خبرنامہ

اللہ اکبر تحریک ۔الیکشن تجزیوں کا سلسلہ….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اللہ اکبر تحریک ۔الیکشن تجزیوں کا سلسلہ….اسد اللہ غالب

آپ نے اس پارٹی کا نام بہت کم سنا ہوگا مگر یہ پارٹی انتہائی سنجیدگی سے الیکشن میں کودی ہے۔
تحریک اللہ اکبر حالیہ انتخابات کے لئے کل265 امیدوار کھڑے کر رہی ہے۔ ان میں سے قومی اسمبلی کے لئے 79سیٹوں اور صوبائی اسمبلی کے لئے 186امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان میں سے پنجاب سے قومی اسمبلی سے 54اور صوبائی اسمبلی کیلئے 125 امیدوار کھڑے کئے گئے ہیں۔اسی طرح سندھ میں قومی اسمبلی کیلئے 11اور صوبائی کے لئے 38امیدوار کھڑے کئے ہیں۔کے پی کے سے قومی اسمبلی کے لئے 9اور صوبائی کے لئے 16امیدوار جبکہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کیلئے 4اور صوبائی اسمبلی کیلئے 10امیدوار کھڑے کئے ہیں۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک نے ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے، نامزد امیدواروں میں ڈاکٹرز، انجینئر، ایڈووکیٹ، دینی سکالر اور حافظ قرآن شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 242 اور این اے 243 سے امیدوار مزمل اقبال ہاشمی ایم ایس سی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ این اے 244 سے امیدوار مدثر اقبال چوہدری ایل ایل ایم کرچکے ہیں اور ہائی کورٹ میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ این اے 250 سے امیدوار میاں عطاء اللہ ظہیر ایم اے کرچکے ہیں اور اسکول کے پرنسپل ہیں۔ این اے 251 سے خاتون امیدوار اقراء مزمل بھی ایم اے ہیں۔ اسی طرح سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 103 سے امیدوار عبید خلیل ایسوسی ایٹ انجینئر ہیں۔ایم بی بی ایس ڈاکٹرز بھی اس پارٹی کے امیدوار ہیں ان میں این اے85میں ڈاکٹر یاسر صدیقی،ننکانہ این اے 117 ڈاکٹر ہارون اشفاق،این اے 122 شیخوپورہ سے ڈاکٹر عتیق،پی پی115فیصل آباد سے ڈاکٹر جاوید اقبال،پی پی113سے ڈاکٹر ظفر چیمہ شامل ہیں۔این اے125 سے محمد یعقوب شیخ نے ایم اے کیا ہوا ہے،وہ کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب سے بھی فارغ التحصیل ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔پی پی157سے حافظ شعیب شیرانی، عالم دین ہیں۔ پی پی167سے حافظ خالد ولید حافظ قرآن ہیں۔ اللہ اکبر تحریک کے نامزد امیدواروں میں وکلاکی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ جن وکلاکو مختلف حلقوں سے ٹکٹ دیئے گئے ان میں پی پی 133 عبداللہ رفیق ایڈووکیٹ ننکانہ، این اے 146 پاکپتن، احمد ذیشان ایڈووکیٹ، پی پی172 قصور،ابوبکر ایڈووکیٹ، پی پی 148 نور نعیم خان ایڈووکیٹ، پی پی242چوہدری فاروق ایڈووکیٹ، این اے244مدثر چوہدری ایڈووکیٹ،این اے161 چوہدری وسیم ایڈووکیٹ اور پی پی180سے چوہدری ابوبکر ایڈووکیٹ شامل ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے 14 اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی تجربہ کار خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جن میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی سابقہ سرگرم عہدیداران بھی شامل ہیں۔
ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے جو خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ان میں این اے 251 سے اقراء مزمل، این اے 107سے رابعہ مختار، این اے 161سے عفت طاہرہ سومرو ایڈووکیٹ، این اے 181 سے بے نظیر فاطمہ قریشی جبکہ پی پی 14سے شازیہ سعید، پی پی 83سے شازیہ کوثر، پی پی 149سے مسز جھارا پہلوان سائرہ بانو، پی پی 151سے سیدہ طاہرہ شیرازی، پی پی 229سے بیگم عابدہ نذیر، پی ایس 74سے ڈاکٹر صنم لغاری شامل ہیں۔ اسی طرح پنجاب سے مخصوص نشستوں پر حمیرا نوشین اورفرحت نعیم جبکہ اقلیتی نشست پر سموئیل مسیح امیدوار ہیں۔ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لینے والی یہ سبھی خواتین بہت پڑھی لکھی اور سیاسی بیک گرائونڈ رکھنے والی ہیں۔ این اے 161سے امیدوار عفت طاہرہ سومرو ایڈووکیٹ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی بانی اراکین میں شامل ہیں اور تحریک انصاف خواتین ونگ لودھراں کی سابق صدر ہیں۔ عفت طاہرہ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے سیاسیات اور وکالت کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ 2007 سے سیاست میں موجود ہیں۔ پنجاب کمیشن برائے خواتین کی انچارج ہیں اور انہیں خواتین کی موثر آواز سمجھا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ عام الیکشن میں جہانگیر ترین کی کورنگ امیدوارتھیں۔این اے 181سے امیدوار بے نظیر فاطمہ قریشی سوشل سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیتی ہیں۔ وہ بااثر قریشی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام مظفر گڑھ کی کوآرڈینیٹر رہ چکی ہیں۔ انہیں قریشی برادری سمیت دیگر برادریوں کی حمایت حاصل ہے۔
اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے گولارچی سندھ سے انتخابات میں حصہ لینے والی ڈاکٹر صنم لغاری بھی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ان کی طرف سے ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے پر قوم پرستوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بہت مخالفت کی جارہی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر سیاست میں حصہ لینے والوں کے ساتھ ہیں اور انہیں کسی کی مخالفت اور پاکستان مخالف لوگوں کے پروپیگنڈا کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
لاہور میں پی پی 149سے انتخابات میں حصہ لینے والی مسز جھارا پہلوان بیگم سائرہ بانو بیگم کلثوم نواز کی پھوپھی زاد ہیں۔ لاہور کے قدیم پہلوان خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم بھی زوردار انداز میں جاری ہے۔ اسی طرح دیگرعلاقوں میں بھی ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ خواتین کی انتخابی مہم روز بروز ،زور پکڑ رہی ہے۔ اللہ اکبر تحریک کی اہمیت بھارتی میڈیا نے بنائی ہے جس نے اسے حافظ سعید سے جوڑ رکھا ہے۔ہمارا میڈیا بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے حافظ سعید کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرنے پر تل گیا ہے۔ حافظ سعید کی اپنی پارٹیوں کوہم نے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کیو جہ سمجھنا مشکل نہیں۔ بھارت نہیں چاہتا کہ حافظ سعید الیکشن لڑے ۔ بھارت کے دبائو میںامریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈال رکھا ہے کہ حافظ سعید کا ناطقہ بند کر دیا جاے۔ یہ سب کیا ہے۔صرف اس لئے کہ حافظ سعید میرے مرشد مجید نظامی ا ور بابائے قوم کی پیروی میں کشمیر کو آزاد دیکھنے کی آرزو کا اظہار کرتا ہے۔ ہم نے حافظ سعید کا چاروں طرف سے ناطقہ بند کر دیا توا سنے ملی مسلم لیگ بنائی۔مسلم لیگ کے نام سے اس کا عشق بھی بابائے قوم کے ساتھ عشق کی وجہ سے ہے۔ یہ عشق ا س کا جنون بن گیا ہے۔ دین اور مذہب بن گیا ہے۔زندگی ا ور موت کا مسئلہ بنا گیا ہے۔ الیکشن لڑنے کا حق اس کا بھی اتنا ہی ہے جس قدر زرداری، شہباز شریف،عمران خان ، فاروق ستاراور اچکزئی کو حق حاصل ہے۔مگر ہم اس قدر بزدل ہیں کہ اسے اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں، امریکہ ایک سپر پاور ہے ۔ مگر مسلمان کے لئے سپر پاور صرف اللہ کی ذات ہے۔ امریکہ کی سپر پاور پچھلے کئی برسوں سے پچھتر ملکوں کو جہنم میں تبدیل کر چکی ہے۔ اس وقت جب یہ سطور تحریر کررہاہوں تو ہر بارہ منٹ بعد کہیں نہ کہیں امریکہ بم گرا رہا ہے۔اوبامہ نے آٹھ برسوں میں چار لاکھ بم دنیا پر برسائے مگر ٹرمپ نے پہلے ہی سال چوالیس ہزار بم گرا دیئے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران اور ریاستی ادارے امریکہ سے خوفزدہ ہیں یا اس کے لالچ میں آ گئے ہیں اور ان لوگوں کا رستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو عالم ا سلام کو سپر پاور بنانے کے حق میں ہیں۔ اسی لئے ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالدنے ہر خوف و خطر سے بے نیاز ہو کر کہا ہے کہ الیکشن2018میں اللہ اکبر تحریک کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔کرسی کے نشان پر الیکشن لڑنے والوں کی کامیابی کے لئے کردار ادا کریں گے۔ہم نے پاکستان کو بچانا ہے۔ پاکستان بچانے کے لیے محب وطن لوگوں کی حمایت کرنی ہو گی اور انہیں ووٹ دینا ہو گا۔جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم کے موقف کو میں درست کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر ساجد میر کی مخالفت کی وجہ سے اللہ اکبر تحریک کو ایم ایم اے میں شامل نہ کیا جاسکا مگر جماعت اسلامی نے ا س تحریک کو پیش کش کی کہ وہ اپنے کوٹے سے اسے ترازو یا کتاب کا نشان الاٹ کرنے کے لئے تیار ہے، جماعت کی اس دلیری پر قلم عش عش کر اٹھتا ہے ۔یہ میری نااہلی ہے کہ میں اللہ اکبر تحریک یا حافظ سعید کے کسی ترجمان سے بار بار فون کرنے کے باوجود رابطہ نہیں کر سکا۔ اورا س سوال کا جواب نہیں لے سکا کہ انہوںنے جماعت اسلامی کی فراخدلانہ پیش کش کو کیوں قبول نہ کیا۔
اللہ اکبر الیکشن میں کیا میدان مارتی ہے، اس کااندازہ دو ہفتوں بعد ہی ہو گا مگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جن حلقوں سے کسی پارٹی کا کوئی امید وار تھوڑے مارجن سے جیتا کرتا تھا،وہ اللہ اکبر کے امیدوار کے ووٹ توڑنے کی وجہ سے شکست کھا سکتا ہے اور کوئی دوسرا میدان مار سکتا ہے۔ اس طرح کئی حلقوںمیں ن لیگ کو نقصان اٹھانا ہو گا اور کہیں پی ٹی آئی گھاٹے میں رہے گی۔خود اللہ اکبر والوں کا خیال ہے کہ وہ منفی کردار کے لئے میدان میں نہیں اترے بلکہ کامیاب ہونے کے لئے کوشاں ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!