خبرنامہ

امید آشنا کے ساتھ ایک اور شام۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
اہل علم و فضل کی صحبت ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔زندگی میں کامیاب افراد ضروری نہیں کہ اہل علم میں بھی ان کا شمار ہو اور زیادہ تر اہل علم عام زندگی میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے مگر میاں عبدالمجید ہر لحاظ سے ایک کامیاب انسان ہیں اور ان پر اللہ کا فضل ہی فضل ہے، وہ اپنی خوش قسمتی پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
نوائے وقت کے انتہائی مقبول کالم نور بصیرت کے لکھاری میاں عبدالرشید کا بھائی ہونا ان کی اضافی خوبی ہے ۔ان کی آواز میں وہی گھن گرج ، وہی طنطنہ، اور گفتگو میں وہی گہرائی ، سوچ اور فکر میں وہی سنجیدگی۔ جو میاں عبدالرشید کی طبیعت کا خاصہ تھی۔
ہفتہ عشرہ پہلے وہ کراچی سے تشریف لائے تو یہ ان کا بڑا پن تھا کہ مجھے یاد کیاا ور اپنے ساتھ آبائی گاؤں کلاسکے لے گئے،اگلے روز ان کے ساتھ ڈاکٹر رفیق احمد تھے، اب کلاسکے کالج میں کوئی تقریب ہے اور وہاں سے و اپس آئیں گے تو پوچھوں گا کہ اس بار کس نے ان کے گاؤں میں قدم رنجہ فرمایا۔
میں نے کوشش کی کہ ان کی لاہور آمد پر بدھ کے روز ہی ایک محفل ترتیب دوں اور ان کے اعزاز میں اپنے غریب خانے پر ڈنر کاا ہتمام کروں، اس کے لئے میں نے لیفٹننٹ جنرل غلا م مصطفی اور پروفیسر سید محفوظ قطب کو بھی مدعو کیا، شومی قسمت سے قطب صاحب، فلو کی زد میں آ گئے ا ور بدھ کے روزبھارت نے لائن آف کنٹرول کو ادھیڑ کر رکھ دیا ، ا سلئے جنرل مصطفی کی مانگ ٹی وی چیبلز پر بڑھ گئی، میاں عبدالمجید صاحب کی خدمت خاطر بس اکیلے مجھ کو کرنا پڑی، وہ تو خیر اپنی بساط کی حد تک میں نے ہی کرنا تھی مگر گفتگو کے قابل تو میں اپنے آپ کو نہیں سمجھتا تھا، اپنی کم علمی اور جہالت کو چھپانے کے لئے میں چند پڑھے لکھے، تجربہ کار دوستوں اور بزرگوں کا سہارا لیتا ہوں۔
ایک ستم ظریفی یہ ہوئی کہ میاں صاحب نے سوالوں کی بوچھاڑ بھی مجھ پر کرد ی ۔ تازہ تریں المیہ کنٹرول لائن کاتھا، جہاں ایک کیپٹن اور دو فوجیوں سمیت گیارہ لاشیں تڑپیں۔ میاں صاحب نے پوچھا کہ کیا امن کے قیام کی کوئی امید کی جا سکتی ہے،اس سوال کا بہتر جواب تو جنرل مصطفی ہی دے سکتے تھے، میں نے کہا کہ ایک سازشی تھیوری ہے کہ بھارت میں ایک طبقہ جنرل راحیل شریف کونیچا دکھانا چاہتا ہے، ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے اور اگرا س تھیوری پر یقین کر لیا جائے تو پھر امید کی جانی چاہئے کہ پاک فوج کی کمان میں تبدیلی سے کنٹرول لائن پر امن قائم ہو جائے ا ور لوگوں کے اندیشے ختم ہو جائیں گے لیکن بھارت پھر بھی باز نہ آیا تو پھر ہمیں اس کے عزائم کا اندازہ لگانے کے لئے محنت نہیں کرناپڑے گی بلکہ دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرناہو گا، بھارت ایسابھوت ہے جو باتوں سے نہیں لاتوں سے مانتا ہے، جیسے وہ ہمارے فوجیوں کو نشانہ بناتا ہے، اسی طرح ہمیں بھی اس کے فوجیوں کو تاک کر نشانہ بنانا ہو گا، میں نے وضاحت کی کہ میں جنگ جو نہیں مگر یہ رائے ٹاک شوز میں دفاعی ماہرین کی طرف سے آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کی دشمن ہماری امن پسندی کو کمزوری اور بزدلی پر محمول کر رہا ہے، ہر چند ہم کہتے رہیں کہ نہ ہم کمزور ہیں ، نہ بزدل ،مگر عملی طور پر ہم مار ہی کھاتے چلے جا رہے ہیں ، بھارت کو ایک حد سے آگے روکنا ہو گا۔ میاں صاحب نے بات کراچی کی طرف موڑدی، ان کا موقف تھا کہ اس شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے، فوج اور رینجرز نے وہاں کمال کر دکھایا اور یہ ایک معجزہ ہے کہ کراچی کا عام آدمی اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا ہے، میں نے پوچھا ،کیا امن صرف عام آدمی کی ضرورت ہے، کہنے لگے نہیں ، یہ ضرورت ان لوگوں کی بھی ہے جو بد امنی پھیلانے میں پیش پیش تھے مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھی بدلے ہوئے کراچی سے خوش ہیں، بہر حال تاجر ، صنعتکارا ور سرمایہ کار طبقہ تو امن کی دعائیں کرتا رہا ہے، کراچی ملک کا صنعتی، تجارتی اورمالیاتی اعصابی مرکز ہے، اس کو محفوظ بنانا ملک کی تقدیر کو بدلنے کے مترادف ہے۔
میاں صاحب میرا ٹیسٹ لینے پر تلے ہوئے تھے۔ پوچھنے لگے کہ ٹرمپ کیا کرنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ دنیا نے ا سے سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ ایک ایکٹر شخص تھا، الیکشن جیتنے کے لئے اس نے خوب اداکاری کی ا ور ایساخوف و ہراس پھیلایا کہ کوئی بھی ا س کی جیت کی توقع نہیں کر سکتا تھا، اسی لئے نتیجہ آیا تو سب ششدر رہ گئے۔
مگر وہ دنیا کے ساتھ کرے گا، میاں صاحب نے اپنا سوال دہرایا۔ میں نے کہا کہ جنگل میں شیر سے سامناہو جائے تو جو کرنا ہے، شیر نے کرنا ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے وہ اپنی دھمکیوں کے آدھے حصے پر بھی عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں، اپنے ہمسایوں کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا امریکہ اس کا حامی نہ ہو۔ لوگ اس پر ریفرنڈم کا مطالبہ کر سکتے ہیں، امریکہ میں غیر ملکی، صرف مسلمان ہی نہیں ، ہسپانوی بھی ہیں اور وہ بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔خود وہ لوگ جو آج امریکی بنے پھرتے ہیں، وہ غیر ملکی ہیں، انہوں نے اصل امریکیوں کو جو ریڈ انڈین تھے، انہیں قعر گمنامی میں دھکیل دیا ہے۔ ٹرمپ خود غیر ملکی ہے اور مہاجر ہے، اس کی بیوی بھی مہاجر ہے، اوبامہ بھی مہاجر تھا، تو سب کو نیست و نابود کرنا ممکن نہیں ۔
پتہ نہیں میاں صاحب کو کیا سوجھی ، پوچھنے لگے کہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی نے انسانیت کی کیاخدمت کی ہے۔ اب میں نہ تو جدید علوم کا شناور ہوں ،نہ جدید ٹیکنالوجی کے اسرار ورموز کو نباض ہوں ۔ اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کا نام تو جدید ٹیکنالوجی نہیں، میں کیا جواب دیتا ،مگر میں نے کہاکہ ایک وقت تھا جب مسلمان صاحب علم تھے، ہمیں توپہلی وحی میں اقری کا درس دیا گیا، جب تک ہم نے علم کو شعار بنائے رکھا، ہم دنیا پرحاوی رہے ہم مہذب تھے، تمدن میں آگے تھے ۔مگر بغداد کے مدرسے اورکتب خانے ہلاکو اور چنگیز نے برباد کر دئے، اندلس کے کتب خانے یورپ نے چور ی کر لئے اور ان سے کسب فیض کر کے اپنے آپ کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا،اس سے تمدن، اور تہذیب نے یورپ میں ٹھکانہ کر لیا، امریکہ نے ا س میدان میں زقندیں بھریں اور اب جاپان، سنگا پور، ہانگ کانگ،جنوبی کوریا ،ملائشیا حتی کہ تھائی لینڈ، ویت نام اور کمبوڈیا بھی ہم مسلمانوں کو پچھاڑ چکے ہیں۔میاں صاحب نے کسی جام جم میں جھانکتے ہوئے کا کہ ٹیکنالوجی انسان کی زندگی میں محیر العقول انقلاب برپا کرنے والی ہے۔ایک جوان لڑکی نے سرطان کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے سے پہلے وصیت کی کہ ا سکے بدن کو فریز کر دیا جائے، شاید کبھی سرطان کا علاج دریافت ہو جائے اور اسے بھی زندگی مل جائے۔ا س کی موت کے بعدا سکی وصیت عدالت میں پیش کی گئی، عدالت نے ا سکی خواہش کااحترام کرنے کے حق میں فیصلہ دیا۔یہ واقعہ ایک نئی امید کی راہ دکھاتا ہے۔ انسان مرتا تب ہے جب اس کی امید مر جائے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی نے مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا دی ہے ، اب سرنگ بند نظر نہیں آتی، دوسرے سرے پر روشنی پہی روشنی ہے، اور آگے ایک نیا ، بہتر اور روشن مستقبل!!
امید آشنا کے مصنف سے یہی منطق سننے کی آرزو تھی، وہ پوری ہو گئی۔