خبرنامہ

امریکہ نے یورپ کی کمر توڑ دی۔۔اسداللہ غالب

امریکہ کسی منی سپر طاقت کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔اس نے یورپی یونین کی کمر توڑ دی ہے ،امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کی تو باچھیں کھلی ہوئی ہیں، وہ کہتا ہے کہ برطانیہ نے اپناملک واپس لے لیا۔
بہت تھوڑے مارجن سے ریفرنڈم کا فیصلہ ہوا ہے، برطانوی جمہوریت میں ایک ووٹ کی برتری کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں تو اقلیتی حکومت بھی اپنی ٹرم پوری کر لیتی ہے۔
برطانیہ کو امریکہ نے پہلے خود ہی تھانیدار بنایا ، یہ اس پر رحم کے مترادف تھا۔یہ وہ سلطنت تھی جس میں کبھی سورج غروب ہی نہ ہوتا تھا، مگریہ سلطنت سیاحوں اورا سٹوڈنٹ ویزوں کی محتاج ہو کر رہ گئی، پھر اچانک امریکہ کو ایک ذیلی تھانیدار کی حاجت محسوس ہوئی، بر صغیر میں بھارت کے سر پر ہاتھ رکھا گیا مگر یہاں صرف پاکستان ہی نہیں ، بھارت کا کوئی بھی ہمسایہ اس کی برتری کو ماننے پر راضی نہ ہوا، اس پر امریکہ نے برطانیہ کو آگے کر دیا، دنیا کا ایک بڑا خطہ برطانوی غلامی میں رہ چکا ہے، اور اب بھی بڑے بوڑھے انگریز سرکار کے اچھے دنوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں،امریکہ کا یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا، انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کی اولادوں نے بازو کھول کر برطانیہ کی تھانیداری کا استقبال کیا۔
امریکہ کو برطانیہ کی یہ مقبولیت بھی راس نہ آئی حالانکہ برطانوی وزیر اعظم نے خوشی خوشی امریکی پوڈل کا کردار بھی ادا کیا۔
باقی ملکوں کا حال تو مجھے پتہ نہیں مگر پاکستان کی حکومت ا ور سیاست کی باگ ڈور لندن سے ہلائی جا رہی ہے، الطاف اور زرداری وہیں بیٹھے ہیں، عمران بھی بھاگ بھاگ کر لندن جاتا ہے، اور منتخب وزیر اعظم عٖلاج کی خاطر لندن میں مقیم ہیں۔پہلے بھی ایک ایس ادور آیا جب ہمارے فیصلے لند ن میں ہوتے تھے، مری مینگل فرار ہو کر وہیں جا بیٹھے ،دولتانہ نے بھی وہیں کوئی لندن پلان بنایا اور پھرا س میں سے اپنی سفارت کا منصب کشید کر لیا۔لندن میں صرف وزیرا عظم کے خاندا ن کے فلیٹ نہیں ہیں، میں جب پہلی مرتبہ لندن گیاتو ریجنٹ پارک کی مسجد کے نواح میں مجھے ڈاکٹر عدنان کافلیٹ دکھایا گیا، یہ مہنگا تریں علاقہ ہے ، ڈاکٹر عدنان کا جنرل ضیا الحق سے کوئی رشتہ تھا، میں نے اپنے چند دوستوں کے لئے برطانیہ کے ودرے کا پروگرام تشکیل دیا تو وہ لندن میں جمعیت علمائے پاکستان کے موجودہ سربراہ پیر اعجاز ہاشمی کے فلیٹ میں ٹھہرے، ان دنوں فلیٹوں کی ملکیت پر کوئی اسکینڈل نہیں بنتا تھا، نہ کوئی اس کا چرچا کرتا تھا اور نہ کوئی ان پہ اتراتا تھا مگر جب سے بے نظیرا ور زرداری اس ووڑ میں شریک ہوئے تو بیرون ملک ہر کسی کی جائیداد کو سرے محل کا نام دے دیا گیا۔ عمران خان نے تو سسرال بھی لندن ہی میں تلاش کیاا ور وہ بھی ایک پکا متعصب یہودی خاندان، صد افسوس! اس خاندان کا چشم و چراغ لندن کی میئر شپ کے الیکشن میں ایک پاکستانی سے ہار گیا، عمران خان اپنے اس سابق سالے کی انتخابی مہم کے لئے بھی لندن گئے تھے۔
برطانیہ کے بعض لوگوں نے ریفرنڈم کے نتائج پر انگلیاں اٹھائی ہیں ا ور وہ سیکنڈ ووٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ کوئی واضح فیصلہ آئے، اکاون فی صد لوگوں کو کیسے اختیار مل گیا کہ وہ باقی انچاس فی صد آبادی کے مفادات کو زک پہنچائے۔ ان لوگوں نے ابھی تواپنے مطالبے کی حمائت میں دستخطوں کی مہم شروع کی ہے، اگر وہ عمران خان کی سیاست کی پیروی کریں تو انہیں پہلے مرحلے میں تھیلے کھولنے کا مطالبہ کرناچاہئے، پھر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرنا چاہئے اور دال پھر بھی نہ گلے تو وہ بکنگھم پیلس کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جائیں ، پاکستان نے تو کئی ماہ کے دھرنے کا جھٹکا برداشت کر لیا تھا، برطانیہ چند ہفتوں میں ڈھیر ہو جائے گا۔
یورپی یونین کا اتحاد آنکھوں کو خیرہ کرنے کا باعث بنا، خاص طور پر جو لوگ پاکستان ا ور بھارت کے درمیان واہگہ کی لکیر سے الرجک تھے، وہ اٹھتے بیٹھتے یورپی یونین کی مثال کا ورد کرتے تھے، واقعی یہ ایک طلسم ہوش ربا تھا کہ آپ کسی ایک ملک کا ویزہ لیں ا ورستائیس ملکوں میں گھوم جائیں، کہیں کوئی سرحد نہیں،کوئی رینجرز کی چوکی نہیں، کوئی کسٹم یا امیگریشن کی پوسٹ نہیں،ادھر ایک ہم ہیں کہ اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے نام کے ساتھ امرتسری، جالندھری، انبالوی، دہلوی، بٹالوی، ؂لکھنوی لکھ کر شاد کام تھے۔وزیر اعظم نواز شریف نے تو اپنے گاؤں جاتی امرا کو پاکستان ہی میں آباد کر دکھایا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم لوگوں نے دل سے بر صغیر کی تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا۔اور یورپی یونین کا اتحاد ہمارے خوابوں کی تعبیر کے لیئے دلیل کے طور پر کام آتا تھا، مگر برطانیہ کے حالیہ ریفرنڈم نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔
ایک ریفرنڈم کو پوری دنیاا ور خاص طور پر برطانیہ بھول گئے ہیں۔اس ریفرنڈم کا فیصلہ سلامتی کونسل نے کیا، مگر انہتر برس گزر گئے، اس کے انعقاد کی نوبت نہیں آ سکی، یہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہونا تھا، اس میں کشمیریوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان ا ور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، بھارت نے ا س ریفرنڈم کو رکوانے کے لئے اس جنت نظیر ریاست پر جبری قبضہ جما رکھا ہے سات آٹھ لاکھ بھارتی فوج سنگینیں تانے کشمیریوں کے سر پہ کھڑی ہے، کشمیری نوجوان اپنی آزادی کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں تودنیااسے دہشت گردی قراردیتی ہے ا ور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان بھی ا سے دہشت گردی ہی کہتا ہے ا ور کشمیر کی آزادی کی خواہش رکھنے والوں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ میرے مرشد مجید نظامی دلیر انسان تھے، وہ کہتے تھے کہ کشمیر کی تحریک آزادی، دہشت گردی ہے تو وہ اس کی آزادی کے لئے سرتوڑ کوشش جاری رکھیں گے، انہوں نے تو پیش کش کی تھی کہ ا نہیں ایک ایٹمی میزائل سے باندھ کر کشمیر میں بھارتی چھاؤنی پر گرا دیا جائے۔
برطانیہ نے تواپنا ملک یورپی یونین سے واپس لینے کے لئے ریفرنڈم کرو الیاا ور وہ اگر چاہیں گے توفیصلہ بدلنے کے لئے دوسرا ریفرنڈم بھی کرو الیں گے، مگرکشمیر کا ریفرنڈم کون کروائے گا۔
پاکستان میں ایک قومی کشمیر کمیٹی بھی ہے ، ا سکے چیئر مین مولانا فضل الرحمن کو توا س ریفرنڈم کا مطالبہ شدو مد سے کرنا چاہئے۔