خبرنامہ

اعلان کیانی کے بعد

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اعلان کیانی کے بعد

افتراپرداز اب بھی باز نہیں آئے، وہ کیانی سے نجات چاہتے تھے، وہ مل گئی، ان کی خواہش تو تھی کہ اس مثالی سپاہ سالار کی عزت خاک میں ملائیں۔ وال اسٹریٹ جنرل کے مورچے میں بیٹھے سازشی صاف پہچانے جاتے ہیں۔ روگ آرمی کا اشتھار چھپاتھا تو ہرکسی کو پتاتھا کہ اس کے پیسے کس نے دیئے ہیں مگر اعلان کیانی نے کئی سازشوں اور سازشیوں کے آگے بند باندھ دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی عزت اور اپنے وقار کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
ویسے حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ انہیں قبل از وقت ریٹائر کر دے۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے مشاہد اللہ نے تو کہا ہے کہ کیانی کا اعلان کافی نہیں، اصل فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہے۔ مشاہد اللہ کسی روز ٹی وی پر چیف جسٹس کی ذات اور ان کے مستقبل پر اس طرح منہ کھول کر دکھائیں۔ دن میں تارے نہ نظر آجائیں تو میرا نام بدل دیں، ایک آری اور اس کا سربراہ ہی ایسے ہیں کہ ہر کوئی منہ اٹھا کر ان کی درگت بنانا شروع کر دیتا ہے۔ آئی ایس آئی کو امریکہ اور بھارت گلا پھاڑ کر گالیاں نکالتے ہیں اور ہم بھی اس قومی ادارے کو صلواتیں سنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
لگتا ہے حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے، وہ فوجی عہدوں کے امیدواروں کو تھکا تھکا کر ہلکان کرنا چاہتی ہے کوئی رائے ونڈ کے چکر لگاتار ہے، میڈیا الگ سے قیاس کے گھوڑے دوڑاتار ہے، وزیراعظم نے تو کہہ دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کا اعلان کروں گا۔ میاں نواز شریف کو صرف بارہ اکتوبر ننانوے کوہی جلدی تھی، اس دن ان کی ذات کا مسئلہ تھا، اب کہتے ہیں کہ ملکی مفاد کا مسئلہ ہے۔ اورملکی مفاد کے بارے میں ہر کسی کوعلم ہے کہ اسوقت ملک کا کوئی مفادنہیں، نہ کسی کو پتا ہے کہ لڑنا ہے تو کس سے لڑنا ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں تو کس سے کرنے ہیں۔ وار آن ٹیررامریکہ کی جنگ ہے یا ہماری جنگ ہے، ڈرون حملے دہشت گردی کا سبب ہیں یا دہشت گردوں کو ڈرون حملوں میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے، ڈرون حملوں پر پچھلی حکومتوں کی تقلید میں خالی خولی احتجاج کرنا ہے یا انہیں مار گرانے کا حکم بھی دینا ہے، بھارت ہمارا دوست ہے یا دشمن ملکی پالیسی عجب چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم ایک مخمصے کا شکار ہیں، ہماری سمت واضح نہیں، ہم اپنی ترجیحات نہیں جانتے۔
ملک اگر وزیردفاع کے بغیر چل سکتا ہے، وزیرخارجہ کے بغیر چل سکتا ہے۔ بلوچستان کا صوبہ کی کابینہ کے بغیر چل سکتا ہے، پنجاب کا نظام حمزہ میاں چلا سکتے ہیں۔ واشنگٹن اور لندن میں سفیروں کے بغیر کام چل رہا ہے اور پتانہیں کتنے سرکاری محکموں کو سیکرٹری میسرنہیں کتنے ہسپتالوں میں ڈاکٹرنہیں، کتنے اسکولوں میں ٹیچر نہیں تو فوج بھی کچھ دیر آرمی چیف یا جائنٹ چیف کے بغیر گزارا کرے۔ کسی نے فون پر پوچھا ہے، کیا صرف فوج کے افسرہی ایکسٹینشن لیتے ہیں۔ لاہور کی پریس کلب کے سامنے ایک پبلک سروس کمیشن ہے، اس میں کتنے ہی اعلی سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد مزید تین برس کے لیئے تعینات کر دیئے جاتے ہیں، عبدالرؤف صاحب ابھی وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں انہیں نیب کے لیئے تریاق خیال کیا جاتا ہے، کیانی پر بات کرتے ہوئے تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ افراد نہیں، ادارے ناگزیر ہیں تو کسی ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو ناگزیر کیوں خیال کیا جاتا ہے، اگر حاضر سروس افسروں میں سے کوئی نیب نہیں چلاسکتا تو ان سب کو گھر بھجوادینا چاہئے۔ کیانی کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو بار توسیع لے چکے تو صاحب! نواز شریف کو تیسری مرتبہ لانے کیلئے آئین میں ترمیم کیوں کی گئی، ایسی ترمیم فوج کے سربراہ کے لیے بھی کر لی جائے۔ اگر حکومت کے لئے کوئی ایک فرد ناگزیر ہو سکتا ہے تو ملکی دفاع کے لیے ایک جرنیل کیوں نہیں۔ ویسے اس نے اس امکان کو سرے سے مسترد کر دیا ہے، وہ کہتا ہے وقت پر ریٹائر ہو جاؤں گا کوئی اور عہدہ بھی نہیں لوں گا، آپ تو سجدہ شکر ادا کریں کہ رستہ صاف ہو گیا، اب کوئی مرضی کا آرمی چیف لے آئیں یا ننانوے والے چند گھنٹوں کے لیئے چیف، جنرل ضیا الدین بٹ کو پھر سے عہدہ دے دیں، اس طرح صدر تارڑ کی بحالی کا رستہ بھی نکل آئے گا، عدلیہ نے بعض فیصلوں میں وائڈے ایب اینشیوکی اصطلاح استعمال کی ہے۔ حکومت بھی کہہ دے کہ مشرف کو ہٹا دیا گیا تھا، بارہ اکتوبر کے بعد اس کے دور کو وائڈے ایب اینشیو سمجھاجائے اور کھیل وہیں سے شروع کیا جائے جہاں بارہ اکتوبر کو معطل ہوا تھا مطیع اللہ جان نے دو قسطوں میں اس روز کا ٹی وی کا نقشہ کھینچا ہے لگتا ہے کسی بنانا ری پبلک کی کہانی ہے یا گھر میں سوتنوں کی لڑائی مار کٹائی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وزیراعظم کے لیئے نئے فوجی عہدوں کے اعلان کے لیے مناسب دن بارہ اکتوبر ہے اور یہ زیادہ دور نہیں، اس روز وہ ٹی وی پرعین پانچ بجے ایک تقریر فرمائیں، ماضی کے فوجی جرنیلوں کو جی بھر کے کوسیں اور نئے فوجی ماتحتوں کا اعلان کر یں۔ اس طرح ان کے جذبات کو کچھ تو آسودگی میسر آ سکے گی۔ انگریزی میں اسے کتھارسس کہتے ہیں۔
بارہ اکتوبر کو جمہوریت کی تجدید کے طور پر منایا جائے۔
مگر میں نے فوجی ماتحت کی اصطلاح غلط طور پر استعمال کی ہے۔ کیا سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر کسی وزیر اعلی کے ماتحت ہوتے ہیں، کیا وزیراعلی ان کو حکم دے سکتے ہیں کہ وہ ایمرجنسی میں مریضوں کو چیک نہ کیا کریں، آپریشن بند کر دیں، کیا اسکول ٹیچروں کو حکومت کہہ سکتی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھانے نہ آئیں، ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو یقین جانیئے کہ آرمی چیف بھی کسی وزیراعظم کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ کنٹرول لائن پر مورچے میں بیٹھا ہوا عام فوجی بھی اپنے کسی افسر کاماتحت نہیں ہوتا، اس پر بھارتی فوج ایک گولی چلائے گی تو وہ افسران بالا کی اجازت کامحتاج نہیں، اسے اختیار ہے کہ اپنے دفاع میں دس گولیاں چلائے۔ مگر ہم نے کچھ عرصے سے اپنی فوج اور اس کے چیف کو ایک کلرک سے زیادہ بے اختیار بنادیا ہے، امریکہ ایبٹ آباد پر حملہ کرتا ہے، ہم آرمی چیف کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا حکم دیتے ہیں، آرمی چیف کے بچے سلالہ میں امریکی فوج ذبح کردیتی ہے، ہم اپنے آرمی چیف کوتحمل سے کام لینے کاحکم دیتے ہیں۔ آرمی چیف کی آنکھوں کے سامنے قوم ہر روز ذبح ہوتی ہے مگر ہم اسے اے پی سی کا جرگہ بلا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ امن کو ایک موقع دیا جائے۔ اس حال میں کون ہے جو آرمی چیف کی کرسی سے چمٹے رہنے کو ترجیح دے گا، کیانی نے غیرت کا شاہنامہ رقم کر دیا ہے۔(9 اکتوبر 2013ء)