خبرنامہ

اور اب انتقام کا اجرا!

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اور اب انتقام کا اجرا!

آرمی چیف نے کہا ہے کہ اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کروں گا۔ میری مانیں تو باقی ادارے اپنے وقار کا تحفظ کریں اور اس اصول پر عمل کریں کہ عزت دو اور عزت لو۔
ایک زمانہ تھا قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی، میں ان دنوں صرف سات برس کا تھا۔ اس تحریک نے تشدد کا راستہ اختیار کر لیا، سیالکوٹ میں ایک مشہور سیاسی لیڈر پرکسی کو شک گزرا کہ وہ قادیانی ہے، اس کا منہ کالا کیا گیا، ایک گدھے پر بٹھایا گیا اور پورے شہر میں گھمایا گیا۔ مجھے اس لیڈر کا نام یادنہیں تحریک ختم نبوت کے بزرگ میری مددکریں، ریکارڈ درست رکھنے کے لیئے۔
اسی طرح ایوب دور میں صدارتی انتخاب ہوا، تب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور اخبارات تک رسائی ہفتے بعد ہوتی تھی، ڈھیر سارے ٹی وی چینل بھی نا پید تھے، میں نے سنا کہ گوجرانوالہ میں ایک سیاسی لیڈرنے ایک گتے پر کسی کا نام لکھا، اسے ایک بھدی، خارش کی ماری کالی کتیا کے گلے میں لٹکایا اور پورے شہر میں گھمایا، پرانے سیاسی کارکن مجھے اس ہستی کے نام گرامی سے مطلع کریں۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے۔
یہ زمانہ میرے شعور کے بیدار ہونے کا تھا، کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ ایوب خان کے مادر ملت کے خلاف صدارتی الیکشن ایجنٹ کے طور پر ایک وزیر ذوالفقارعلی بھٹو نے فرائض ادا کئے۔ اسی وزیر سے یہ بیان بھی منسوب ہوا کہ کنونشن لیگ کو عوام پر مسلط کرنے کے لیئے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس کا سیکرٹری بنا دیا جائے۔ اسی وز یرکواپنے فیلڈ مارشل سے اس قدر عقیدت تھی کہ وہ اسے ڈیڈی کے نام سے پکارتے تھے۔ پھر میں نے سنا کہ یہ وزیر صاحب فیلڈ مارشل کے سامنے تن کر کھڑے ہو گئے۔ اور تاشقند کے رازوں کی تھیلی لے کر قر یہ قرقہ گھوم گئے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس وزیر کو اپوزیشن کی سیاست میں ایوب خاں نے مک مکا کے تحت خود لانچ کیا تھا یا اس زمانے میں بھی کوئی آئی ایس آئی تھی یا اس پر کوئی بیرونی ایجنسی مہربان تھی کیونکہ اس کے بعد جتنے بھی لوگ سیاست میں متحرک ہوئے، ہم سب نے اپنی آنکھوں سے ان کو پتلیوں کی طرح کسی کے ہاتھوں ناچتے دیکھا۔ نواز شریف کس نرسری کے گملے میں کاشت کیئے گئے۔ ان کو مضبوط بنانے کے لیئے مہران بنک کے خزانوں کے منہ کس نے کھولے۔ یہ بہت دور کے زمانے کی باتیں نہیں، وزیر اعظم بے نظیر کے خلاف چار کے ٹولے نے بغاوت کی، یہ اسی کی پارٹی کے لوگ تھے، ابھی ہمارے سامنے پندرہ سال پرانی تحریک انصاف میں نئی جان پڑی تون لیگ نے انکشاف کیا کہ اس کی پشت پناہی آئی ایس آئی کے جنرل پاشا فرمارہے ہیں۔ جس دن جنرل پاشا ریٹائر ہوئے، اس روز ٹی وی کیمروں کے سامنے چودھری نثار نے کہا کہ مجھے ایک سیاسی جماعت کے یتیم ہوجانے کا دکھ ہے۔
اس پس منظر میں جب میں یہ دعوے سنتا ہوں کہ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہے تو میرا قہقہہ نکل جاتا ہے۔
آئین، پارلیمنٹ اور جمہوری عمل کی بالا دستی کو جس طرح پچھلے چیف جسٹس کے دور میں رولا گیا، مجھے اس پرکوئی خوشی نہیں مگر جو ہوا سب کے سامنے ہوا، جمہوری حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی، پارلیمنٹ کو حکم ملتا تھا کہ آئین میں فلاں ترمیم کر لو ورنہ ہمارا فیصلہ خود بخود آئین کا حصہ بن جائے گا۔ ایک ٹی وی چینل پر خبر چلتی تھی، اس پر اگلی صبح اوربعض اوقات آدھی رات کو عدالتی فیصلہ آ جاتا تھا۔ میں یاد دلا دوں کہ جمہوریت،آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ یہ سلوک جی ایچ کیو یا آئی ایس آئی کی طرف سے نہیں کیا جارہا تھا بلکہ آئین کی شارح اور محافظ عدلیہ کر رہی تھی، اس دور میں ہماشما تو کسی قطار شمار میں نہ تھے کوئی گنتی نہیں کہ کس کس کو عدالتی حکم کے تحت گھر بھیجا گیا مگر پارلیمنٹ کے متفقہ ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی عدلیہ نے گھر بھیجا۔
ہماری تاریخ میں ایک حکومت ایوب خان نے ختم کی، دوسری ضیاالحق نے اور تیسری مشرف کے جرنیلوں نے۔
لیکن دنیائے اسلام کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک سویلین صدر اسحاق خاں نے گھر بھیجا، اسی سویلین صدر نے نواز شریف کو گھر بھیجنے کا شوق پورا کیا محترمہ بھٹو دوسری مرتبہ اپنی ہی پارٹی کے مقر رکردہ صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں رخصت ہوئیں۔ تو حساب کتاب میں تین وزیراعظم جرنیلوں نے گھر بھیجے اور تین وزیراعظم سویلین صدور نے گھر بھیجے، ایک وزیر اعظم کو عدلیہ نے گھر بھیجا۔
ایک وزیراعظم بھٹوکوفوجی حکومت نے پھانسی دی مگر ایک فوجی سربراہ ضیاالحق، حادثے کا شکار ہوا، اس کا جہاز بہاولپور کی فضاؤں میں پھٹا، یہ صوبہ اس وقت وزیراعلی نواز شریف کی عملداری میں تھالیکن اس وزیراعلی نے اس حادثے کی تحقیقات میں کیا دلچسپی لی، بعد میں ایک آرمی چیف آصف نواز کو نواز شریف دور میں اس قدردباؤ کا شکار کیا گیا کہ وہ دل کے دورے سے جاں بحق ہو گئے، ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے نواز شریف دور میں استعفا لیا گیا اور ایک آرمی چیف جنرل مشرف کو نواز شریف نے اس وقت ہٹایا جب وہ ملک میں موجود ہی نہ تھے، ایک آرمی چیف جنرل گل حسن کو غلام مصطفی کھر نے کار میں اغوا کر کے استعفالیا۔
اب حساب کتاب کی روسے گنتی کر لیجئے کہ سویلین اور سویلین کے جھگڑے میں کتنی منتخب حکومتیں ختم ہوئیں، فوجی حکومتوں نے کتنے سویلین وزیراعظموں کو پھانسی دی، اور سویلین وزیراعظموں کے دور میں کتنے آرمی چیف یا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اپنے منصب سے حساب کے فارمولے سے جواب نہ ملے تو الجبرے کا فارمولہ استمال کر لیجئے اور دھیان رہے کہ اسلامی تاریخ میں صرف ایک خلیفہ نے اپنے آرمی چیف کو گھر بھیجا تھا۔
بس بھئی بس بہت ہو چکی سویلین نے برا کیا فوجی جرنیلوں نے مگر اب بس بھی کریں، بہت تماشہ لگ چکا، اسی تماشے میں ہم قائد اعظم کا عطا کردہ ملک آدھا کر چکے باقی ملک لہولہان ہے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، جہالت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، قحط اور بیماریوں کے ہاتھوں جاں بلب ہے۔ کسی ایک کو اپنے وقار کا خیال ہے کوئی دوسرا اپنے وقار کے لیے تڑپ رہا ہے۔ کیوں نہ ہم سب ایک دوسرے کی عزت کریں۔ اور ملک کے وقار میں اضافہ کریں۔
مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہماری بربادیوں کے مشورے آسمانوں پر نہیں، ہمارے آس پاس ہو رہے ہیں، ہم خود کر رہے ہیں اور اگر ہم نے مرغوں والی لڑائی بند نہ کی تو ہماری داستاں تک داستانوں میں نہیں ہوگی۔ (12 اپریل 2014ء)