خبرنامہ

امن کی آشا تحریک انصاف ہوش کے ناخن لے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

امن کی آشا تحریک انصاف ہوش کے ناخن لے

گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہرکا رخ کرتا ہے۔ پاکستان میں کسی میڈیا گروپ یا سیاسی لیڈر کی مت ماری جائے تو وہ امن کی آشا کا علم بلند کر دیتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی پرندہ نہیں، ایک کھلاڑی تھا اور صرف کرکٹ کھیلنا جانتا ہے، اسے سیاست کے کھیل کا سرے سے اتا پتا نہیں۔ ان دنوں وہ بے حد سرگرم اور فعال ہے اور اس کی تڑپ پھڑک دیکھنے کے لائق ہے۔
ایک طرف عمران خان نے مخصوص میڈیا گروپ پر چڑھائی کر رکھی ہے جو امن کی آشا کا سرغنہ ہے، دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ امن کی آشا کے تو ہم بھی حق میں ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں اس نے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے اور اب ان کے ایک اور لیڈر شفقت محمود نے کہا ہے کہ وہ امن کی آشا کے ساتھ ہیں اور اس پر انہیں کوئی افسوس بھی نہیں۔ یہ صاحب اس پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں اور حسن اتفاق سے الیکشن میں دھاندلی کی شکایات کے باوجود جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں۔ اگر ان کے خلاف بھی کسی نے سٹے لے لیا ہوتا تو یہ حضرت بھول کر بھی امن کی آشا کا نام نہ لیتے، بس کسی نہ کسی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے ہوتے۔
امن کی آشا والوں کی دلیل کیا ہے۔ یہی نا کہ ہمسایوں سے تعلقات بہتر ہونا چاہئیں۔ اس سے کسی کو انکار کی مجال نہیں مگر کیا ہمارا ہمسایہ بھی امن کی آشا رکھتا ہے اور کیا صرف بھارت ہی ہمارا ہمسایہ ہے۔ چین،ایران اور افغانستان نہیں کیا ان کے ساتھ دوستی کے لئے کسی نے کوئی سفیما تشکیل دیا۔ ان ملکوں سے آگے ایک طرف وسط ایشیا ہے اور دوسری طرف خلیجی ریاستیں اور عرب اسلامی ممالک۔ ان کے ساتھ دوستی کے لیئے کون سی سفیما سرگرمی دکھائی۔ یا کونسا ٹی وی چینل اس ایجنڈے کے ساتھ میدان میں کودا۔ کوئی ایک بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے، ایک تو یہ کہ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھارتی را کی طرح خزانوں کے منہ نہیں کھولتیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ باقی تمام ہمسائے پاکستان کو ایک طفیلی اور باجگزار ریاست بنانے کے شوق میں مبتلا نہیں ہیں۔ بھارت صرف فنڈ ہی نچھاو نہیں کرتا، شراب اورحسن کے جام بھی چھلکاتا ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ن لیگ اور پی پی پی بھی امن کی آشا کے نشے میں مست ہے۔ ہمارے وزیراعظم ننانوے سے بھارت پر مرے جارہے ہیں، انہوں نے بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی کو وا بگہ کے راستے لاہور بلایا اور امن کا راگ الاپا اگر در میان میں کارگل نہ ہوتا تو یہ بیل منڈھے چڑھ چکی ہوتی اور امرتسر، گورداسپور ہوشیار پور، نکودر اور جاتی عمرا کے مہاجر واپس اپنے گھروں میں جا آباد ہوتے اور ہندو برمن کے ملیچھ بن چکے ہوتے۔
اب وزیر اعظم کو ایک موقع اور ملا ہے۔ وہ انتخابی مہم چلارہے تھے کہ ان کے سر پر بھارت کے عشق کا بھوت سوار ہوگیا۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کوشریک ہونا چاہئے، خواہش پوری نہ ہوئی تو فرمایا کہ میں خود بھارت جاؤں گا، خواہ کوئی بلائے یا نہ بلائے، یہ خواہش بھی حسرت بن گئی۔ پھر تیسری خواہش نے انگڑائی لی کہ پاک بھارت سرحد یورپی طرز پر کھلی ہونی چاہئے اور واہگہ بارڈر پر دن رات ٹرکوں کی قطاریں نظر آنی چاہئیں۔ بھارت کے عوام نے ہمارے وزیراعظم اور امن کی آشا والوں کو اپنے نئے الیکشن میں نریندر مودی کا تحفہ پیش کیا ہے۔ کہ یہ لو، اس دیوار گریہ سے ٹکریں مارتے رہو۔
کراچی میں ایک صحافی حامد میر زخمی ہوا اور اس کے ردعمل میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو نشانہ بنایا گیا تو قوم میں ایک واضح تقسیم نظر آئی۔ ایک طرف مخصوص میڈ یاتھا اور حکومت بھی اسی کے ساتھ نظر آئی اور دوسری طرف پوری قوم تھی۔ یہی وہ ماحول ہے جس نے عمران خان کو شہ دی اور وہ لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑا، اس نے ہر ایک کو صلواتیں سنائیں اور اس میڈ یا کو بھی جو اس کے خیال میں الیکشن دھاندلی میں ملوث تھایا بیرونی ملکوں سے پیسے لے کر ان کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا تھا، عمران خان کی بات کو عوام نے پذیرائی نہیں بخشی، اس لیئے کہ اس کی بات میں کوٹ ملا ہوا تھا۔ وہ جس میڈیا کے خلاف بات کر رہا تھا، اس کے مبینہ بیرونی ایجنڈے کی خودبھی حمایت کر رہا تھا، اب عمران کے ساتھ کون کھڑا ہوگا، وہی جو مخصوص میڈیا کے ایجنڈے کی حمایت کرے مگر جو لوگ بھارت سے امن کی آشا کو غداری تصور کرتے ہیں اور جس کا اظہار برملا طور پر جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیاپر کیا جا چکا ہے، وہ عمران کے دوغلے پن کا ساتھ کیوں دیں گے۔ عمران خان کا سارا کیا کرایا کھوہ کھاتے چلا گیا۔ وہ ہر مہینے واویلا مچانا چاہتے ہیں ضرور مچائیں، یہ ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے مگر پاکستانی قوم امن کے آشا والے ایجنڈے کی وجہ سے ان سے بہر حال کترائے گی اور عمران خان یوسف بے کارواں بن کر جائیں گے،نہ گھر کانہ گھاٹ کا۔ اگر انہیں عوام کی ہمدردی جیتنی ہے تو وہ عوام کے ایجنڈے کو قبول کریں اور بیرونی ایجنڈے کا ساتھ چھوڑیں، امن کی آشا کا کھرا امریکہ جا نکلتاہے۔ ٹریک ون اور ٹریک ٹو کی چالبازیوں کو ہر کوئی اچھی طرح سمجھتا ہے اور بھارتی شردھالو جو بھی نقاب اوڑھ لیں عوام ان کے فریب میں آنے والے نہیں۔
میں عمران کو پتے کی ایک بات بتاتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ امن کی آشا کے لیئے بھارت میں تڑپ پیدا ہوگی۔ بھارت کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہو جائے گی۔ پاکستان اس خطے میں عالمی طاقتوں کی ضرورت بن چکا، امریکہ اس وقت پاکستان پر فریفتہ ہورہا ہے۔ اسے افغانستان سے انخلا کے بعد یوکرائن کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ چیلنج چین کے لیے بھی ہے اور نیٹو طاقتوں کے لیے بھی۔ عالم عرب میں شام کا بحران ابھی ٹلا نہیں اور سعودی عرب اور بحرین بھاگے بھاگے پاکستان آرہے ہیں۔ پاکستان کے پاس کوئی تو گیدڑسنگھی ہے اور یہ ہے پاک فوج اور اس کی آئی ایس آئی۔ سعودی عرب میں جدید ترین اسلحہ کا ڈھیر ہے مگر اسے چلانے والا کوئی نہیں، وسط ایشیا میں روس کے سامنے صرف پاکستان ہی تزویراتی توازن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ بھارت اس کھیل میں کہیں دور دراز بھی دکھائی نہیں دیتا۔
آنے والا وقت پاکستان کے فائدے میں ہے اور اس کے لیئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے، پاک فوج کی اسی طاقت کو پنچر کرنے کے لیئے امن کی آشا کا ایجنڈا تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ عمران کو کرنا ہے کہ وہ کس کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں، دو کشتیوں میں سواری انہیں غرق تو کر سکتی ہے، کنارے نہیں لگا سکتی۔ کاش! ان کی جماعت ہوش کے ناخن لے۔ مانا کہ تحریک انصاف میں ایک طبقہ بہت لبرل ہے ممی ڈیڈی، پپو برگر کلاس مگر نوجوان تعلیم یافتہ نسل پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہی عمران کو لگام دے سکتے ہیں۔(16 مئی 2014ء)