خبرنامہ

اوبامہ کے منہ میں بھارت کی زبان

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اوبامہ کے منہ میں بھارت کی زبان

نواز شریف کے سفرامر یکہ کے محاسن کا تذکرہ تو ان کے دیہاڑی دار کالم نویسی کریں گے۔ مجھے ان قصیدہ نویسوں سے ہمدردی ہے کہ ان پر سرکاری مناصب کی نوازشات نہیں ہوئیں لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، یہ لوگ قلم گھسائی میں پورے انہماک سے مگن ہیں۔
میں نے اتنی بے چینی سے اخبارات کا بھی انتظارنہیں کیا، اسی بے چینی میں رات کے دو بجے میری آنکھ کھل گئی۔ ٹی وی آن کیا۔ اوبامہ اور شریف آمنے سامنے بیٹھے تھے، اوبامہ صاحب کے لب و لہے میں بے اعتنائی تھی، ان کی باڈی لینگوئج بھی اس امر کی غمازی کر رہی تھی کہ وہ کسی ایسے سین میں پھنس گئے ہیں جس میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں شریف صاحب کے ہاتھ میں ایک بے ڈھنگی سی نوٹ بک تھی جو عام طور پر ہمارے اخباری رپورٹروں یا دفتری اسٹینوگرافروں کے استعمال میں رہتی ہے، ان کی نظر یں اسی پر جمی رہیں اور وہ کسی کی آنکھ سے آنکھ ملائے بغیر بولنے کی کوشش کررہے تھے۔
وزیراعظم شریف نے امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران تو انگریزی میں گفتگو کی، اور یہ نوے منٹ پر محیط تھی، اپنے اپنے اسٹیمنا پرمنحصر ہے۔ بعد میں میڈیا کیساتھ اردو کا استعال کیا۔ امریکی میڈیا کو بتانے کے لیئے ان کے پاس کچھ ہوتا تو وہ لازمی طور پرانگریزی کا سہارا لیتے مگر اردو میڈیم اخبارنویسوں کو زیادہ سہارے کی ضرورت تھی۔
صدر اوبامہ نے وزیراعظم شریف سے کچھ وقت تو اپنی زبان میں بات چیت کی لیکن زیادہ تر وہ بھارتی زبان میں بولتے رہے۔ کوئی پوچھے کہ اگر کشمیر کے مسئلے میں امریکہ یا کوئی تیسرا ملک مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتا تو بمبئی سانحے کی تحقیقات میں وہ ٹانگ کیسے اڑا سکتا ہے۔
مگر اوبامہ صاحب نے مداخلت ضروری سمجھی، یہ پٹی انہیں بھارتی وزیراعظم ان سے حالیہ ملاقات میں پڑھا آئے تھے۔ اوبامہ نے کٹھ پتلی کی طرح وہ سب کچھ اگل دیا۔ اور وزیر اعظم شریف سے استفسار کیا کہ حافظ سعید اور بمبئی سانحے کے دیگر ملزموں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا۔
اوبامہ صاحب نے ایک سواسی ڈگری پر ٹرن لیتے ہوئے مہمان سے یہ بھی سوال کیا کہ وہ امریکہ کے خادم خاص ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کیفر کردار تک کیوں پہنچانا چاہتے ہیں اور اپنے نام کا لحاظ کرتے ہوئے انتہائی شرافت سے شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے۔
اس ملاقات میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا بھی ذکر ہوا مگر کس پیرائے میں اور طے کیا ہوا، اس پر خاموشی طاری ہے۔ وہ کب تک امریکی جیلوں میں گلتی سڑتی رہے گی اور ڈاکٹر شکیل، ریمنڈ ڈیوسں کی طرح کب اڑن چھو ہو جائیں گے، اس پر جو بھی فیصلہ ہوا، اس کا ذکر دونوں ملاقاتیوں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا مشترکہ اعلامیہ بھی اس پر خاموش ہے۔ جانے کو تو ملالہ بھی چلی گئی بلکہ لے جائی گئی، آپریشن تو پاکستان میں ہوگیاتھا اور کامیاب رہا تھا، اس کے پیچھے اس کا باپ بھی چلا گیا اور ساتھ زخمی ہونے والی کائنات بھی۔ پیچھے کون رہ گیا۔ وہ جنہوں نے ملالہ اور کائنات کو نشانہ بنایا۔ ہم ان سے مذاکرات کریں گے اور ملالہ وزیراعظم بننے کے لیے واپس آئے گی، پوری طرح تجربہ کار ہوکر۔
نواز شریف کے پاس ایک ہی ترپ کا پتا تھا کہ صدر کلنٹن کے دستخطوں سے جاری ہونے والے اعلان واشنگٹن کی رو سے جناب اوبامہ سے اصرار کر کے کہتے کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لیئے ذاتی طور پر مداخلت کریں۔ میں نے مشترکہ اعلامیہ کو محدب عدسے کے ذریعے کنگال مارا ہے، مجھے اس میں کشمیر کا لفظ تک نہیں ملا۔ البتہ اس میں انڈیا کا لفظ تین بار استعمال ہوا ہے۔ پہلے تو اس گیس پائپ لائن کا ذکر ہے جو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان سے ہوتی ہوئی بھارت پہنچے گی، ساتھ ہی اس نوع کے ایک بجلی کے ترسیلی نظام کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے اختتامی پیراگراف میں پاک انڈیا دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے پر زور دیا گیا ہے اور اعلامیہ کی آخری سطر میں ایک بار پھر پاک بھارت معاشی تعلقات کے فروغ، بھارت سے پاکستان کو بجلی اور گیس کی فراہمی، ویزا کے اجرا میں نرمی، تجارت کو وسیع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، اس پر اعلامیہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ اعلامیہ پاکستان اور امریکہ کی قیادت کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہوا ہے یا پاکستان اور بھارت کی قیادت کی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، یہی باتیں کہنا تھیں تو ان کے لیئے نواز شریف کو دوبارہ عازم امریکہ ہونے کی کیا ضرورت تھی تو بھارت کی وہ ضد کہاں گئی کہ پاک بھارت معاملات میں کسی تیسرے فریق کو مداخلت کا حق نہیں۔
اور امریکہ کا وہ موقف کہاں گیا کہ پاکستان اور بھارت تمام معاملات باہم مل بیٹھ کر طے کریں۔ اگر یہ اصول بائبل کی طرح مقدس تھا تو پاکستان سے کیوں پوچھا جارہا ہے کہ بمبئی سانحے کے ملزموں پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا۔ کون کہتا ہے یہ مقدمہ نہیں چلا۔ پاکستان کی عدالتوں میں چلا اور حافظ سعید کو اس میں بری کیا گیا۔ پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا، نہ بھارت کی طرف سے، نہ امریکہ کی طرف سے۔ بھارتی عدالت اجمل قصاب اور افضل گورو کو پھانسی کی سزا سنائے تو برحق اور پاکستانی عدالت کوئی فیصلہ دے تو اسے جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔ واہ رے امریکہ بہادر! اپنامرتبہ دیکھ اور بھارت کا جثہ دیکھ۔ اس کے رعب میں کیوں آ گئے ہو۔ اس بھارت کو تو روس نے بھی گھاس نہیں ڈالی اور من موہن کو چند روزقبل ماسکو کے دورے میں انرجی ٹیکنالوجبی پرٹھینگا دکھا دیا چین نے بھی بھارت کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی اور اپنی مرضی کے معاہدوں پر من موہن سنگھ سے انگوٹھے لگوا لیئے۔ پتانہیں، امریکہ کو بھارت سے کیاعشق ہے۔ امریکی دورے نے نواز شریف کے بھارت کے ساتھ عشق کی وجوہات بھی صیغہ راز میں نہیں رہنے دیں، ہماری خام خیالی تھی کہ نواز شریف اپنے مفادات کے تحت بھارت کے عشق میں مبتلا ہیں، اب پتا چلا ہے کہ وہ وہی کچھ چاہتے ہیں جو پیا چاہتا ہے۔ اور پردے کے پیچھے امریکہ تاریں ہلا رہا ہے اور ہمارے وزیر اعظم کٹھ پتلی بنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا مفاد ایران سے گیس پائپ لائین میں ہے، اس کا ذ کر وزیراعظم شریف نے نہیں کیا۔ اگر وائٹ ہاؤس سے جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیے کے ساتھ ہی ایک حقائق نامے کو دیکھا جائے تو اس میں امریکہ نے پاکستان پر اس قدر احسانات گنوائے ہیں کہ ہمیں اس تنقید پر شرم محسوس ہوتی ہے جو ہم امریکہ پر کرتے رہتے ہیں، ظاہر ہے نواز شریف انہی احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ میں کسی کی مایوسی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا مگر کیا کروں پورے مشترکہ اعلامیہ میں ڈرون کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں۔ (25اکتوبر 2013ء)