خبرنامہ

امریکی امداد کے بغیر….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امریکی امداد کے بغیر….اسد اللہ غالب

ایک بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا ہم امریکی امداد کے بغیر گزارہ کرنے کے قابل ہیں، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے یہ نکتہ اٹھایا کہ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کہوں گا کہ وہ کوئی ایسا طریقہ نکالیں کہ بیرونی امداد پر ہمیں انحصار نہ کرنا پڑے، اس بحث کو ان کے چھوٹے بھائی اور چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف نے آگے بڑھایا کہ غیر ملکی امداد بند ہو جائے تو اس کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا، صرف اشرافیہ کو تکلیف پہنچے گی جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
پاکستان ہمیشہ سے بیرونی امداد کا محتاج رہا ہے اور یہ امداد کئی بار بند بھی ہوتی رہی اور کھلتی بھی رہی۔ اور ہمارے حکمرانوں کو کتابیں لکھنا پڑیں گی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔ مگر جب وہ ایسا رزق ہڑپ کر رہے تھے تو انہیں احساس تک نہ ہوا کہ ان کی پر پرواز تو بالآخر ختم ہو جائے گی اور وہ اڑان بھرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
قوم کو وہ لمحہ یاد ہو گا جب بھٹو جیسا شخص مجبور ہو کر پنڈی کے ایک بازار میں کھڑے ہو کر امریکی خط پھاڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اس وقت تک امریکی امداد نہ ہونے کے برابر تھی مگر امریکی دباﺅ اپنی انتہا پر تھا۔ پاکستان پر ایک وقت وہ بھی آیا کہ دھماکہ نہ کرنے کے عوض اربوں کی خطیر امداد کی پیش کش ہوئی مگر ہمارے ہی ایک وزیراعظم نواز شریف نے یہ امداد ٹھکرا دی اور بم پھاڑ دیا، پھر ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے ایک ایک پائی کی امداد بند کر دی۔ پاکستان نے زندہ رہنے کے لئے قرض اتارو، ملک سنوارو کی تحریک چلائی اور ملک کو چلا کر دکھا دیا، بات نیت کی ہوتی ہے، لیڈر کی نیت کی ہوتی ہے۔ اس سے قبل جنرل ضیا کے زمانے میں پاکستان کی دفاعی امداد اس حد تک بند کر دی گئی تھی کہ ہمارے ایف سولہ پرزوں کی خرابی کی وجہ سے گراﺅنڈ ہو رہے تھے تو جنرل ضیا نے اعلان کیا کہ ہم یہ پرزے ڈسکہ، وزیر آباد اور گوجرانوالہ کے خرادیوں سے بنوا لیں گے اور اس نے یہ پرزے بنوا لئے اور ہمارے ایف سولہ حسب سابق اڑانیں بھرتے رہے اور امریکہ دیکھتا رہ گیا۔
بیرونی امداد کی بندش کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں لیبیا بھی رہا، ایران بھی رہا۔ اور کئی ممالک رہے مگر کسی ملک کے عوام بھوک سے نہیں مرے، کہیں قحط نہیں پڑا۔
پاکستان ایک زرعی معیشت کا ملک ہے،۔ مجھے یاد ہے نوائے وقت کے ایک مذاکرے میں ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا تھا کہ پاکستان کی ہر طرح کی امداد بند بھی ہو جائے تو کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا کیونکہ روٹی ہمیں پاکستان کے کھیتوں سے ملتی ہے، سبزیاں کھیتوں سے ملتی ہیں۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں۔ آج ہمارے سرمایہ کار دوبئی، اسپین، کینیا، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ تک میں پیسہ لگا رہے ہیں، ضرورت پڑنے پر یہ سرمایہ کار اپنا پیسہ واپس لے آئیں گے اور اسے پیداواری کاموں میں لگائیں گے، نئے روزگار پیدا کریں گے۔ بھوک ختم کریں گے۔ اندھیرے دور کریں گے۔
یہ بھی ایک روز روشن کی طرح کی حقیقت ہے کہ یورپی بنکوں کے خفیہ اکاﺅنٹ پاکستانیوں کے پیسوں سے بھرے ہوئے ہوئے ہیں، وطن پر برا وقت آیا تو یہ بے چہرہ کھاتہ دار اپنا پیسہ ا ن بنکوں سے نکلوا کر وطن کے قدموں میں نچھاور کر دیں گے۔ یہ قوم چیلنج کے وقت متحد ہو جاتی ہے، اس کی بہتریں مثال 65ءکی جنگ ہے، ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ ہے۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔ ہم نے دیکھ لیا کہ امریکہ کیا کیا طعنے دے رہا ہے، وہ ہمیں جھوٹا کہہ رہا ہے، دھوکے باز کہہ رہا ہے، صرف اس لئے کہ ہمارے ایک فوجی ڈکٹیٹر نے امریکہ سے پیسے کھائے اور اپنے وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کیا۔ دھرتی کے بیٹوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کروایا اور وہ خود سارے ڈالروں کے ساتھ اڑنچھو ہو چکا ہے، سارا پیسہ بیرونی بنکوں میں لے گیا ہے اور طعنے سننے کو پاکستانی عوام رہ گئے ہیں یا پاک فوج جس نے اپنے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں دی ہیں، ہر روز شہیدوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مفلوج اور معذور ہونے والوں کا بوجھ برداشت کیا ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ تینتیس ارب ڈالر دیئے، پاکستان حساب لگاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے تو ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا، نیٹو کے ٹرالوں نے سڑکیں ادھیڑ ڈالیں، دہشت گردی نے بے یقینی پھیلائی اور پاکستان سے سرمایہ کار بھاگ گیا۔ پاکستان کے ان نقصانات کے مقابل امریکی امداد واقعی مونگ پھلی کے برابر ہے، شکر ہے کہ امریکی طعنوں نے ہماری ملی غیرت کو جگا دیا ہے اور اب ہمارے فوجی ترجمان بھی کہنے لگے ہیں کہ رسوائی اور تذلیل کی قیمت پر امریکی امداد نہیں چاہئے۔
پاکستان تو امریکی امداد کی بندش سے جیسے تیسے گزارہ کر ہی لے گا، اصل میں امریکہ کو یہ سوچنا ہو گا کہ امداد بند کرنے سے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کی صلاحیت میں جو کمی واقع ہو گی، اس کی وجہ سے دہشت گردی کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جائے گا، کیا یہی وہ مقصد ہے جو امریکہ پندرہ برس کی جنگ کے بعد حاصل کرنا چاہتا ہے، کیا اس کے لوگ جو افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کی شہادتوں کی وجہ سے سکون کی نیند سونے کے قابل ہو چکے ہیں، کیا ان کی نیندیں اب پھر سے اڑ نہیں جائیں گی۔
امریکہ نے پاکستان کے خلاف ایکشن نہیں کیا، اس نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے، اس کی فوجیں تو آرام اور سکون سے کابل اور قندھار کی چھاﺅنیوںمیں سستا رہی ہیں اور پاکستانی افواج قربانیوں پر قربانیاں دے کر دہشت گردوں کا خاتمہ کر چکی ہیں، اب پاکستان کو طعنے دینے سے کیا امریکہ کی اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں ہو جائے گا۔ یہ سوچنا امریکی حکومت، امریکی کانگرس اور امریکی عوام کا کام ہے۔
صدر ٹرمپ نے ٹرمپ کی چال چل لی مگر ذرا دیکھئے کہ خود اس کے اپنے ملک میں ٹرمپ کی توقیر اور عزت کیا ہے۔ اسے بیوقوف اور احمق بچہ خیال کیا جا رہا ہے، ٹرمپ کا سٹاف اس کی عزت نہیں کرتا، ان حقائق پر مبنی ایک کتاب امریکہ میں شائع ہوئی ہے جسے ٹرمپ نے جھوٹ قرار دیا ہے مگر کتاب کے مصنف نے خم ٹھونک کر کہا کہ اس کی کتاب کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی ہے۔ گویا اس نے ٹرمپ کو جھوٹا کہہ ڈالا ہے، اب یہ ٹرمپ پاکستان کو جھوٹا کہے تو کون اس کے کہے پر اعتبار کرے گا۔