خبرنامہ

اور تلوار چل گئی… اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اور تلوار چل گئی… اسد اللہ غالب

یہ میرے آقا و مولا ﷺکی تلوار ہے، بدر اور احد میں اسی تلوار نے کفار کے لشکر کا مقابلہ کیا۔
کائنات کے مالک نے حکم دیا کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو اور یہ بھی حکم نازل ہوا کہ اپنی زرہیں نہ اتارو۔ مومن ہر وقت حالت جنگ میں ہوتا ہے۔
آج ہمارے ہاتھ میں عضب لہرارہی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ۔
اگرتم مومن ہو تو فتح تمہاری ہے۔
فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو۔۔۔ اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی۔
ہلکے ہو یا بوجھل اللہ کی راہ میں نکلو۔
آج پاکستان کا لشکر صف بہ صف میدان کارزار کا رخ کر رہا ہے اور پوری قوم کامرانی کی دعائیں مانگ رہی ہے۔ قوم کا بچہ بچہ پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ یہ جنگ تو شمالی وزیرستان کے تین محدود سے مقامات کے خلاف ہے، پوری قوم حالت جنگ میں ہے، مگر قوم کو ایوب خان کی طرح کسی نے حوصلہ نہیں دیا کہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پرٹوٹ پڑو۔ کاش! کوئی لیڈر ہمارے نصیب میں ہوتا۔
فروری 2014 کے آخری ہفتے کے آغاز میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ لاہور آئے، انہوں نے یہ کہہ کر ایڈیڑوں اور کالم نویسوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ فاٹا کا چھیاسی فی صد علاقہ اب تک آزاد کروایا جا چکا ہے اور اب دہشت گردوں کے گروہ شمالی وزیرستان کے صرف تین مقامات تک محدود ہیں، پاک فوج ان کو ملیا میٹ کرنے کی مکمل تیاری کر چکی ہے اور اگر حکومت کی ہدایت ملی تو چار سے چھ ہفتوں میں ان تین مقامات کا بھی صفایا کر کے یہاں سبز ہلالی پرچم لہرا دیا جائے گا۔ یہ بریفنگ لاہور کے آئی ایس پی آر کے دفتر میں ہوئی تھی۔ اس کے انچارج کرنل شاہد عباس کے لیئے بھی یہ انکشاف کسی بریکنگ نیوز سے کم نہیں تھا اور وہیں سے ٹی وی چینلز کے ٹکر چلنے لگے اور قوم کو ایک نیا حوصلہ ملا کہ چھیاسی فی صد علاقہ کلیئر ہے تو پھر فکر کا ہے کا۔ باقی علاقے کی صفائی کے لیے بھی دو دو ہاتھ ہو جانے چاہئیں لیکن دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ پہلے عرفان صدیقی اور پھرفواد حسن فواد کے ذمے لگایا گیا۔ دہشت گردوں کوکھلی چھٹی ملی ہوئی تھی اور پاک فوج کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے بلکہ بڑی حد تک زبان بندی بھی عمل میں آ چکی تھی، فوج کے سربراہ نئے نئے تھے، وہ حکومت کے لئے کسی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے مگر جب ملک کے ڈی فیکٹو وزیراعظم شہباز شریف چین کے دورے پر گئے تو سنکیانگ میں دہشت گردی کی بھیانک واردات ہوگئی جس کا کھرا پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پہنچتا تھا تو پھر جنرل راحیل شریف اچانک چار دن کے لیئے چین پہنچے۔ میری معلومات کے مطابق یہ کوئی طے شدہ دور نہیں تھا۔ مگر پاکستان کے ایک آزمودہ دوست اور ہمسائے چین کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیئے یہ دورہ ضروری تھا، چینی صدر اپنی حکومت کو حکم دے چکے تھے کہ پاکستان کی سرحد پر زمین سے آسمان تک کنکریٹ کی ایک دیوار کھڑی کر دی جائے تا کہ کوئی بیرونی دہشت گرد چین کی سرزمین پر قدم نہ رکھ سکے۔
جنرل راحیل شریف کے دورے کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا، کئی برسوں سے امریکیوں کا دباؤ تھا کہ یہ آپریشن کیا جائے لیکن ہم ٹال مٹول سے وقت گزار رہے تھے، چینیوں پر آفت ٹوٹی تو ہم اس عظیم ہمسائے کے ساتھ ٹال مٹول نہیں کر سکتے تھے اور پھر دہشت گردوں نے ایک بہانہ اور فراہم کر دیا، وہ کراچی ایئر پورٹ پر حملہ آور ہوئے اور پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کر کے رکھ دیا۔ ایک ویب سائٹ پر ازبک خودکش بمباروں کی تصویریں بڑے تفاخر سے لگائی گئیں، یہ نوعمر لڑکے تھے جن کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کب تک غیرملکی چھوکروں کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
حکومت ہمیشہ کی طرح بے عملی کا شکارتھی۔ وزیر داخلہ کے بارے میں پتا چلا کہ وہ رات بھر وزیراعظم کا فون ہی سننے کے لیئے تیار نہ ہوئے کئی گھنٹوں بعد وہ کراچی پہنچے تو انہوں نے ناقص سکیورٹی کی ذمے داری سندھ حکومت پرڈال دی۔ طوائف الملوکی کا عالم تھا۔
کسی جاں بلب مریض کے رشتے دار جب اس کی میراث پرلڑ بھڑ رہے ہوتے ہیں تو آپریشن تھیٹر کے ڈاکٹر مریض کی زندگی بچانے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ کراچی میں کیا ہوا، اس کا گناہ تھا، اس کا فیصلہ حکومتی منصب دار مہینوں اور برسوں کی بحث میں کرتے رہیں گے مگر ملک کو بچانے کے لیئے جزل راحیل شریف کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ انہوں نے بزن کا اشارہ کیا اور وہ آپریشن شروع ہو گیا جو میرے حضورﷺ کی تلوار عضب سے منسوب ہے۔ نمازعشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں۔
عضب تلوارعلم بن کر لہرارہی ہے اور اس کے سائے میں میرے دیس کے گبھرو جوان قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی حفاظت کویقینی بنانے کے لیئے ان پہاڑوں کی غاروں میں کود گئے ہیں جہاں فاتحین عالم کے سانس بھی رک جاتے تھے اور جہاں بادصرصر بھی ڈر ڈر کے قدم رکھتی ہے۔
یہیں کہیں تورا بورا کے غار ہیں جن میں امریکی افواج کو گسنے کی جرات نہیں ہوئی تھی اور اس نے لاکھوں میل دور بیٹھ کر بی باون طیاروں اور کروز میزائلوں سے تورا بورا کے پہاڑوں کو سرے کی طرح پیس ڈالا تھامگر دتہ خیل، شوال اور میران شاہ کی چوٹیوں میں میرے اور آپ جیسے گوشت پوست کے جوان، ان دہشت گردوں سے نبردآزما ہیں جو پچھلے دس برسوں میں ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کا قیمہ بنا چکے، یہ جوان اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کررہے ہیں، ان میں سے کون سلامت واپس آتا ہے اور کون ہلالی پرچم کا کفن پہنتا ہے، یہ تو بقاء یافنا کی جنگ ہے،یہ سلامتی یا تباہی کی جنگ ہے۔ یہ ناؤ آر نیور کا سوال ہے، دشمن نے اپنے مذموم عزائم آشکار کر دیے، وہ پاکستان کو مفلوج کر دینا چاہتا ہے، وہ لاہور اور کراچی کے بچوں کا خون کرنا چاہتا ہے، وہ ایک ایئر پورٹ ہی نہیں، ہر ایئر پورٹ کولولالنگڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کا رابطہ باہر کی دنیا سے کاٹ دینا چاہتا ہے۔ اس نے بیرونی سرمایا کاروں کو دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ جائیں۔
یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔ اب ایک ایک شہری کو یہ جنگ لڑنی ہے، ہر گھر میں دشمن چھپا ہوا ہے، ہر دفتر میں دشمن چھپا ہوا ہے۔ ہر آستین میں سانپ ہے۔ ہربغل میں چھری ہے۔ ہر دوسرا آپ کی پیٹھ پیچھے وار کرنے پر تلا ہوا ہے، اب یہ جنگ ہم سب کو لڑنی ہے، پاکستان کے حصول کی جنگ میں بھی ہر شہری نے قربانیاں دیں، اب پاکستان بچانے کی جنگ کا مرحلہ درپیش ہے۔
آیئے، اپنے نبیﷺ کی تلوار کے سائے میں ہم سب آگے بڑھیں۔
اپنے خدا پر یقین رکھیئے، بیس کروڑ افراد پر مشتمل قوم کو دنیا کی کوئی طاقت نیست و نابود نہیں کرسکتی۔ جنرل راحیل شریف اپنے بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میدان میں کود گئے ہیں۔ ایسے سپوت ہرقوم کے نصیب میں نہیں ہوتے۔ (17 جون 2014ء)