خبرنامہ

امریکی دورے کا حاصل، مایوسی گناہ ہے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امریکی دورے کا حاصل، مایوسی گناہ ہے

وزیراعظم کے دورہ امریکہ کو ہر کوئی لاحاصل قرار دے رہا ہے لیکن مجھے اس رائے سے اختلاف ہے۔
دورے کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ وزیراعظم ایک دو روز کے لئے پاکستان کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمائیں گے اور پھر لندن کے سرکاری دورے پر روانہ ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا سری لنکا اور تھائی لینڈ کا دورہ شروع ہو جائے گا۔ امریکی دورے کی برکت ہے کہ خادم اعلی چین کی طرف چلے گئے ہیں۔ اب کوئی یہ نہ پوچھے کہ چین کا دورہ ہفتے بھرکا تو وہ پہلے ہی کر چکے اور اس میں درجنوں معاہدوں کی خوشخبری بھی سنا چکے تواب کیا لینے گئے ہیں، بھئی دور ہ دورہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کوئی لین دین بھی ہو، خیر سگالی کے لیئے دورے بھی تو ہوتے ہیں۔ ابن بطوطہ نے اتنے دورے کیئے، سوائے ہر جگہ ایک نکاح رچانے کے اس نے کیا تیر مارا، صرف ایک سفر نامہ ابن بطوطہ۔ امریکی صدر اور سرمایہ کاروں نے پاکستان کے توانائی بحران کے حل میں مدد دینے میں دلچسپی ظاہر کی، اسی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں آنے والی سردی کے مہینوں میں گھروں کو گیس صرف اس وقت ملے گی جب کھانا پکانے کا وقت ہوگا۔ اگر قوم نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے تو اسے یہ قربانی تو دینا ہوگی۔ اور واضح رہے کہ اگر بے وقت مہمانوں کے آنے کا خدشہ ہو تو اس کا ذمے دار امریکی دورہ نہیں، یہ آپ کی اپنی کم عقلی ہے۔ عقل سے کام لیا جائے تو مہمانوں کے لیے بھی کھانا پکا کر رکھا جاسکتا ہے، البتہ انہیں ٹھنڈا ہی کھانا پڑے گا۔
کھانا پکانے کے لیئے آٹا، دال، گوشت، سبزی اور دیگر الم غلم چیزیں بھی چاہئیں، اور یہ اس قدر مہنگی ہیں کہ تنخواہ دار تو شاپنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، سو اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ہذا من فضل ربی والا گھر ہوتو اس کی ہانڈی کی خوشبو پر گزارا کرنا سیکھئے اور مشام جاں کو معطر کیجئے۔
دورے کے فائدے اس قدر ان گنت ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے شروع کروں۔ چلیئے ڈرون حملوں کی بات کر لیتے ہیں، یہ کیا کم ہے کہ وزیراعظم کے بقول انہوں نے یہ معاملہ شدومد سے اٹھایا۔ امریکیوں نے تو سرکاری لائین کے مطابق جواب دینا تھا اور یہ سرکاری لائن صدر اوباما کئی ماہ قبل ایک پالیسی میں واضح کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور یمن پرڈرون حملے جاری رہیں گے اور ان کا کنٹرول حسب معمول سی آئی اے کے پاس رہے گا۔ باقی ملکوں میں بھی ڈرون حملے ہوتے رہیں گے تاہم ان کا کنٹرول پینٹاگان کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس بار یک سے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جو حملے سی آئی اے کرے گی، اس کی معلومات امریکی کانگریس کو بھی نہیں مل سکتیں لیکن پینٹاگان جو حملے کرے گا، اس کے لیئے وہ کانگریس کو جواب دہ ہوگا۔ جواب دہی کی تعریف یہ ہے کہ وہ بتانے کے پابند ہوں گے کہ کس حملے میں کون مارا گیا اور کولیٹرل نقصان کتنا ہوا، سی آئی اے کی طرف سے کیئے جانے والے حملوں کی تفصیلات تک کسی کو رسائی نہیں ہوسکتی، اس لیے پاکستان کوصرف ٹیوے ہی لگانے ہوں گے کہ کس ڈرون نے کس کو مارا اور کیوں مارا۔ سوال یہ ہے کہ اس واضح پالیسی کے ہوتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نے کلمہ حق کہنے کی جرات تو کی۔ اب ڈرون رکیں یا نہ رکیں، ان کی بلا سے، وہ حق وصداقت کی آواز بلند کرنے کا فریضہ ادا کرآئے۔
ہم کہتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے منافی ہیں اور امریکہ آگے سے پوچھتا ہے کہ جو غیر ملکی دہشت گرد آپ کے ہاں اڈے قائم کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ کون سی خودمختاری کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ با قاعدہ ویزوں پر تو نہیں آتے۔ یہ سوال سن کر ہمیں چپ سی لگ جاتی ہے۔
ہم نے اوبامہ سے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کا مطالبہ کیا، انہوں نے جواب میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی واپسی کا مطالبہ داغ دیا۔ ہم میزائل چلاتے ہیں، امریکہ میزائل شکن میزائل چلا دیتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کے دورے کا ایک حاصل یہ ہے کہ ہم نے شکیل آفریدی کو دبوچ کر رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ امریکہ اسامہ کو لے اڑا، ریمنڈ ڈیوس کوبھی اچک کر لے گیا مگر اب دیکھتے ہیں کہ وہ شکیل آفریدی کے لیئے تر پتا ہی رہ جائے گا۔ ہمارے وزیراعظم کو عافیہ کی رہائی کا مطالبہ بہت مہنگا پڑا، اس لیئے کہ شکیل آفریدی کے علاوہ اوبامہ نے حافظ محمد سعید اور بمبئی سانحے میں انکے ساتھ شریک ملزموں کو بھی مانگ لیا۔ اس پر ہمارے وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کوٹھیک کرنا ہے، اس کام کی ابتدا کراچی سے ہو چکی ہے۔ اب تو صرف اس کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔ اور اسے چوبرجی، مرید کے اور مظفرآبادتک محیط کرنا ہے۔ امریکی دورے کے نتیجے میں اگر ہم اپنے جہادی گروپوں کو نکیل ڈال سکیں تو یہ اس دورے کی بڑی کامیابی شمار ہوگی۔ بمبئی سانحے کے بعد بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک سے یہ کام کر لینا تھا مگر ہمارے چند سرفروش اور سر پھرے ہوا بازوں نے بھارتی طیاروں کو لاہور اور مرید کے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم سست الوجود ہیں اور ہر کام کرنے میں دیر کر دیتے ہیں لیکن اس کی ذمے دار ماضی کی حکومت ہے۔ اب میاں نواز شریف اپنے گھر کو ٹھیک کر کے رہیں گے۔ یہ ہے وہ عزم جو انہیں دورہ امریکہ سے ملا۔
وزیراعظم نے اوبامہ کے سامنے کشکول نہیں پھیلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مدد کی ضرورت نہیں، ہمارے ساتھ تجارت کیجئے اور اپنی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کو رسائی دیجئے۔ایڈ نہیں ٹریڈ، یہ ایک نعرہ ہے۔ اوبامہ نے اس مطالبے کو سر آنکھوں پر رکھا اور مہمان شریف کو بتایا کہ دنیا بھر میں پاکستان جس ملک کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت کر رہا ہے، اس ملک کا نام امریکہ ہے۔ اسے کہتے ہیں ترت جواب مگر یہ تو اسحاق ڈار کا فریضہ تھا کہ وزیراعظم کو اعدادوشمار سے آگاہ کرتے تا کہ ایک ایسا مطالبہ جس پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے،نہ کرنا پڑتا۔ چلیئے وزیراعظم کی معلومات میں اضافہ تو ہوا اور وہ بھی امریکی دورے کی برکت سے۔ گھر بیٹھ کر اس قدر علم تو حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر اس تجزیئے سے اتفاق کر لیا جائے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ بلکہ دونوں امریکی دوروں سے کچھ نہیں ملا، تو یہ بھی ایک مثبت علامت ہے۔ دورے کیئے بغیرتو یہ ناکام نہیں کہے جا سکتے تھے اور یاد رکھئے نپولین بونا پارٹ نے نصیحت کی تھی کہ بار بار کوشش کیجئے۔ وزیر اعظم کو اپنے دورے جاری رکھنے چاہئیں، کوئی نہ کوئی دور ہ توتکا لگنے سے کامیاب ہو ہی جائے گا۔
امریکی دورے کا واحد حاصل دال قیمہ ہے جس کی دعوت اوبامہ کو دی گئی ہے۔ مجھے دال قیمے کا آج کا بھاؤ تو کوئی بتائے۔ کیا دال قیمہ کشمیری ڈش ہے شاید نہیں، اس لیے کہ مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کے لفظ کا کہیں استعمال نہیں ہوا۔ (26اکتوبر2013ء)