خبرنامہ

اوبامہ شریف فوٹو سیشن

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اوبامہ شریف فوٹو سیشن

بس چلتا تو نواز شریف اپنے بیرونی دوروں کی اننگز کا آغاز بھارت کے سفر سے کرتے۔ پاکستانی حکمران عام طور پر پہلے پہلے سعودیہ جانے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں روحانی بیٹری بھی چارج ہو جاتی ہے اور جیب بھی گرم ہو جاتی ہے۔ نواز شریف کی دونوں خواہشیں ادھوری رہ گئیں۔
اس کے لیے اگر کسی کو موردالزام ٹھہرایا جا سکتا ہے تو وہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ہیں جوکئی ملکوں کے سفر پر نکلے لیکن پاکستان کونظرانداز کرتے ہوئے نئی دہلی جا پہنچے۔ نواز شریف نے اس توہین کا بدلہ اتارنے کے لیے چین کے دورے کا پروگرام بنا لیا۔ اس طرح پاک امریکہ تعلقات ابتدا ہی میں پٹڑی سے اتر گئے۔
دوسری طرف چار پانچ ماہ کے اقتدار میں نواز شریف ابن بطوطہ بن گئے۔ چین،سعودی، ترکی، امریکہ کے دوروں کے بعد وہ پھر عازم امریکہ ہو گئے ہیں، وہاں سے واپسی پرلندن کا دورہ ان کا منتظر ہے۔ عام پاکستانی کو معلوم نہیں کہ ان دوروں کا ملک اور اس کے عوام کا کیا بھلا ہوا۔
چند ہفتے قبل ہمارے وزیراعظم امریکہ ہی میں تھے۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات معمول کے مطابق ہوتے تو اوبامہ، شریف ملاقات جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہی ہو جاتی، پچھلے دور میں صدر کلنٹن سے شریف کی دو ملاقا تیں یکے بعد دیگرے جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران ہی ہوئیں کلنٹن سے ایک ملاقات کارگل میں جنگ بندی کے لئے ہنگامی طور پرکرناپڑی۔ سولہ برس بعد امریکی صدر نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا، اس کی وجہ پاکستان کے نئے وزیراعظم نہیں بلکہ خود امریکہ کا پاکستان سے وہ سلوک ہے جو ایبٹ آباد اور سلالہ میں پاکستان کے ساتھ روا رکھا گیا۔ ڈرون حملے بھی دونوں ملکوں کے درمیان خلیج وسیع کرنے کا باعث بنے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ گیا۔ اوپر سے افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے بعد کا بل کا مستقبل بھارت کے حوالے کیا جارہا ہے۔
اوبامہ صاحب نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے لیئے خاص طور پر وقت نکالا۔ اور نواز شریف کو وعدہ فردا پر ٹرخا دیا۔
اس پس منظر میں کوئی با غیرت پاکستانی حکمران واشنگٹن کے ناز نخرے اٹھانے کے لیئے تیارنہیں ہوسکتا تھا۔ نواز شریف کو امریکہ کے ساتھ جور و یہ اختیار کرنا پڑا، وہ ان کی مجبوری تھی۔
اگلے چند روز میں اوبامہ، شریف فوٹو سیشن تو ہو جائے گا مگر یہ سعی لاحاصل ہے، امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیئے۔
پاکستان کو کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ درپیش مسائل کے لیئے امریکہ کوئی چارہ گری کرے گا۔ توانائی کا بحران، ڈرون حملے، دہشت گردی۔ یہ تین بڑے مسائل ہیں لیکن امریکہ کے پاس پاکستان کے لیئے کوئی سوغات موجودنہیں۔
امریکہ کو پاکستان سے سردست کیا درکار ہے، افغان فوجوں اور جنگی سامان کی واپسی کے لیئے طالبان سے بات چیت کا ڈرامہ کر کے ایک سازگار ماحول اور فاٹا میں موجود انتہا پسندوں کی بیخ کنی۔ امریکہ کی ایک دیر ینہ خواہش یہ بھی ہے کہ علاقے میں بھارتی بالا دستی کو پاکستان قبول کرلے۔ عام حالات میں نواز شریف اس کے لیئے تیار تھے مگر کنٹرول لائن پر پاکستانی فوجیوں اور آزادکشمیری شہریوں کی شہادت، بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرم سر پرستی جس کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے اور شہباز شریف کی ناک تلے،لاہور کی پرانی انارکلی تک میں بم دھماکوں کی ذمے داری بلوچ قوم پرست قبول کر رہے ہیں جنہیں بھارت کی شہ حاصل ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے بس میں نہیں کہ بھارت کی اس خون گردی کو فراموش کر سکیں۔ تو پھر اوبامہ، شریف ملاقات کا ایجنڈا کیا ہوگا۔ امریکہ نے جو دینا تھا، اس کا اعلان تو خاموشی سے کر دیا۔ اور یہ نواز شریف کے دورے کی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ امریکہ کی اس امر کے لیئے کوشش ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت ممونیت (مطلب صدرممنون نہیں) میں امریکی احکامات پر بلا چون و چراعمل کرتی رہے۔ ایک اعشاریہ چھ بلین ڈالر کی امدادکی غرض و غایت اور کوئی نہیں۔
دیکھا جائے تو خود نواز شریف نے بھی امریکی دورے کو کامیاب بنانے کے لئے کوئی دوڑ دھوپ نہیں کی،نہ کوئی وزیر خارجہ ہے جو اس پر کام کرتا، نہ واشنگٹن میں کوئی سفیر تعینات کیا گیا، یہ دار الحکومت اس قدر بھی غیر اہم نہیں تھا، معاملہ واشنگٹن کا ہے۔ کٹھمنڈو کا نہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے معاملات کا بڑا پہلو دفاعی نوعیت کا ہے لیکن نہ جنرل کیانی کا کوئی جانشین نامزد کیا گیا ہے، نہ جائنٹ چیف کی خالی کرسی پر کسی کو بٹھانے کی ضرورت سمجھی گئی۔ امریکہ میں پینٹاگان کو کچھ معلوم نہیں کہ اسے راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں کسی ٹیم کے ساتھ کام کرنا ہے۔ تو نواز شریف جوخودی وزیراعظم ہیں، خود ہی وزیر دفاع اور خودی وزیر خارجہ بھی کیا امریکہ اس ایک فرد کے ساتھ معاملات طے کرے گا، ہاں وہ کر لیتا اگر نواز شریف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے۔
امریکہ سے اکیلے پاکستان کے تعلقات میں دوری نہیں آئی، سعودی عرب بھی اس کی پالیسیوں پر بر افروختہ ہے اور اس نے احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل میں جیتی ہوئی نشست سنبھالنے سے فی الوقت معذرت کر دی ہے۔ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا احیا ضرور ہو رہا ہے لیکن اس سے عرب دارالحکومت بپھر گئے ہیں۔ امریکہ کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کے صدر پوتوں نے بھی للکارا مار دیا ہے۔ اور تو اور امریکی کانگریس کے تیور بھی بگڑے ہوئے ہیں اور اس نے بجٹ کی نا منظوری سے دو ہفتوں تک اپنی حکومت کو مالی طور پر شل کر کے رکھ دیا تھا۔
صدر اوبامہ اس زخمی حالت میں کمزور اقوام پر جھپٹنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان معاشی طور پر بے دست و پا ہو چکا ہے، دہشت گردی کے عفریت نے جسدقومی کی رگوں سے لہو نچوڑ لیا ہے۔ ہمارے پاس ایک ایٹمی قوت بچی ہے جس پر امریکہ اسرائیل اور بھارت کی حریصانہ نظریں جمی ہیں۔ نواز شریف کو امریکی صدر کی آنکھوں میں جھانک کر ان کے عزائم پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر رتی بھر شبہ پڑے تو وہ واپس آ کر قوم کو درپیش خطرات کے مقابلے کے لیئے تیار کریں۔
اگلے برس تک بھارت میں بھی ایک دہشت گرد اور انتہا پسند شخص نریندر مودی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ یہی وہ سال ہے جب کابل سے امریکی اورنیٹو افواج بھی رخصت ہو جائیں گی اور پاکستان کی پشت بھی ننگی ہو جائے گی۔ نواز شریف کو دور بینی اور دور اندیشی کے ذریعے ان حالات سے نپٹنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اگر شہباز شریف، اسحاق ڈار، حمزہ شہباز، سلمان شہباز یا شریف خاندان کے کسی فرد میں ان قیامتوں کو ٹالنے کی صلاحیت ہوتی تو آئین پاکستان میں جمہوری نظام کو اپنانے کی پابندی نہ ہوتی۔ قوموں کو لاحق خطرات کا مقابلہ ایک قومی قیادت ہی کرسکتی ہے، یہ کسی ایک خاندان کے بس کی بات نہیں۔
پاکستان کو عالمی استبداد سے محفوظ کرنا ہے تو ملک میں خالص اور طاقتور جمہوری نظام لانا ہوگا اور پوری قوم کو قیادت کے پیچھے کھڑا کرنا ہوگا۔ امریکی صدر سے فوٹو سیشن ہو گیا، اب وزیر اعظم، ملک میں عوام کے ساتھ بھی فوٹو سیشن کریں۔(21اکتوبر 2013ء)