خبرنامہ

امریکی ڈرون کا فیض

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امریکی ڈرون کا فیض

امریکہ نے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ کیا، کون مرا کون شہید ہوا، اس کا فیصلہ تو میڈیا کی بحث میں ہوتا رہے گامگر امریکی ڈرون نے ہمیں مولوی فضل اللہ کاتحفہ عطا کیا ہے حکیم اللہ محسود پاکستان کے قبائلی علاقے میں بیٹھ کر ہم سے برسر پیکار تھا، مولوی فضل اللہ کو امریکیوں اور نیٹو افواج نے افغانستان میں پناہ دے رکھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، 1971 میں بھارت، روس اور امریکہ کی اجتماعی پشت پناہی میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے کیمپ، سرحد پار کلکتہ کے نواح میں تھے جہاں سے انہوں نے بھارتی فوج کے جرنیل اروڑہ کی شہ پر ہلہ بولا اور پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس وقت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی قیادت مکتی باہنی کے کمانڈر انچیف کرنل عثمانی، کرنل عبدالرب اور کیپٹن خوند کر کے ہاتھ میں تھی، اب پاکستان کے خلاف جہاد کے چہرے اور نام بدل گئے ہیں مگرمشن وہی ہے۔ افغانستان میں مورچہ بند بھارتی انٹیلی جنس را، اسرائیلی موساد، امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی فائیو نئے دور کے شہیدی جتھے کی کمانڈو ٹریننگ میں مصروف ہیں۔ اور فضا سے امریکی ڈرون طیارے جلتی آگ پر میزائل نہیں، پٹرول چھڑک رہے ہیں۔
ہماری حکومت کا فوکس بھی امریکی ڈرون حملے ہیں،ن لیگ تحر یک انصاف، جماعت اسلای، جے یو آئی (ف) اور جے یو آئی (س) کی مجموی قوت ڈرون حملوں کو رکوانے پر صرف ہورہی ہے۔ فوج نے تو ایک مشق میں ڈرون مار کر بھی دکھا دیا ہے، پھر بھی ہم سمجھ نہیں پائے کہ ڈرون کیا چیز ہے، یہ پاکستان پر کیسے حملہ آور ہوتا ہے، کب تک حملہ کرتا رہے گا اور اس کا نتیجہ ہمیں کسی شکل میں بھگتنا پڑے گا۔
امریکی صدر بارک اوبامہ نے ڈرون کی نئی پالیسی دیتے ہوئے کہا تھا کہ کہ ان کا استعال اسی صورت کیا جائے گا جب ناگزیر ہو، ہدف کو نشانہ بنانے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو اور جب یہ یقین ہو کہ اس سے غیر متعلقہ لوگوں کا نقصان نہیں ہوگا۔ حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ کو جو اعدادوشمار فراہم کئے ہیں، وہ امریکی موقف کی حمایت کے لیے کافی ہیں، برسہا برس کے ڈرون حملوں میں دو ہزار کے قریب دہشت گرد مارے گئے اور صرف ستاسٹھ بے گناہ سویلین نشانہ بنے۔ اس ثبوت کے بعد جب امریکہ نے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ کیا تو اسے ہمارے وزیر داخلہ نے متنازعہ بنا دیا۔ عمران خان، منور حسن فضل الرحمن بھی میدان میں اترے اور پاکستان کے ایک مسلح دشمن کو راتوں رات ہیرو بنادیا گیا۔
حکیم اللہ محسود کو شہادت کے مرتبے پر سرفراز فرما کر، اسے امریکہ دشمن ثابت کر کے اور امن کا حامی قرار دے کر ہم نے تحریک طالبان کے بارے میں عوام کی رائے بدل ڈالی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور بے گناہ پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، انہیں امریکہ، نیٹو اور افغان افواج نظر نہیں آتیں، ان کے خودکش دہشت گردوں کو صرف پاکستانی بے گناہوں کے پرخچے اڑانے سے غرض ہے۔ وہ کامرہ میں ایک ایسا طیارہ تباہ کر دیتے ہیں جو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے فضائی دفاع کی کمان سنبھال سکتا تھا اور کراچی میں نیول بیس پرایسا طیارہ تباہ کرتے ہیں جو بحیرہ عرب میں بھارتی بیڑے کے مقابلے میں پاکستان کے ساحلوں کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری تھا۔ ان کے حملے کا نشانہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو بنتا ہے جو خطے میں بھارتی اور اسرائیلی تسلط کی راہ میں ایک یقینی رکاوٹ ہے۔ مگر چودھری نثار اور عمران خان کی ماتمی تقریروں نے سارا منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔
اب مولوی فضل اللہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان پر حملوں کی کمان کریں گے تو ہم کس منہ سے ان کی مذمت کرسکیں گے۔ کم از کم نثار عمران، منور حسن اورفضل الرحمن کے ہونٹوں سے حرف احتجاج سننے میں نہیں آ سکے گا۔ یہ نتیجہ ہے وزیر اعظم کے دورہ امریکہ میں ڈرون کے بھوت کو خواہ مخواہ اور بلا وجہ سر پر سوار کرنے کا۔ اس لیئے کہ ڈرون کا نشانہ خود ہمارے اعدادوشمار کے مطابق دہشت گرد تھے، پھر وہ ہماری خارجہ پالیسی میں ترجیح اول کیسے بن گئے اور جب بن گئے تو پھر وہی ہونا تھا جو ہورہا ہے اور اب ہم نے مولوی فضل اللہ کوبھگتنا ہے، پہلے اس کے پاس صرف ایک ریڈیو کی طاقت تھی، اب پاکستان تحریک طالبان کی پوری طاقت انہیں میسر ہے۔ جسے ہماری اے پی سی کے سقراطوں اور بقراطوں نے برابر کا اسٹیک ہولڈر قرار دے دیا تھا۔
ایک ڈرون نے قیامت کھڑی کر دی ہے مگر اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے اس سیاست کی جوڈرون حملوں پر کی جاتی رہی ہے۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ حکومت پاکستان نے پہلے تو ڈرون حملوں کے لیئے اڈے بھی فراہم کیئے، پھر یہ بھی راز کھلا گیا کہ حکمرانوں نے امریکیوں سے کہا کہ تم ڈرون مارتے رہو، ہم اپنے عوام کے سامنے احتجاجی بیان دیتے رہیں گے۔ یعنی پاکستانی عوام کو ان کے حکمرانوں نے بے وقوف بنائے رکھا۔ کیا موجودہ حکومت نے یہ دوہری پالیسی ترک کر دی ہے، اس کا یقین تب آئے گا جب وزیراعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ وضاحت کریں کہ اب امریکیوں کو ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اور اگر ڈرون رکوانے کے لیئے نیٹو سپلائی کو روکنا ضروری ہے تو پہلے جناب وزیراعظم نیٹو کے ایک ملک سے اپنے بڑے صاحبزادے کو واپس ملک میں بلائیں، اسی ملک سے عمران خان بھی اپنے بچوں کو واپس پاکستان لائیں یا ان سے لاتعلقی کا اعلان کریں، اور وزیر داخلہ بھی ان افواہوں کی وضاحت کریں کہ ان کے بیوی بچوں کے پاس کس ملک کی شہریت ہے اور اگر ہے تو وہ پہلے اس شہریت کو سرنڈرکریں اور پھر وہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی پر سیاست کرتے اچھے لگیں گے۔ یہ کھوج لگانا بھی ضروری ہے کہ ڈرون حملوں کے ٹارگٹ کی نشاندہی کون کرتا ہے۔ کیا امریکی سی آئی اے یہ کارنامہ انجام دیتی ہے شکیل آفریدی کی طرح کے کنٹریکٹرز کے ذریعے یا براہ راست ان کے اپنے جاسوس ہماری سرزمیں پرگھومنے پھرنے میں آزاد ہیں، کیا وزیر داخلہ پہلی فرصت میں ان جاسوسوں کے ویزے منسوخ کریں گے جنہیں مبینہ طور پر سابق سفیر واشنگٹن حسین حقانی نے پاکستان میں داخلے کی سہولت فراہم کی تھی۔
سب سے بڑا سوال، کیا پاکستان آج بھی وار آن ٹیرر میں امریکہ کا حلیف ہے۔ اگر نہیں تو پھر وہ ایسی رقم کیوں وصول کر رہا ہے جواسی خدمت کے عوض ادا کی جاتی ہے۔ اور گلا پھاڑ کر امریکہ دشمنی کے نعرے لگانے والے۔ امریکی عوام کے تعاون سے۔۔ یو ایس ایڈ کے ڈالر کیوں ہڑپ کرنے میں مشغول ہیں۔
نیٹومما لک کا سردار برطانیہ ہے، اس کے سابق وزیراعظم گورڈن براؤن کے اربوں پاؤنڈز کے فنڈ سے فیض یاب ہونے کے لیے ہم کیوں قطار بنائے کھڑے ہیں۔
ڈرون کے فیض سے ہرکوئی فیضیاب ہونے کے لیئے بے تاب ہے صرف مولوی فضل اللہ کو برا کیوں کہا جائے۔ (9 نومبر 2013ء)