خبرنامہ

افسر شاہی پر تبادلوں کا کلہاڑا….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

افسر شاہی پر تبادلوں کا کلہاڑا

بچہ سقہ کو ایک دن کی حکومت ملی توا س نے چام کے دام چلادیئے۔موجودہ نگرانوں کو آٹھ جمعے کی حکومت ملی ہے تو اس نے افسر شاہی پر تبادلوں کا کلہاڑا چلا دیا ہے،ہر روز نئی لسٹیں نکلتی ہیں اور وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے، جس جاننے والے افسر کو فون کرو پتہ چلتا ہے کہ ا سے وہاں سے چلتا کر دیا گیا ، یہ تو غدر مچا ہوا ہے۔یا حشر برپا ہے ، حکومت میں جو نیا نیا آتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں کونوازے۔ ٹکا خان گورنر بنا تو اس نے اپنے بیٹے کو اے ڈی سی بنا لیا۔ میاں اظہر گورنر لگا تو اس نے اپنا ایک کلاس فیلو سیکرٹری بنا لیا۔ وہ حکومت چلانے کے لئے مشورے ایک کرشن نگری دوست سے لیا کرتا تھا، اسی کی شہہ پر ا سنے ڈاکٹر منیرالدین چغتائی کو توسیع دینے سے انکار کر دیا تھا اور ایک شریف النفس وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کی طرف سے بھیجی ہوئی فائل رعونت سے زمین پر دے ماری تھی۔
نگران وزیر اعظم کے ایک قریبی عزیز سے میری ملاقات عید پر ہوئی تو میںنے ان سے ایک بات کی تھی کہ وہ اپنے رشتے دار وزیر اعظم کو تبادلوں سے گریز کی نصیحت کریں اسلئے کہ تبادلے شفاف الیکشن کی کوئی ضمانت نہیں ہوتے، صرف افسروں اور ان کے اہل و عیال کو پریشان کرنے کے لئے ہیں، شفاف الیکشن کے لئے تو نواز شریف کو باہر کیا گیا، پھر اس کے جانشین وزیر اعظم عباسی کو الیکشن سے باہر کر دیا گیا، ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ دانیال عزیز کی چھٹی کرا دی گئی ہے۔ نا اہلی کی تلوار ہے کہ کند ہونے میںنہیں آتی۔ الیکشن کمیشن یا کسی ٹربیونل کا بس چلے تو مریم نواز کو اس بنا پر نااہل کر دے کہ وہ مسلسل بے ہوش ماں کی وجہ سے الیکشن مہم چلانے سے قاصر ہیں۔ ن لیگ کا صفایا کرنے میں صرف شہباز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کرنا باقی ہے۔ جبکہ عمران خاں کوپانچ حلقوں میں ہر اعتراض سے بری کر کے اہل قرار دے دیا گیا، یہی تو شفاف الیکشن ہے اور اب الیکشن اس قدر شفاف ہے کہ اس کا نتیجہ ہر ایک کونظر آ رہا ہے۔ ہارون الرشید ہمارے بھولے بھالے بھائی ہیں برسوں پہلے انہوں نے پہلا قدم بنی گالہ کے محل میں رکھا تھا تو بے ساختہ پکار اٹھے تھے کہ یہ محل تو کسی وزیر اعظم کے شایان شان ہے، ہارون الرشید کو پتہ نہیں تھا کہ وہ لمحہ قبولیت دعا کا تھا۔ بے چاری جمائما گولڈ اسمتھ یونہی مایوسی کا شکار ہو کر پیکے چلی گئیں۔پاک پتن والی نے شبھ گھڑی کا انتظار کیا اور خوش ہیں کہ خاتون اول بننے والی ہیں۔شاید ان کی خواہش پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے۔اگر کوئی رکاوٹ ہے تو افسر شاہی کی وسیع پیمانے پرا دھیڑ بن سے
پوری کی جا رہی ہے، ایک بار اس قدر تبادلے معین قریشی نے کئے تھے۔ وہ نگران وزیر اعظم بننے کے لئے امریکہ سے آئے تھے۔ پاکستان پہنچنے تک ان کے پاس اس ملک کا شناختی کارڈ تک نہ تھا جس پر حکومت کرنے کے لئے درا ٓمد کئے گئے تھے۔ افسر شاہی کو پتہ ہوتا ہے کہ تبادلوں کی گڑ بڑیشن عارضی نوعیت کی ہے اور جیسے ہی منتخب حکومت آئے گی وہ تگڑم لڑائیں گے اورواپس اچھی پوسٹوں پر قابض ہو جائیں گے، ایک پنتھ دو کاج کے مترادف انہیں دو ماہ کے اندر دو مرتبہ بھاری ٹی اے ڈی اے ملتا تھا۔اس دوران ان کی لاہور یاا سلام ا ٓباد یا کراچی کی سرکاری رہائش گاہیں ان کے تصرف میں قانونی طور پر رہتی تھیں۔
مگر تبادلوں سے تاثر یہ دینامقصود ہوتا ہے کہ زیر عتاب ا ٓنے والا افسر خدا نخوستہ بد دیانت تھا، شفاف الیکشن کی راہ میں رکاوٹ تھا اور کسی نہ کسی کا لے پالک تھا اور کسی کے لئے جانبدار تھا۔ یہ کسی اعلی افسر کے کردار پر بدترین دھبہ لگانے کے مترادف ہے، افسر شاہی ایک ہی امتحان پاس کرتی ہے، اس کی تربیت انگریز کر گئے تھے کہ اسے حکمرانوں کی فرمانبرداری کرنی ہے مگر پاکستان جیسا ملک جہاں آج تک حکومتی استحکام نہیں آ سکا ، وہاں اگر ملکی ترقی کا عمل مسلسل جاری ہے تو اس کے لئے میں تو اپنی افسر شاہی کو سلام کروں گا کیونکہ اس کو ہمیشہ استحکام نصیب ہوتا ہے۔ چند افسروں کے ادھر ادھر ہو جانے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہر محکمے کا ایس او پی طے شدہ ہے اور ہر افسر کو اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔
میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر اعلی پنجاب جس عمر کو پہنچ چکے ہیں ، انہیں افسر شاہی کے بارے میں کیا خبر ، ان کے جو شاگرد تھے وہ بھی ریٹائرہو چکے ۔ان کا ایک ہی رشتے دار تھا انہیں وزیر بنا لیا، مگر نگران وزیر اعظم تو عدلیہ سے ا ٓئے، انہیں تھانے داروں کے بارے میں کیا خبر کہ کون اچھا ہے ،کون برا، عمران خان کہتا ہے پشاور پولیس کو بدل دیا ۔ مجھے تو چند ماہ قبل لاہور کے ایک تھانے جانے کاا تفاق ہوا، میرا استقبال ایس ایچ او نے گیٹ پر کیا اور پھر مجھ سے میری دو کتابیں بھی تحفے میںمانگیں، اب میںانہیں ڈھونڈتا پھرتا ہوں، ان کی کوئی خبر نہیں ، میں اپنی کتابیں کہاںپہنچائوں،میرا خیال ہے کہ وزیر اعلی کے دفتر بھجوائے دیتا ہوں ، شاید وہاں پوسٹنگ ٹرانسفر کے کاغذات کے ملبے میںسے اسے تلاش کیا جا سکے اور یہ امانت ان تک پہنچ جائے۔
کیا نگرانوںکو افسر شاہی سے کوئی عداوت ہے یا کوئی چڑ ہے یا خدا واسطے کا کوئی بیریا وہ زندگی بھر کے بدلے اتار رہے ہیں،افسر شاہی کی وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ اصل میں بد حکومتی یعنی بیڈ گورننس کی نشانی ہے۔ جسے فن حکومت کی ابجد نہیں آتی، وہ حکمران بنا دیا جاتا ہے، انہیںکون حکومت میں لاتا ہے ۔ کسی کو نہیںمعلوم۔ مگر میں ایک بریکنگ نیوز بتائے دیتا ہوں کہ نگران وزیر اعظم کے لئے تین نام گردش کر رہے تھے ،ناصر الملک، سیلم عباس جیلانی اور تصدق جیلانی، یہ تین نہیں ایک ہی نام تھا کہ ان کا خاندان ایک ہی ہے،ایسا خوش قسمت خاندان اور کس ملک میں ملے گا کہ تین پرچیوں میں سے جو پرچی اٹھائو ، قرعہ اسی خاندان کے نام کا نکلے گا۔ امریکہ میںبش خاندان خوش قسمت تھا، کلنٹن خاندان خوش قسمت نہیں نکلا ، کنیڈی خاندان تو انتہائی بد قسمت ثابت ہوا۔بھارت میں نہرو خاندان بھی بد قسمتی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ہمارے ہاں بھٹو خاندان کو بھی کسی کی نظر بد لگ گئی۔ بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ شاہ نواز کوزہر دے دیا گیا۔ مرتضی کو کراچی کی بھری پری شاہراہ پر شہید کر دیا گیا اور محترمہ بے نظیر کو بھی شہید کر کے سیاست اور حکومت ہی سے نہیں اس دنیا ہی سے باہر کر دیا گیا،اب جو کچھ بچا ہے وہ زرداری کا خاندان ہے۔باقی رہے نام اللہ کا۔
شیئر کریں: