خبرنامہ

افغان بھارت گٹھ جوڑ۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔۔انداز جہاں

یہ کوئی راز کی بات نہیں ۔بھارت ا ور افغانستان کا قارورہ شروع دن سے ملا ہوا ہے۔
اب کچھ عرصے سے ایک نیا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ کبھی بھارت کی طرف سے پاکستانی فوج کو الجھائے رکھنے کی مہم جوئی کاآغاز ہو جاتا ہے اور کبھی افغان فورسز ،پاکسیانی فورسز پر دھاوا بول دیتی ہیں۔
پچھلے ایک ہفتے میں بھارت ا ور افغان فوج نے جیسے ایکا کر لیا ،ایک طرف سے کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف جو پہلے کبھی نہیں ہوا، افغان فورسز نے یلغار شروع کر دی ہے اور چمن بارڈر اس وقت جہنم کامنظر نامہ ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا پاکستان پر دباؤ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اتار پھینکے ، توا سوقت پاک فوج کو دوطرفہ سرحد پر جنگ کی صورت حال درپیش ہے، اب پاک فوج کی تعداداور استعداد وہی ہے جہ پہلے تھی،، یہ یا تو مشرقی سرحد پر بھارت سے دفاع کر سکتی ہے، یا پھر مغربی سرحد پر افغان فورسز کے ساتھ لڑ بھڑ سکتی بہے، افغان فورسز کے پیچھے امریکی فوج بھی موجود ہے ا ور نیٹو کی افواج بھی موجود ہیں جن میں ہمارے بہترین اور قابل فخر دوست ملک ترکی کی فوج بھی شامل ہے۔ کہاں ہیں وہ دانشورجو پاکستان کوسعودی کمان کا حصہ بننے کی مخالفت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور کہاں ترکی جیسا مسلم تشخص کا علم بردار دوست ملک پاکستان کے خلاف افغانستان میں صف آرا ہے۔ کبھی کسی نے ترکی سے نہیں پوچھا کہ وہ پاکستان کو ایک طرف میٹرو دے رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ سے مل کر پاکستان کو دفاعی لحاظ سے خطرات میں مبتلا کرر ہا ہے۔پاکستان اگرچہ ایٹمی میزائلوں سے لیس ہے مگر یہ امریکہ ، نیٹو اور افغان فورسز کی اجتماعی قوت کے مقابلے میں دفاع کے قابل نہیں، اوپر سے بھارت نے بھی پھرپور ہلہ بول رکھا ہے اور پھر ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کے اندر بھی انہی قوتوں کے پروردہ ا ور تربیت یافتہ دہشت گرد دندنا رہے ہیں۔ ا س سارے گٹھ جوڑ کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کی دفاعی کمر توڑ دی جائے،ا سکے ایٹمی دانت نکال دیئے جائیں اور اس کی ترقی ا ور خوش حالی کے سفرمیں جا بجا رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں۔
ایک طرفہ تماشہ یہ ہے کہ بھارت کی ساری شیطنت کے باوجود اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والی کوئی قوت پاکستان میں موجود نہیں، ایک حافظ سعید بھارت کو للکارسکتے تھے، انہیں ہم نے نظر بند کر دیا ہے۔ افغانستان کیخلاف احتجاجی جلوس نکالنے کے لئے کوئی سیاسی اور مذہبی قوت تیار نہیں۔ اسفند ولی اور اچکزئی وونوں افغانوں کو کھلی چھٹی دینے کے حق میں ہیں اور بڑی حد تک پاکستان پر افغانستان کا حق بھی جتلاتے ہیں پاکستان پچھلے تیس برس سے لاکھوں افغان مہاجرین کا پیٹ پال رہا ہے، ان افغانیوں نے ہمارے شناختی کارڈ بنو الئے ہیں ،یہیں شادیاں رچا لی ہیں اپنا ور کاروبار جمکا لیے ہیں اور اب وہ فرزند زمین بن بیٹھے ہیں ۔ا نکی طرف کوئی بھی میلی آ نکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔بھارت کے لئے نرم گوشہ ہمارے کئی طبقات میں موجود ہے جن میں ہمارے تاجر سر فہرست ہیں ، وہ صرف منافع کمانا چاہتے ہیں، انہیں پاکستان کے مفادات سے کچھ غرض نہیں۔
جب تک جنرل راحیل کمانڈرا نچیف رہے، بھارتی فورسز نے انہیں سکون کا سانس نہیں لینے دیا، کنٹرول لائن اور سیالکوٹ نارووال، شکر گڑھ میں پاکستان کی عالمی سرحد کی خلاف ورزی دن رات کا معمول تھا۔ نئے آرمی چیف جنرل باجوہ کو چند ماہ ہی ٹک کر کام کرنے دیا گیا، مگر اب بھارت نے بھی جنرل باجوہ پر دباؤ بڑھا دیا، اب تو وہی الزامات، وہی طعنے، وہی بلیم گیم جو بھارت کا ہمیشہ سے وطیرہ چلی آ رہی ہے۔کنٹرول لائن اور پاک سرحد پر ہمارے شہریوں پر ورازانہ کی گولہ باری، ہم روزانہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے ہیں، روزانہ شہیدوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔اس قدر قتل عام کرنے والے سفاک دشمن کے خلاف پاکستان میں کہیں سے صدائے ا حتجاج بلند نہیں ہوتی، سارا بوجھ سرحد پر متعین پاک فوج پر آن پڑا ہے، وہ زخم سہیں ، یا سفید جھنڈا لہرا کر کمانڈرز میٹنگ کی بھیک مانگیں ، ایسی میٹنگ ہو بھی جائے تو اگلے لمحے سے وہی جارحیت پھر سے شروع۔
پاکستان میں اگر کسی کا ضمیر جاگ رہا ہے اورا سمیں حب الوطنی کی ذرا سی رمق بھی باقی ہے تو اسے بھارت ا ور افغانستان کے خلاف بھر پور انداز سے صدائے احتجاج تو بلند کرنی چاہئے ،ہماری وزارت خارجہ کو رسمی ا حتجاج سے آگے بڑھ کر دونوں ہمسایوں کی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل سے رجوع کرنا چاہئے۔ ہمارے میٖڈیا کو اپنے عوام کا شعور بیدا کرنا چاہئے کہ وہ بھارت ا ور افغانستان کے گٹھ جوڑ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ کوئی بھارتی میڈیا کو دیکھے، افغان میڈیا کو دیکھے ،دونوں پاکستان کے خون کے پیاسے ہیں ۔ یہ بھول کر بھی پاکستان کے لئے کوئی حرف تسلی اپنے ہونٹوں پر یا نوک قلم پر نہیں لاتے۔
بھارت کے ہیرو راجہ داہر ہیں،اشوکا ہیں،چندر گپتا ہیں ، رانا سانگا ہیں، پرتھوی راج ہیں۔ابدالی، غزنوی ، غوری کو افغان ا پنا ہیروسمجھتے ہیں، یہی ہمارے بھی ہیرو ہیں ، ہمارے ہاں داہر کو بھی ہیرو ماننے والے ہیں،، بھارت بھی لشکر طیبہ اور حادظ سعید کو گالیاں دیتا ہے، ہم بھی ان سے عناد کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہیں۔حقانی کو افغا نستان اور امریکہ مورد الزام ٹھہراتے ہیں ، ہمارے لوگ بھی ان کو نشانہ باننے میں پیچھے نہیں ہیں۔ در اصل ہم قومی شناخت کھو چکے ، اپنے آپ کو پاکستانی نہیں سمجھتے، پاکستان سے مفادات تو نچوڑتے ہیں مگر گن غیروں کے گاتے ہیں ۔کشمیر میں روزانہ نوجوانوں پر گولیاں برسا ئی جاتی ہیں۔ کشمیری حریت پسند لیڈرز جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں ، ہم ان کے حق میں آاز بلند کرنے کو شاید کوئی گناہ سمجھتے ہیں ، ہم یا تو بھارت سے خائف ہیں، یا اس کے پٹھو اور طرفدار ہیں کہ اس کے مظالم پر اپنی زبان تک نہیں کھولتے، اپنی افواج کو اس کے خلاف ایکشن کا حکم نہیں دیتے۔ کشمیری نہتے مارے جا رہے ہیں، اب افغان سرحد پر ہمارے شہری کابل حکومت کے نشانے پر ہیں۔ ایک دم افغانستان کیوں بپھر گیا ہے،ا سکی وجہ سمجھنا مشکل کام نہیں ، یہ وہی افغان بھارت گٹھ جوڑ ہے جس کا مظاہرہ قائد اعظم کے ہوتے ہوئے کیا گیا اور جو آج اپنے کلایمیکس پر پہنچ چکا ہے۔ہمیں قومی اتفاق رائے سے اس کا مقابلہ کرنا ہو گا، ورنہ خدا نخواستہ ہم نقصان اٹھا ئیں گے بلکہ اٹھا رہے ہیں۔