو اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے۔
میں ہفتے کے روز اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد سے ملا، وہاں خواجہ خورشید انور کے بیٹے خواجہ عرفان انور بھی موجود تھے، یہ تین راوین دوستوں کی ملاقات تھی۔اس وقت خبر ہوتی کہ اسحق ڈار پانامہ گئے ہیں تو سعید احمدسے تفصیل مانگ لیتے ، اسحق ڈاراور سعید احمد دو قالب ویک جان کی مثال ہیں، مگر سعید احمد ہم سے پوچھ رہے تھے کہ پانامہ لیکس میں ان کانام کیسے آ گیا۔اگر تو اس الزام کی بنیاد اسحق ڈار کے بیان حلفی پر ہے تو اسے عدالت اس بنیاد پر منسوخ کر چکی کہ یہ بیان دباؤ میں لیا گیا۔ لفظ دباؤ اس کیفیت کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے جس سے اسحق ڈار کو گزرناپڑا، جن دنوں مشرف کے خلاف عدلیہ تحریک چل رہی تھی تو میں نے احسن اقبال کو ایک ٹی وی پر چیختے ہوئے سنا کہ جب انہیں پکڑا گیا تو انہیں دباؤ میں لانے کے لئے گرم گرم پانی ان کے کانوں میں انڈیلا جاتا تھا۔ پرویز رشید کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ا نہیں اس قدراذیت دی گئی کہ وہ کئی برس تک نیویارک میں نفسیاتی معالجوں کی فیسیں بھرتے رہے ،میں نے گزشتہ برس پرویز رشید سے پوچھا تھا کہ اگر وہ اپنی ابتلا کی تفصیل سے مجھے آگاہ کریں تو میں اردو ڈائجسٹ کی کہانیوں کے تجربے کو بروئے کار لا کر ان کی ایسی داستاں رقم کروں گا کہ پڑھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے مگر پرویز رشید نے کہا جو گزر گیا، وہ گزر گیا۔ماضی کو کریدنے سے کیا حاصل۔مجھے کسی نے بتایا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو سیف ہاؤس میں رکھا گیا توا س کامطلب ہوتا ہے کہ ایک تنگ وتاریک تہہ خانے میں مرغی کے ڈربے کے برابر لوہے کے پنجرے میں انسان کو ٹھونس دیا جاتا ہے جس میں وہ چوبیس گھنٹے اکڑوں بیٹھا رہتا ہے، بیٹھا کیا رہتا ہے، کراہتا رہتا ہے، اور اگلی صبح اس کے آگے چند نوالے پھینک کر پوچھا جا تا ہے کہ طوطے کی طرح بولنے کے لئے تیار ہو یا نہیں، یہ سب کچھ گوانتا نامو میں نہیں، ہمارے اپنے وطن میں ہوتا رہا ہے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ ایساظلم و ستم روا رکھا گیا۔ نواز شریف کی حکومت تو الٹ دی گئی، پھر انہیں اسلام آباد سے کراچی کی عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے جہاز میں لے جایا جاتا تو آ ہنی ہتھکڑیوں سے ا نہیں سیٹوں سے باندھ دیا جاتا۔ یہ ہوتا ہے دباؤ، جس کاسامنا کوئی بھی نہیں کر پاتااور اگرا س دباؤ میں آپ کوئی بیان حلفی دے دیتے ہیں تاکہ وقتی اذیت سے چھٹکارہ پا سکیں تو قانون آپ کو تحفٖظ دیتا ہے کہ آپ کسی بھی عدالت میں یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ میرا پہلا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے۔اور پھر جو نیا بیان آپ ریکارڈ کراتے ہیں ، قانون میں اسی کو مانا جاتا ہے۔ اسحق ڈار نے اپنا یہ قانونی حق استعمال کیا اور منی لانڈرنگ کے سلسلے میں سعید احمد کا حوالہ دے ڈالا، بخدا، اگر اسحق ڈار کا بیان سچا بھی ہوتا تو میں پھر بھی آنکھیں بند کر کے کہہ دیتا کہ سعید احمد ایسی اوچھی حرکت نہیں کر سکتا، میں ا س شخص کو پچاس برس سے جانتا ہوں ا ور جس قدر اسحق ڈار کو جانتا ہوں ،ا سکے پیش نظر میں یہ کہہ چکا ہوں کہ ان کے بارے میں سب کچھ افترا پردازی ہے، میں دوستوں کے بارے میں غلط بات نہیں سن سکتا،اسی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے اپنی گواہی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل دے رہا ہوں۔
آپ میری گواہی پر یقین نہ کریں مگر پانامہ کے وزیر کی گواہی پر تو یقین کریں جس نے ایک دن کہا کہ ا س کی پاکستان کے وزیر خزانہ سے ملا قات ہوئی، دوسرے دن کہا کہ نہیں، وہ سیکرٹری خزانہ تھے، جو شخص ایک بیان دے، پھرا س سے مکر جائے اور اگلے روز نیا بیان دے ڈالے اور وہ ہو بھی ا سی ملک کا وزیر جو پانامہ لیکس کا سر چشمہ ہے تو ذرا سوچئے کہ جب ایک وزیر کی آنکھوں کا اور ذہن کا اور یاد داشت کا یہ حال ہے تو اس ملک کے اخبار نویسوں کی الف لیلی پر کون یقین کرے گا، آپ کر لیں، میں تو نہیں کرتا۔
پانامہ کا وزیر جھوٹا ہے تو ا س ملک کی لیکس بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
اسی لیئے تو ہمارے خان صاحب اور پیپلز پارٹی والے اچھل کود بہت کر رہے ہیں مگر کسی کمیشن کو قبول نہیں کرتے، اس لئے قبول نہیں کرتے کہ کمیشن بن گیا تو ان کا جھوٹ پکڑا جائے گا۔
دیکھو دیکھو !جھوٹے کا منہ کالا۔