خبرنامہ

امریکی دباﺅ اور حکومتی سوچ بچار … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امریکی دباﺅ اور حکومتی سوچ بچار … اسد اللہ غالب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا ارتعاش ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ برکس نے بھی مور اوور کے طور پر پاکستان کو کڑوی کسیلی سنا ڈالیں۔
پاکستان کوئی بنانا ری پبلک تو ہے نہیں کہ ا سکے ہاتھ پاﺅں کانپنے لگ جائیں۔ وفاقی حکومت کے اوسان بھی خطا نہیں ہوئے حالانکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پید اکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی، ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم، وزیر دفاع ا ور وزیر خارجہ نے محکم لہجے میں بات کی اور قوم کو حوصلہ دیا کہ ہم ان گیدڑ بھبکیوں سے خوف کھانے والے نہیں ہیں۔ فوری طور پر قومی سلامتی کونسل کاا جلاس طلب کیا گیا، اس میں ٹرمپ کے بیان کو جانچا پرکھاگیا، پھر اہم ممالک کے سفیروں کا ایک اجلاس اسلام آ باد میںمنعقد ہوا جو تین روز تک جاری رہا، یہ مشاورت صرف ایک جمہوری حکومت کے دور میں ہی ہو سکتی ہے ، ورنہ یہاں ایک ڈکٹیٹر مشرف بھی تھا جس نے آدھی رات کو ہی امریکی دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور مار اماری کی جنگ میں امریکی حلیف بننے کے لئے ہاں کر دی تھی۔ جمہوریت میں ایسا نہیں ہو سکتا، یہ نظام مشاورت سے چلتا ہے اور قومی اتفاق رائے سے اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے بھی یہی رویہ اختیار کیا اور ہر سطح پر صلاح مشورہ کا عمل شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہو ا کہ پاکستان نے گیدڑ بھبکیوں کو پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔
پاکستان کے خلاف جو کوئی زبان کھولتا ہے وہ ڈو مور کا تقاضہ کرتا ہے۔ اب دنیا کو پاکستان کی طرف سے ڈومور کا تقاضہ سننا پڑا ہے، ہمارے حکمرانوں نے واضح کیا ہے کہ ہم اپنی قوم کو قربانی کا بکرا نہیں بنا سکتے، یہ بھی صاف اور چٹا جواب دیا گیا کہ افغانستان کی لڑائی پاکستان کی سرزمین پر لڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دشمنوں کو یہ بھی پیغام دیا گی کہ دہشت گردوں کی کمین گاہیں ، پاکستان میں نہیں ، افغانستان میں ہیں یا بھارت میں ہیں۔ بھارتی دہشت گردی کا ثبوت تو عالی جناب بھارتی فوجی افسر کل بھوشن یادیو کی شکل میں ہمارے پا س موجود ہے، افغان دہشت گردوںنے اب تک جو تباہی پھیلائی ہے، پاکستان نے اس کے پکے ثبوت امریکہ اور نیٹو کے حوالے کر رکھے ہیں، بھارتی دہشت گردی کا مچلکہ اقوام متحدہ میں جمع کرایا جا چکا ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ مغربی سرحد سے دہشت گردوں کو روکنے کے لئے ہزاروں میل لمبی خاردار حفاظتی باڑ لگائی جا رہی ہے، یہ کام ستر برس تک نہیں ہو سکا، اس لئے نہیں ہو سکا کہ پاک افغان بارڈر کو کوئی ماننے کے لئے تیار ہی نہ تھا، اب بھی یہ آواز اٹھی ہے کہ افغان ایک قوم ہیں خواہ وہ افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں مگر وفاقی حکومت نے اس نظریئے کو ٹھکرا دیا ہے اور ڈیورنڈ لائن پر بین الاقوامی سرحد کا ٹھپہ لگا دیا ہے یہ ایک اہم سنگ میل ہے اور پاک افغان تعلقات کو معمول پر لانے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔
کابل کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے لئیے پاکستان نے اس تجویز پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں برسہا برس سے مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جلد سے جلد مکمل کیا جائے، ان لوگوں کی موجودگی میں یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کون پر امن شخص ہے اور کون دہشت گرد، افغان مہاجرین کی واپسی میں رکاوٹ صرف افغانستان بنا ہو اہے ا ور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں ہے۔
پاکستان کو ایک طعنہ یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہاں توہمارے چہیتے دہشت گرد بھی دندناتے پھرتے ہیں ،یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔پاکستان نے جب بھی کوئی فوجی آپریشن کیا ہے تو اپنے پرائے کی تمیز سے بالاتر ہو کر کیا ہے، سوات کاآپریشن ہوا، ہم نے اپنے ہی گمراہ عناصر کے خلاف کیا، اس کے ساتھ فاٹا میں بھی بے شمار فوجی آپریشن ہوئے اور یہ جو حقانی گروپ کا الزام سننے کو ملتا ہے کہ ا نہیں شما لی وزیرستان میں ہم نے پناہ دے رکھی ہے تو دنیا نے دیکھا کہ پاک فوج نے ضرب عضب کے لئے ایک تاریخ مقرر کی کہ اس تاریخ تک شمالی وزیرستان کو خالی کر دیا جائے،اس کے بعد وہاںجو کوئی رہ جائے گا، اسے دشمن تصور کیا جائے گا اور یہ بھی دنیا نے دیکھا کہ شمالی وزیرستان کے تین مقامات پر پاک فوج کو گھمسان کی جنگ لڑنا پڑی اور اس میں ہمارے جوانوں اور افسروں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
دوسری طرف حکومت پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جن تنظیموں سے امن عالم کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، وہ پاکستان میں نہیں ، افغانستان میں مورچے لگا کر بیٹھی ہیں۔اور ان کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ امریکی، نیٹو اور افغان افواج کو کابل سے باہر پورے افغانستان میں قدم رکھنے یا جھانکنے کی ہمت نہیں پڑتی۔اتحادی افواج تو پاک فوج کے مقابلے میں اسلحے، تربیت اور انٹیلی جنس میں سبقت رکھتی ہیں ، اس کے باوجود افغانستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے سامنے اتحادی افواج کی ایک نہیں چلتی۔ بس وہ اپنی بزدلی ا ور کمزوری کی پردہ پوشی کے لئے پاکستان کے خلاف من گھڑت الزامات کی تکرار کئے جا رہی ہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے جو ان تھک جدو جہد کی ، اس کا لوہا ساری دنیا مانتی ہے کہاں پاکستان میں روز خون کی ہولی کھیلی جاتی تھی اور کہاں اب یہ حال ہے کہ دہشت گرد بزدلوں کی طرح اکا دکا افراد کو نشانہ بناتے ہیں ، ورنہ پاکستان میں راوی ہر سو چین لکھتا ہے، کراچی کی رونقیںلوٹ آئی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستانی پرچم ہر جگہ لہرایا جاتا ہے، قومی نغمہ بھی وہاں کے اسکولوں میں گایا جاتا ہے اور گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک کی سڑکوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔
پاکستان ایک ذمہ دار اور مہذب ریاست ہے، وہ کسی سے تعلقات کا بگاڑ بھی نہیں چاہتا، سفیروں کی کانفرنس کا حاصل بھی یہ عزم ہے کہ ہم ٹرمپ کی دھمکیوں کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کوہائی جیک نہیں ہونے دیں گے۔
یہ منظر نامہ ا س امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان ایک باشعور ریاست ہے اور امن عالم کے لئے وہ ہر کارروائی کے لئے بھی تیار ہے مگر باقی ہمسایوں کو بھی اپنا فرض نبھانا ہو گا۔