خبرنامہ

الطاف حسن قریشی کی ملا قاتیں کیا کیا۔۔اسداللہ غالب

یہ ایک دبستان صحافت کی داستان ہے جس کا ایک باب میں آج رقم کرنے چلاہوں مگربے حد اختصار کے ساتھ ۔میں خود اس کا ایک ا دنی حصہ رہا۔
روزنامہ صحافت میں نوائے وقت کے حمید نظامی اور مجید نظامی کی گرد کو کوئی نہیں پہنچ سکتا مگر ماہنامہ صحافت میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ا ور الطاف حسن قریشی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ نوائے وقت نے ایک نظریہ دیا، پاکستان سے محبت کو عام کیا ، کشمیر سے لگاؤ گہرا کیا اور بھارت کی بالادستی کے خلاف جذباتی فضا پیدا کی۔اردو ڈائجسٹ نے مطالعے کا شوق عام کیا، حالات حاضرہ سے آگاہی کا شوق بیدا ر کیا، مہم جوئی کو کرادر کا حصہ بنایا۔
میرے ذہن میں یہ سارے خیالات اس لئے آ رہے ہیں کہ ان دنوں میں الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز پر مبنی کتاب۔۔ملاقاتیں کیا کیا۔۔۔کا مطالعہ کر رہا ہوں۔یہ انٹرویوز ایک الگ ڈھب کے ہیں، صرف سوال جواب ہی نہیں ، ماحول کی نقاشی اور عکاسی بھی اور ساتھ ساتھ رننگ کمنٹری بھی ، الطاف صاحب کے قلم کے کان ہوا کے جھونکوں کی سرسراہٹ بھی سن سکتے ہیں۔اور انٹرویو دینے والے کے دل کی دھڑکنوں اور ذہن میں سوچ کی ہلکی سی لہر سے بھی باخبر رہتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب میں جن شخصیات سے ملاقاتوں کاا حوال شامل ہے ان میں سر فہرست شاہ فیصل شہید ہیں۔یہ ایک ایسی ہستی ہیں جنہیں پبلسٹی کی بھوک نہیں تھی اور جن سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔کچھ شخصیتیں ایسی ہیں جن کا تعلق سیاسی گلیمر کی دنیا سے ہے، جیسے شیخ مجیب، بھٹو، ضیاالحق، جسٹس حمودالرحمن۔ ان میں اہل علم اور اسکالرز بھی شامل ہیں جیسے غلام رسول مہر ، مولانامودودی، حمید احمدخان، ڈاکٹرسید عبداللہ، ظفر احمد انصاری، اے کے بروہی، جسٹس کارنیلیس،کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تاریخ پراثر انداز ہوئے ، ان میں مولوی تمیز الدین کا نام شامل کیا جاسکتا ہے۔قدرت اللہ شہاب ، ایئر مارشل ا صغر خان اور چودھری محمد علی بھی اسی فہرست میں آئیں گے۔
انٹرویوز کے حوالے سے الطاف صاحب کا موازنہ کس سے کیا جاسکتاہے، شاید کسی سے نہیں، ان کاا پنا خاص ا سلوب ہے،بات چیت کے ساتھ ساتھ وہ پورا ماحول کینوس پر منتقل کر دیتے ہیں ، برش سے نہیں بلکہ موئے قلم سے۔بسااوقات محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پرواز تخیل اصل بات چیت سے کوسوں آگے نکل گئی ہے ۔
اوریانا فلاسی کے انٹرویوز کی اپنی ایک دھاک ہے۔اورا س میدان میں اس کا بھی کوئی ثانی نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا انٹرویو محض طوالت کا نام ہے، میراجواب ہے ، نہیں،میں نے بعض انگریزی جریدوں میں ایک ایک صفحے کے انٹرویوز دیکھے ہیں جو بلاغت کے اعتبار سے بے مثل ہیں، یوں لگتا ہے کہ واقعی دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔سوال شاید آدھی سطر کا اور جواب صرف ڈیڑھ سطر کا۔ ٹی وی انٹرویوز میں سی این این پر طویل عرصے تک لیری کنگ نے انٹرویز کئے، وہ خود کم بولتے تھے مگر مختصر سا سوال کر کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو مجبور کر دیتے تھے کہ وہ کئی کئی منٹ بولتا رہے۔اس انٹرویو کی ایک خاصیت یہ تھی کہ دنیا کی عظیم ہستیاں اسے انٹرویودینے کے لئے مشتاق اوربے تاب رہتی تھیں، مجھے معلوم ہے کہ ایک زمانے میں الطاف حسن قریشی صاحب کی طلب بھی اسی طرح کی تھی۔
بسا اوقات انٹرویو کرنے کا شوق نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے، ا قتدار سنبھالنے کے بعد ادھرضیا الحق کا پہلا انٹرویو شائع ہوا ، ادھر الطاف صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا۔بھٹو کے انٹرویو کے بعد بھی الطاف صاحب کو جیلوں کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا، یہ دور اس بھٹو کا تھاجب وہ سول مارشل لاا یڈمنسٹریٹر کی کرسی پر براجمان تھا،ا سوقت ایک میجر نے ٹائپ شدہ فیصلہ سنایا تھا، آج فوجی عدالتوں کے فیصلے چیلنج ہو رہے ہیں ۔ یہ آزادیوں کا دور ہے ، وہ بزعم خویش جمہوریت کے چیمپیئن کا دور تھا، میں نے ایک انٹریو نوابزادہ نصراللہ خان کا کیا۔ یہ ضیاالحق کے مارشل لا کا دور تھا اور نوابزادہ اپنے گھر خان گڑھ میں قیدو بند میں مبتلا تھے، مجھ پر جیل توڑنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔مگر بات اس سے آگے نہ بڑھی۔
الطاف حسن قریشی کو دائیں بازو میں شمار کیا جاتا ہے مگر جو شخص بھٹو اور شیخ مجیب کے انٹرویز بھی کرے، اسے تو غیر جانبدار سمجھنا چاہئے۔
میں نہیں جانتا کہ ہماری یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت میں انٹرویو نگاری کی تربیت کیسے دی جاتی ہے ، مگر جو نوجوان عملی صحافت سے وابستہ ہیں، انہیں الطاف حسبن قریشی کی یہ کتاب ۔۔ملاقاتیں کیا کیا۔۔ ضرور پڑھنی چاہئے۔یہ کتاب انٹرویو کے فن کی باریکوں سے آشنا کرتی ہے ۔ انٹرویو کے لئے شخصیت کا انتخاب، سوالوں کی ترتیب اور پھر اسے جامہ تحریر پہنانے کی ساری گتھیاں اس کتاب کی مددسے سلجھائی جا سکتی ہیں۔
الطاف صاحب کا اسلوب تحریر بھی جدا گانہ ہے، میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ ابوالکلام کی نثر ہے مگرا س سے کم بھی نہیں۔تحریر کا خاصہ ہے کہ یہ قاری کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے ۔اور آپ پورا انٹرویو پڑھے بغیر کتاب بند نہیں کر سکتے۔ تاریخ ا ور سیاسیات کے طالب علموں کو ماضی قریب کے احوال جاننے میں بھی یہ کتاب بڑی حد تک مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔الطاف صاحب کے اسلوب نگارش میں رومانویت کا چھڑکاؤ بھی موجود ہے۔مجھے ہمایوں ا ور مخزن کا دور یاد آتاہے، پتہ نہیں اس زمانے کے لوگ رومان کی دنیا میں کیا حظ اٹھاتے تھے، شاید انگریز کی غلامی سے یہ ذہنی فرا رکی ایک کوشش تھی۔
ناول نویسی میں جو مقام نسیم حجازی کا ہے، میں صحافت میں یہ مقام الطاف حسن قریشی کو دیتا ہوں۔نسیم حجازی نے اپنے قاری کو عہد رفتہ کی باز یافت کا درس دیا، الطاف حسن قریشی نے اپنے قاری کو مستقبل پر گرفت مضبوط کرنے کا درس دیا۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر ڈاکٹرا عجاز حسن قریشی نہ ہوتے تو کیا الطاف حسن قریشی کبھی پروان چڑھ سکتے تھے۔حمید نظامی اور مجید نظامی کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے، ایک بھائی نے دوسرے بھائی کے لئے نظریاتی راہیں روشن کیں۔علی برادران کا قصہ بھی ایسا ہی ہے، اب نواز شریف ا ور شہباز شریف کا سیاست میں یہی کردار ہے۔ہم سیاست میں موروثیت کے قائل نہیں، اقربا پروری کو بھی برا خیال کیا جاتا ہے مگر علم و ادب میں یہ ایک خوبی تصور کی جاتی ہے۔موروثی سیاست میں کوئی دوسرا نہیں پنپ سکتا مگر علم و ادب کے شجر ہائے سایہ دار کے نیچے گنج ہائے گرانمایہ پروان چڑھتے ہیں۔ملاقاتیں کیا کیا، ا سکی ایک بہترین مثال ہے۔