خبرنامہ

اعلان کیانی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اعلان کیانی

نواز شریف نے چار سال قبل کہا تھا کہ جنرل کیانی کو توسیع نہیں ملنی چاہئے، پرویز رشید نے اس اتوار کو کہا کہ جنرل کیانی کو توسیع نہیں دیں گے۔ چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک پریس ریلیز سامنے آ گئی جس کا مطلب تھا کہ کیانی کوئی توسیع نہیں چاہتے۔ اب آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔
ریٹائر کرنایانہ کرنا حکومت کا اختیار ہے مگر کیانی نے یہ اختیار خود استعمال کیا۔ اور حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔
جنرل آصف نواز حادثاتی موت سے ہمکنار ہوئے تو میں نے کچھ لوگوں کو قہقہے لگاتے دیکھا اور سنا۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے اعلان پر انہی لوگوں نے گزری ہوئی شب،شب برات کے طور پر منائی ہوگی۔
جنرل کیانی جیسا بھلا، آرمی چیف کس کو ملے گا، پانچ وز یر اعظم بھگتائے کسی کو تنگ نہیں کیا، ہاں ایک موقع پرگیلانی نے ضرور کہا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلنے دوں گا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے آرمی چیف کو مخاطب کیا تھایا صدر زرداری کو۔
کیانی کو اتوار والے فیصلے پر پہنچانے کے لیے ملکی میڈیا نے مئی ہی میں دباؤ بڑھا دیا تھا۔ کیانی خودبھی زیادہ ہی شریف آدمی ہیں، ابھی نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے تھے کہ ان کے پاس ماڈل ٹاؤن چلے آئے۔ یار لوگوں نے سوچا ہوگا کہ یہ تو ایک کمزور شخص ہے۔ پھر نثار اور شہباز بریگیڈ نے گھیرا ڈالا، آخر میں اکیلے شہباز دو بدو ہوئے، غیرملکی میڈیا بھی بیحد متحرک تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اتوار کو ایک خبر شائع کی۔ نثار اور شہباز کیا چاہتے تھے ملکی اور غیرملکی میڈیا کیا چاہتا تھا، میرا اندازہ ہے کہ سب کا مقصد ایک تھا کہ کیانی سے نجات حاصل کی جائے۔
میں حالات سے براہ راست با خبرنہیں ہوں مگر مجھے یوں لگا کہ یوم شہدائے گیاری پر تقریر جنرل کی الوداعی تقریر ہے، میں نے اس لیئے لکھا کہ وہ جاتے جاتے قوم کو رلا کیوں رہے ہیں، یہ میری طرف سے کیانی کو خداحافظ تھا۔ اگر کیانی یہ چاہتے تھے کہ افواہیں دم توڑ جائیں تو یہ خواہش پوری نہیں ہوئی، پیر کے روز کے اخبارات مزید افواہوں سے بھرے ہوئے ہیں کہ کیانی کو کوئی نئی نوکری مل سکتی ہے۔ قومی سلامتی کا مشیر یا واشنگٹن میں سفارت۔ مجھے شبہ ہے کہ جب تک کیانی صاحب ایک بریف کیس اور لیپ ٹاپ اٹھائے بیرون ملک لیکچر دینے روانہ نہیں ہو جاتے، افواہ ساز ان کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
کیانی نے تو جانے کا فیصلہ سنادیا، ان کی جگہ کون لے رہا ہے۔ میڈ یابعض امیدواروں کی خوبیاں گنوار ہا ہے، ایک امید وار کے بارے میں تو لکھ دیا گیا ہے کہ وہ رائے ونڈ کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اب ان صاحب کی عزت کیا رہ گئی۔ مسئلہ آرمی چیف کے انتخاب کا ہے، جاتی عمرہ کے محلات کے سکیور یٹی چیف کا نہیں۔
مگرملکی اور غیرملکی میڈیا دنیا کی ایک بہترین دفاعی فوج اور اس کے سپہ سالار کی درگت بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔
ادھر میاں نواز شریف کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ وہ جنرل اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ، جنرل آصف نواز اور جنرل مشرف کا سلوک نہیں بھولے، اس لیئے وہ ایسا آرمی چیف لائیں گے جو ان کا ذاتی وفادار ہو مگر آئین میں آرمی چیف کے لئے ایسی کسی خوبی کا ذکر نہیں، کہنے کوتو چیف جسٹس کی بحالی کے لیئے میاں صاحب نے ہی آخری زور لگایا لیکن یہی چیف جسٹس اب ان کی حکومت کے عوام دشمن اقدامات کا از خود نوٹس لے رہے ہیں۔ تو کیا اگلا چیف جسٹس بھی وفاداری کے معیار پر پرکھا جائے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بیورو کریسی کو تودم ہلانے کی عادت سی ہوگئی ہے حکومت وقت کو ایک سے ایک بڑھ کر وفادار دستیاب ہے مگر شاید کوئی آرمی چیف اور چیف جسٹس آئندہ اس معیار کا نہ ملے۔ اب اس ملک میں کچھ روایات نئی بھی قائم ہو چکی ہیں، میں تو روزانہ ن لیگ کے تنخواہ یافتہ کالم نویسوں کو پہلے پڑھتا ہوں مگر ان میں سے کوئی بھی ان کا دل و جان سے دفاع کرتا نظرنہیں آتا۔ یا شاید انہیں بروقت اور حسب منشا تنخوانہیں ملتی۔
کارحکومت کوئی کارخانہ چلانے کے مترادف نہیں کہ بنکوں سے قرضہ لیا اور ہڑپ کر گئے۔ اور ملکی دفاع تو اس سے بھی بڑھ کر مشکل ہے۔ امریکہ جیسا ملک ہانپ گیا ہے، بھارت جیسی منی سپر پاور پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتی تو یقین مانو کہ یہ ایک انوکھا فن ہے۔ پاکستان کی سرحد پر بی آر بی نہر کس نے اور کیوں بنوائی اور لاہور کے بیچوں بیچ گزرنے والی نہر پردفاعی مور چیں کس نے تعمیرکیئے، شاید آج کے کئی جرنیلوں کو بھی یہ معلوم نہ ہو، اور سیاستدانوں میں تو چوسنی گروپ کی اکثریت ہے جو چوہڑ ہڑپال کے واقع کو بھی نہیں جانتے۔ اکثر سیاستدانوں کے بیوی بچے بیرون ملک ہیں، اسحاق ڈارعید لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ منائیں گے، وزیراعظم کے بیٹے لندن میں ہیں، زرداری کی اولاد باہر ہے عمران کی اولاد باہر ہے، الطاف حسین خود باہر بیٹھ کر سیاست کرتے ہیں، کیا ملک کے دفاع کرنے والوں کی فیملی بھی بیرون ملک مقیم ہے، اگر ہے تو ان سے سرحدوں کے دفاع کی امید عبث ہے۔ وہ کس کے لیے قربانی دیں گے۔ قربانی دی جاتی ہے ماں بہن بیٹی، بیٹے کی شکل ذہن میں لا کر حکمرانوں کی اولاد اور ان کا کاروبار اور بینک بیلنس باہر ہوتو انہیں غریب کی کٹیا کی فکر کیوں ہوگی، وہ تو چھوٹی سے چھوٹی سوزوکی کا رکا ئیکس جبری طور پر وصول کریں گے، ایک بلب جلانے والے کو ہزاروں کا بل بھیجیں گے۔
اعلان کیانی نے حکومت کے لیے سب راستے کشادہ کر دیئے ہیں۔ اب نئی فوجی تقرریوں کا مسئلہ آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ (8 اکتوبر 2013ء)