خبرنامہ

امریکہ کو بھارتی ریاستی دہشت گردی کیوں نظر نہیں آتی…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امریکہ کو بھارتی ریاستی دہشت گردی کیوں نظر نہیں آتی…اسد اللہ غالب

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندہ صفت فوج نے دو درجن سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے اور سینکڑوں زخمی تڑپ رہے ہیں۔ اس پر پاکستان میں ملی مسلم لیگ اور تحریک آزادی کشمیر نے بھارت کی مذمت کے لئے کئی شہروں میں جیسے ہی جلوس نکالے، امریکہ نے ان دونوں تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے ڈالا۔
ایک زمانہ تھا کہ کفر کے فتوے لگانے کی عام روائت تھی اورا سکے لئے فرقہ پرست مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا مگر اب امریکہ نے دہشت گردی کے ٹھپے لگانے پر اجارہ داری حاصل کر لی ہے اور جس کے خلاف یہ فتوی دے ڈالتا ہے، اس پر خدا کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے، امریکہ نے حافظ سعید ، لشکر طیبہ اور فلاح انسانیت کو دہشت گرد کہہ ڈالا تو ہم نے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ان کے دفتروں، مدرسوں اور ہسپتالوں پر تالے لگا دیئے، ان کے اکائونٹس بند کر دیئے اور انہیں چندہ دینے والوں کے لئے ایک کروڑ کے بھاری جرمانے کا اعلان کر دیا۔
مگر یہ ملی مسلم لیگ اور تحریک حریت کشمیر نے کیا خرابی ڈال دی کہ اسے بھی دہشت گردی کی لسٹ میں ڈال دیا گیا اور ان کے رہنمائوں کو بھی گردن زدنی قرار دے ڈالا، پاکستان کے گلی کوچوں میں بھارتی فوج کے قتل عام کے خلاف جلوس نکالنا بھی دہشت گردی ہو گیا۔ میںنے تو کل کے کالم میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھاکہ ابھی تو پاکستان اخلاقی اور سفارتی سطح پر کشمیریوں کی حمائت کر رہا ہے لیکن امریکہ نے اس فعل کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل کر دیا تو پاکستان کا کیا بنے گا کالیا!بننا کیا ہے، اسے دہشت گردی کے الزام میں ایک کالی فہرست میں ڈال دیا جائے گا اور ا س کا معاشی مقا طع شروع ہو جائے گا۔ہمارے لوگ اس اقدام سے بے حد خوفزدہ ہیں ، اس لئے وہ امریکہ کو ناراض نہیں کریں گے اور کشمیریوں کی اب تک جو زبانی کلامی حمائت کی غلطی کی جا رہی ہے، اس سے بھی ہم توبہ تائب ہو جائیں گے۔
مگر یارو! کشمیر کی تحریک آزادی پاکستان کی محتاج نہیں ، پاکستان کشمیر کے پانیوں کا محتاج ہے، اگر ہم قحط برداشت کرنے کو تیار ہیں تو کشمیریوں کو اس سے کیا لگے، وہ تو دیوار برلن کے انہدام اور مشرقی یورپ کی ٹوٹ پھوٹ سے متاثر ہو کر اپنے زور بازو سے تحریک آزدی شروع کر چکے ہیں۔سید علی گیلانی، یاسین ملک، آسیہ اندرابی،میر واعظ کے پاس نہ پاکستانی شناختی کارڈ ہے ، نہ پاسپورٹ، ان کا کوئی تعلق پاکستان سے نہیں مگر پھر بھی وہ پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان میں شامل ہونے کے لئے بے قرار ہیں ۔ پاکستان ان کو شامل نہ کرنا چاہے تو کشمیری زبردستی ایسا نہیں کر سکتے مگرایک بات طے ہے کہ وہ بھارت کی محکومی اور غلامی کو مزید ایک لمحہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کشمیری نوجوان برہان وانی شہیدکے نقش قدم پر چلتے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے میدان عمل کا رخ کر رہے ہیں، ان دنوں ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے جس میں میڈیا کا نمائندہ ایک بزرگ کشمیری سے سوال کرتا ہے کہ آپ کا بیٹا گھر میں بتائے بغیر جہاد میں جا شریک ہوا ہے، آپ اس کی واپسی کی اپیل جاری کریں۔ بزرگ کشمیری کا جواب ہے کہ میرا بیٹا گھر سے بغیر بتائے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد چلا جائے تو میں اسے کیسے واپس بلا سکتا ہوں ، وہ ایک فرض کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلا، جہاد بھی فرائض میں شمار ہوتا ہے،ا س لئے میں اس کی واپسی کی اپیل جاری نہیںکروں گا۔بلکہ دعا گو ہوںکہ اللہ اسے اپنے مقصد میں کامیاب کرے یا اسے شہادت نصیب ہو۔
مقبوضہ کشمیر کے ایسے لاکھوں نوجوانوں کوبھارت دہشت گرد اورآتنک وادی کہتا ہے تو کہتا رہے۔ مگر کشمیری اپنی جد و جہد کو تحریک آزادی کہتے ہیں،کشمیر میں دنیا کی پہلی تحریک آزادی نہیں چلی، امریکہ نے لڑ کر آزادی لی، برطانیہ کی محکوم اقوام نے لڑ کر آزادی لی، نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد کہا گیا مگر دنیا نے اسی نیلسن منڈیلا کو امن کا نوبل انعام بھی دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی گجرات میںہزاروںمسلمانوں کے قتل عام کے جرم میں دہشت گرد کہلوایا، اسے یورپ ا ور امریکہ نے ویزہ دینے سے ا نکار کر رکھا تھامگر یہی مودی اب ان ملکوں کی آنکھ کا تارا ہے۔ اصل میںنائن الیون کے بعد سے تحریک آزادی اور دہشت گردی کی کوئی جامع تعریف سامنے نہیں آسکی، خودا قوا م متحدہ بھی دہشت گردی کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ۔ مگر ایک بھیڑ چال ہے کہ بھارت یا امریکہ جسے دہشت گرد کہہ دیں ، اقوام متحدہ بھی اس پردہشت گردی کا لیبل لگا دیتی ہے۔
مگر خود امریکہ اور اس کے حواری دہشت گردی کے خاتمے کے نام پراس قدر قتل عام کر رہے ہیں کہ ہٹلر کے ہاتھوں ہولو کاسٹ بھی ماند پڑ گیا ہے۔نائن الیون کی دہشت گردی میں افغانستان یا عراق کا کیا قصور تھا کہ ان دونوں ملکوں کو امریکہ اور نیٹو افواج نے دہشت گردی کا ٹارگٹ بنا رکھا ہے، لیبیا کا کیا قصور تھا کہ امریکی طیاروںنے کرنل قذافی کو میزائل کا نشانہ بنایا اور روس، امریکہ اور نیٹو کا کیا تعلق ہے کہ ان کے طیارے دن رات شام میں بمباری کرتے ہیں اور بے گناہ شامیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔یہ کھلی دہشت گردی ہے مگر امریکہ، نیٹو اور روس اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ دوسروں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں مگر انہیں اپنی آنکھ کا شہتیرتک نظر نہیں آتا۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا دائرہ صرف کشمیر تک محدود نہیں، بلکہ اس کے ایک درجن علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو بھارتی افواج دہشت گردانہ کاروائیوں سے دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔خالصتان میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ اور بھارت سے کوئی پوچھے کہ یہ مسیحوں نے ا سکا کیا بگاڑا ہے کہ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسیحوں کے چرچ جلائے جا رہے ہیں اور پھردلت کا قصور کیا کہ انہیں نفرت، حقارت اور دہشت کا ٹارگٹ ٹھہرا لیا گیا ہے۔
امریکہ اپنے تئیں انسانی حقوق کا چیمپئین بنتا ہے۔ مگر اسے کشمیریوں کے انسانی حقوق کا خیال تک نہیں آتا ، نہ اسے یہ یاد ہے کہ اقوم متحدہ کی قراردادوں کی رو سے کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اورا سے استصواب کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے مگر امریکہ بھارت کی محبت میں اندھا ہو گیا ہے اور اس کی ریاستی دہشت گردی سے چشم پوشی کرتے ہوئے پاکستان میں چھوٹے چھوٹے جلوس نکالنے والی ملی مسلم لیگ اور تحریک آزادی کشمیر دہشت گرد نظر آتی ہے ۔ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ایک کمزور ملک ہے، یہ تو امریکہ کے فیصلوں کو سر آنکھوں پہ رکھے گا ہی مگر امریکہ یاد رکھے کہ کشمیری حریت پسندوں کی جان تو لی جا سکتی ہے مگر ان کی روح آزادی کو نہیں کچلا جاسکتا۔ اس لئے امریکہ جان لے کہ کشمیری اپنی آزادی کے لئے کسی ملی مسلم لیگ کے محتاج نہیں، ان کے ہاں درجنوں جماعتیں ہیں جو حریت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ اگر امریکہ کے جارج واشنگٹن کو آزادی کی جنگ لڑنے کا حق حاصل تھا تو آسیہ اندرابی سے یہ حق کیسے چھینا جا سکتا ہے، امریکہ کوشش کر کے بھی دیکھ لے، اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور بھارت کو بھی سوائے خفت ا ور شکست کے کچھ حاصل نہیںہو گا۔