خبرنامہ

اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں

اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں ہے اور ڈاکٹر مجید نظامی نے بھی لاٹھی لہرادی ہے، اللہ کے اس بندے کی لاٹھی بھی بے آواز نہیں ہے۔ انہوں نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ بھارت میں اب تک جتنے حکمران آئے، ان میں مودی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
اور اس خطرناک ترین بھارتی حکمران سے ملنے کے لیئے ہمارے وزیراعظم آج بھارت سدھار رہے ہیں۔
یہ پاکستان کا یوم سیاہ ہے۔
یہ یوم سیاہ، بانی پاکستان کی روح کے لیے سوہان روح ہے۔
حافظ محمد سعید نے بھی وزیراعظم کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کا رخ نہ کریں۔ جماعت اسلامی بھی اس مسئلے پر یک سو ہے اور بھارت کے سامنے سر جھکانے کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان کا درد رکھنے والی ساری جماعتیں یوم تکبیر منانے کے لیئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں۔
اور یوم تکبیر سے صرف دو روز پہلے وزیراعظم 28 مئی 1998 کے جذبوں کو بھول گئے ہیں، انہوں نے سوغاتیں رد کر کے بھارت کا حساب چکادیا، ان کے وزیرخارجہ گوہر ایوب خاں نے کہا تھاTit for tat
اب یہ سب کچھ بھلا دیا گیا اور وزیراعظم کی ساری نظریں دلی پر مرکوز ہیں۔
وزیراعظم نے سب کی سنی ان سنی کر دی ہے، انہیں پیپلز پارٹی تحر یک انصاف اور جے یو آئی کی کھلی اشیر باد حاصل ہے۔
امن کی آشا اور اس کے ساتھ سیفما اگر ابتلا میں نہ ہوتی اور معاشرے میں اچھوت نہ بن چکی ہوتی تو وہ بھی ڈھول بجا کر وزیراعظم کے جہاز کو رخصت کرتی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وزیراعظم کے جہاز سے لٹک کر دہلی جانے کے لیئے تیار ہیں۔
ڈاکٹر مجید نظامی نے یہ نصیحت بھی کی ہے کہ ہمیں بھارتی شردھالوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی شردھالووہ ہیں جو امریکہ، برطانیہ یور پی ممالک اور بھارت سے پیسے بٹورکر بھارتی ایجنڈے کو بڑھاوا دے رہے ہیں، جن کی نظریں واہگہ کے اس پار جمی رہتی ہیں جہاں شراب ہے، شباب ہے، بے غیرتی ہے۔بے حمیتی ہے اور صدیوں کی غلامی کا پھندا تیار ہے۔
وزیراعظم موقع کی تاک میں تھے، بھارت ان کے خوابوں میں بسا ہوا ہے، بلکہ بھارت کا گاؤں جاتی امرا،انہوں نے پاکستان میں آباد کر لیا ہے۔ مکہ سے بہت سے لوگوں نے ہجرت کی مگر کہیں دوسرا مکہ آباد نہیں کیا۔مگر خدشہ ہے کہ اب پورے پاکستان کو اکھنڈ بھارت کا حصہ نہ بنا دیا جائے۔ اپنی تقریب حلف برداری میں وہ منموہن سنگھ کو بلانا چاہتے تھے، ووٹ پاکستان کے عوام نے دیئے اور خوشی کا وقت آیا تو بھارتی وزیراعظم یا دآ گیا۔ اب مودی صاحب کو بھی ووٹ بھارتی عوام نے دیئے ہیں مگر وہ حلف لیتے وقت سارا ٹوہر پاکستان پر جمانا چاہتے ہیں، ہمارے وزیر اعظم کو یوں مدعو کیا ہے جیسے ہم بھارت کا طفیلی ملک ہوں۔ بھارتی لالہ بڑا خچرا ہے، ساتھ ہی سارک کے دیگر لیڈروں کو بھی بلا لیا ہے تاکہ ہمارے وزیر اعظم نہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ر ہیں مگر وہ انہیں تنہا بھی بلاتے تو حضرت سرپٹ دوڑتے ہوئے جاتے، اب کئی دوسروں کے ساتھ بلایا ہے تو کیونکر رکیں گے۔ یہ اخبار آپ کے ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی وہ پھر سے اڑ چکے ہوں گے۔
وزیر اعظم اس سے پہلے دو مرتبہ اقتدار میں آئے، بھارت کے لیے ان کے دل میں نیک تمناؤں کا بحیرہ ہند موجزن ہے مگر انہیں بھارت کے سرکاری دورے کی حسرت ہی رہی۔ یہ حسرت اب پوری ہوگئی، دہلی والے کہہ ر ہیں کہ بہت دیرکی، مہرباں آتے آتے۔
پاکستان میں راجیو آیا، واجپائی آیا، اس سے پہلے پتانہیں کوئی آیا یا نہیں آیا مگر کئی بار بھارتی لشکرضرور پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ پینسٹھ میں بھارتی جرنیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ چھ ستمبر کی شام فتح کا جام لاہور کے جم خانہ میں نوش کرے گا مگر ہمارے ایک آبرومند میجر شفقت بلوچ نے کہا کہ میں نے اس نڈھے کو تین دن تک ہڈیارہ کے گندے نالے کا گھونٹ تک نہیں پینے دیا۔ بریگیڈیئر قیوم شیر نے اس جرنیل پرایساہلہ بولا کہ وہ جیپ چھوڑ کو گنے کے کھیتوں میں جا چھپا۔
بھارت پاکستان کو ہڑپ کر نا چاہتا ہے، یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ اندرا گاندھی نے لشکرکشی کر کے پاکستان کو دولخت کر دیا، اس وقت بھی جنرل نیازی نے کھلی لڑائی میں مشرقی پاکستان کا ایک انچ بھارتی قبضے میں نہیں جانے دیا تھا مگر سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑنے کا ڈرامہ کیا گیا اور بھارت کو آخری حملے کا موقع مل گیا۔ اب سونیا گاندھی کہتی ہے کہ پاکستان کو کلچرل محاذ پر سرنگوں کر دیا، ہمارے ایک ٹی وی نے توحین رسالت ﷺکا ارتکاب کر کے ثابت کر دیا کہ ہم بے حمیت ہو چکے۔ اور اب ہمارے وزیراعظم کا جہاز بھارت کا رخ کر رہا ہے۔ مودی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد شکرانے کے طور پر گنگا اشنان کیا، اس پوتر وزیر اعظم سے گلے ملنا اور ہاتھ ملانا کتنا بڑا اعزاز ہے۔
بھارت میں ہمارے وزیراعظم کے استقبال کے جوش میں لوگ ہوش کا دامن کھو بیٹھے ہیں اور وہ ان کے پتلے جلارہے ہیں، مجھے اپنے وزیراعظم کی اس بے توقیری پردکھ پہنچا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے لیئے مودی کے دل میں کوئی عزت ہوگی۔ وہ تو اپنی رعایا میں شامل دو ہزار مسلمانوں کا خون پی چکا ہے، اسے پاکستان سے کیا ہمدردی ہوگی اور اس کے وزیر اعظم کے لیے اس کے دل میں تو قیر کے کیا جذبات ہوں گے۔ اسے مسلمانوں کے ایک وفد نے کپڑے کی ٹوپی تحفے میں دی، ان کی خواہش تھی کہ وہ اسے پہنے اور علامتی طور پر مسلمانوں کے لیے احترام کے جذبات کا اظہارکرے مگروہ ٹوپی ہاتھ میں پکڑے سٹیج پرسا کت و صامت کھڑارہا، اس نے مسلمانوں کا دل رکھنے کے لیے بھی ٹوپی سر پر نہ رکھی۔ اب ہمارے وزیراعظم کوخوش فہمی ہے کہ یہ شخص وزیراعظم بن کر ایک تبدیل شدہ شخص ہے، یہ واہمہ بھی دور ہو جائے گا جب وزیراعظم کا جہاز خالی لوٹ آئے گا اور اس میں کشمیر کا کوئی کونہ کھد را بھی لا کر ہمیں بھیجا جائے گا۔
نریندر مودی کی حلف برداری میں سارک کے دیگر لیڈروں کو مدعو کرنے پر خود بھارتی ریاستوں کے تحفظات ہیں۔ تامل ناڈو کی چیف منسٹر جے للتا نے کہا ہے کہ سری لنکا کے لیڈر کو مدعو کر کے تاملوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اگر وہ نواز شریف کو مدعو کرتی تو بی جے پی اس کا طبلہ بجا دیتی۔ نواز شریف کی دہلی روانگی کشمیری شہدا کی روحوں کے لیے بہشتی جھونکوں کا مترادف کیسے ہوسکتی ہے۔
بھارت کو پاکستان سے تازہ ترین پیغام یہ ملا ہے کہ اس کی ائیر فورس کے ایف سولہ طیارے رات کے اندھیرے میں پہاڑوں کی غاروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں پرٹھیک ٹھیک نشانے لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کی یہی دفاعی صلاحیت بھارت کے نئے وزیراعظم مودی کا دماغ سیدھارکھے گی۔
یقین رکھئے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں ہے۔ (27 مئی 2014ء)