خبرنامہ

امداد مل سکتی ہے. اعتماد نہی… کالم اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنلزم اور حب الوطنی سے بھر پور لہجے میں بات کی ہے مگر تاریخ انتہائی بے رحم ہے اور امریکہ اس سے بڑھ کر بے رحم۔

پاکستان کی پہلی نسل قائد اعظم کے پرچم تلے پروان چڑھی۔ دوسری نسل نے یو ایس ایڈ کے پرچم تلے آنکھ کھولی۔ میںنے اپنے بڑے بھائی میاںمحمد سے بہت کریدا کہ جب ایک یوم آزادی پر پاکستان ریلوے کی ٹرین چودہ اگست کو خوبصورت جھنڈیوں سے سجی ہوئی گنڈا سنگھ والا کے اسٹیشن پر پہنچی تھی تو اس وقت میری عمر کیا ہو گی۔ یا میں کس کلاس میں پڑھتا تھا، اس کا تعین نہ ہو سکا مگر یہ بات طے ہے کہ اس زمانے میں ایک زبردست سیلاب آیا تھا، اس میں ریلوے لائن ٹوٹ پھوٹ گئی تھی جس کے بعد اسے کسی نے نہیںبنایا۔ اس لئے جس یوم آزادی کی میںبات کر رہا ہوں ،یہ اس سیلاب سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس ٹرین کی خاص بات یہ تھی کہ ہم نے پہلی بار اس کے انجن پر یو ایس ایڈ کاٹریڈ مارک دیکھا۔پاکستانی پرچم اور امریکی پرچم ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے ہوئے تھے۔اس سے ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ ٹرین کا انجن امریکی امداد میں ملا ہے۔
میں آٹھویں میں تھا کہ ایک بریکنگ نیوز سننے کو ملی۔ پشاور کے ایک خفیہ ہوائی اڈے سے امریکی یو ٹو نے اڑان بھری، اس کا پائلٹ گیری پاورز تھا۔ وہ ساٹھ ہزار کی بلندی پر پہنچا توا س نے ایک ریڈیو سگنل سے پشاور کے نگران عملے کو بتایا کہ اس کی پرواز معمول کے مطابق ہے۔ اس جہاز کے پائلٹ کو بات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔اس وقت وہ افغانستان کی فضائوںمیں تھا، پھر اس نے رخ تبدیل کیا اور سوویت روس کے فوجی اڈوں کی تصویریں بنانے میںمصروف ہو گیا۔یہ یکم مئی انیس سو ساٹھ کا دن تھا، سوویت روس میں یوم مئی کی قومی تعطیل تھی، روسی فضائیہ بھی چھٹی منانے میںمصروف تھی۔ یو ٹو کے پائلٹ کو کسی غیر معمولی صورت حال کا اندیشہ نہ تھا،ا سے متعدد روسی فوجی اڈوں کی تصویریں بنانے کے بعد فن لینڈ کا رخ کر لینا تھا مگرا س دوران یہ جہاز امریکی راڈار کے منظر سے غائب ہو گیا، اس کی بلندی ستر ہزار فٹ تھی ۔اسے ایک روسی سام میزائل نے نشانہ بنا ڈالا تھا، پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا، وہ دو سال تک روسی جیلوںمیں گلتا سڑتا رہا۔بعد میںا سے ایک روسی جاسوس قیدی کے ساتھ تبادلے میں رہا کرا لیا گیا، پھر کسی وقت گمنامی میں وہ مر گیا مگر ا سکی موت کے پچاس سال بعد امریکہ کوخیال آیاکہ گیری پاورز اس کا ہیرو ہے اور اسے بعد از مرگ بہادری کے تمغے سے نوازا گیا۔
پاکستان میں ان دنوں فیلڈ مارشل ایوب خان کا طوطی بول رہاتھا، آج کی نئی نسل نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر گھومتی دیکھی ہو گی جس میں ایوب خان بڑے ہی پیار سے اپنے سامنے کھڑے امریکی صدر جانسن کے رخسار ٹوہ رہا ہے۔
یہ ایوب خان امریکیوںکا لاڈلا تھا اور امریکی اس کے لاڈلے مگر خدا جانے کیا ہوا کہ اچانک اسی ایوب خان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی جس کا عنوان تھا: جس رزق سے آتی ہوپرواز میںکوتاہی۔ ظاہر ہے کسی وجہ سے امریکیوںنے ایوب خان اور پاکستان دو نوں کا نمدا کس دیا ہو گا، تب اس فیلڈ مارشل کو پتہ چلا کہ امداد تو ملتی رہی مگر اعتماد اور عزت نہیں مل سکی۔
میں نہیں جانتا کہ پشاور کے قریب بڈھ بیر کا اڈہ ایوب خان نے امریکیوں کود ان کیا، یا لیاقت علی خان نے ، یا سہرو ردی نے، یا محمد علی نے یا ناظم الدین نے یا بوگرہ نے مگر یہ جانتا ہوں کہ یہ نیک فریضہ مملکت پاکستان نے انجام دیا تھا اور ا سکا نقصان بھی مملکت پاکستان کو پہنچا۔
بھٹو نے یحییٰ خان کے کھیل میں رضا مندی سے شرکت کی یا کسی عالمی سازش کے تحت اس نے پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش میں ساتھ نبھایا مگر اس کے خون کے اندر ایک نیشنلسٹ روح گردش کر رہی تھی، اس نے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مستحکم بنانے کا منصوبہ بنایا اور ا سکے لئے نعرہ لگایا کہ گھاس کھائیں گے ، ایٹم بنائیں گے، بھٹو نے ایٹم بم تو بنا لیا مگرامریکہ نے اسے سخت سزا دی، وہ پھانسی چڑھا دیا گیا اور پاکستانی قوم کو بھی سزا دی گئی ، وہ ایٹم بموں کے ذخیرے کے باوجود آج تک گھاس کھانے پر مجبور ہے۔
میرے ذہن میں تیسری مثال جنرل ضیاء الحق کی ہے۔اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے سوویت روس کے خلاف جہاد کاآغاز کیا، اس جہاد کو امریکی پشت پناہی حاصل تھی، امریکہ نے جنرل ضیا سے یہ کام تو لے لیا کہ سوویت روس کو شکست سے دوچار کر دیا مگر اب اسے جنرل ضیا کی ضرورت نہیں تھی اور اسے اپنے ایک سفیر کے ساتھ دیگر پاکستانی اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ حادثہ بہاولپور میں چلتا کیا۔
امریکہ نے جنرل ضیا کے جہادی لیڈروں کو آپس میں لڑا دیا، ان کی جنگ پاکستان کے اندر آن گھسی، پاکستانیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ اقبال کی کلیات میںکوئی ا ور شعر ہوتا تو ہم اپنے صدمے کا بہتر طور پر اظہار کر سکتے تھے۔
اگلی مثال جنرل پرویز مشرف کی ہے جس نے نائن الیون کے بعد آدھی رات کی ایک کال پرامریکیوںکے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ، امریکی حکومت حیران رہ گئی کہ اسے تو لیت و لعل کا اندیشہ تھا مگر جنرل مشرف نے ا سقدر جلد بازی میں ہتھیار ڈالے کہ امریکی خود ششدر رہ گئے، جنرل مشرف نے کئی برسوں تک ایک اچھے بچے کی طرح دہشت گردی کی جنگ لڑی اور ا سکے لئے ایک نعرہ ایجاد کیا کہ سب سے پہلے پاکستان، دہشت گردی کی جنگ کو ہماری جنگ کہا گیا۔اس جنرل مشرف کو امریکہ نے ڈالروں سے لاد دیا ہو گا مگر مشرف ڈو مور کے تقاضے پورے نہ کر سکا تو اسے وکیلوں کی ایک ایسی تحریک میں جس میں لاہور سے پنڈی تک کے جلوس کے شرکا کی تواضع برگر سے کی گئی تھی ۔ اس تحریک میں جنرل پرویز مشروف کا بولو رام کروا دیا گیا۔ رہے نام اللہ کا۔
پاکستان نے فدویانہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کی کوشش کی، اس جنگ میں پانچ چھ ہزار فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے ا ور ایک لاکھ کے قریب بے گناہ پاکستانی بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے، ہم نے سوات کو روندا، فاٹا کے ایک ایک پہاڑ کو بارود سے اڑا دیا مگر امریکہ کی بھوک مٹتی ہی نہیں، وہ ڈو مور، ڈو مور کے مطالبات دہراتا ہے اور پاکستانی نکو نک آ گئے ہیں۔ نہ عوام کو چین لینے دیا جا رہا ہے، نہ کسی حکومت کو چلنے دیا جاتا ہے، یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے امریکی دورے میں بڑی عاجزی اور انکساری سے کہا کہ اس کی تو اپنی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو اس جنگ کا نشانہ بن چکی ہیں اس لئے یہ پاکستان کی جنگ ہے مگر نہ گیلانی کو چین ملا، نہ زرداری کو۔ ایک کیری لوگر بل آ گیا کہ آئندہ کوئی امداد پاکستانی حکومت اور اداروں کو نہیں ملے گی۔ پتہ نہیں ا س پر عمل ہوا یا نہیں اگر ہو اتو پھر صدر ٹرمپ یہ طعنہ کیوں دیتے ہیں کہ پاکستانی اربوں ڈالر کھا گئے، کم از کم کیری لوگر بل کے پیسے تو پاکستانیوںنے نہیں کھائے ہوں گے، یہ تو امریکی سفار ت خانے میںرجسٹرڈ این جی ا وز نے ڈکارے ہوں گے، بہر حال امریکیوں کی زبان اور ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے، وہ ہمارا ہرگز احسان نہیں مانتا، ہمیںکرائے کے گوریلے یا بھاڑے کے ٹٹو سمجھتا ہے۔
اب تو پاکستان کو گالیاں دینے کے لئے امریکہ نے افغانیوں کو تیار کر دیا ہے، ان کو سبق پڑھانے کے لئے بھارتی را کے ایجنٹو ںکی فوج بھی کابل میں موجود ہے۔ بھارت کی بلیم گیم الگ سے جاری ہے۔
اور امریکہ نے ایک نئی بات کہی ہے، اس نے دھمکی دی ہے کہ آئندہ پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے کوئی اطلاع نہیں دی جائے گی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ آج سے پہلے امریکہ کسی خفیہ زبان میں ایبٹ آباد آپریشن یا ڈرون حملوں کے بارے میں پیشگی اطلاع ضرور کرتا ہو گا، اس کا ایک ثبوت وہ کالم ہے جو نیو یارک ٹائمز میں صدر زرداری کے نام سے اسی صبح چھپا جس صبح اسامہ بن لادن کی شہادت کی خبر چھپی تھی۔
عام پاکستانی امریکی غیظ و غضب کا شکار ہونے کے لئے مجبور ہیں۔ نہ ان کو امریکیوں کی طرف سے کوئی دھیلا ملا مگر ڈرون بھی انہوںنے سہے اور دہشت گردوں کا لشکر بھی ان کے درپے ہیں اور انہی کے ایک مقبول لیڈر شہباز شریف کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہے۔یہ دہشت گرد بڑے ستم ظریف ہیں کہ ان لوگوں کا تعاقب نہیں کرتے جنہوںنے امریکیوں کو شمسی ایئر بیس دیا۔ یا بڈھ بیر کا خفیہ اڈہ دیا۔
اس وقت اسلام آباد میںپاکستان کی اعلیٰ ترین سکیورٹی کونسل ایک ایسی پالیسی کی تشکیل میںمصروف ہے جس کے تحت پاکستان کو چیئرمین سینٹ کے بقول امریکی فوج کے قبرستان میں تبدیل کر دیا جائے گا، شاید امریکہ اس دھمکی سے ہی ڈر جائے اور ہماری جان چھوڑ دے۔ دعا فرمائیں۔