خبرنامہ

آزادی کشمیر کے حامی، میرے مرشد مجید نظامی، اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آزادی کشمیر کے حامی، میرے مرشد مجید نظامی، اسد اللہ غالب

میدان صحافت میں آزادی کشمیر کے سپاہ سالار ہونے کا اعزاز میرے مرشد جناب مجید نظامی کے حصے میں آیا۔
میں ان کاایک ذاتی حوالہ یہاں بیان کرتا ہوں ، ان کا ذاتی دکھ اور قومی دکھ ایک ہو گئے تھے ۔ مجھے انہوںنے ایک بار اپنے گھر کے اسٹڈی روم میں بیٹھے یہ بتایا تھا کہ ان کی بیگم صاحبہ کا تعلق شوپیاں سے ہے اور انہیں اپنی جنم بھومی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلسل قتل و غارت کا بے حد قلق ہے۔
کون بھول سکتا ہے اس للکار کو جب میرے مرشد مجید نظامی نے نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں کی بھارتی فوجی چھائونی پر داغ دیا جائے، تب میری بہن مہناز رفیع بھی جذباتی ہو گئی تھیں اور ان کے ساتھ بہت سی معزز خواتین نے کہا کہ وہ بھی ایٹمی میزائل کے ساتھ جموں چھائونی پر داغے جانے کے لئے تیار ہیں۔
میںنے کچھ لوگوں کے منہ سے تنقید سنی کہ جناب نظامی کشمیری مسلمانوں کو ایٹمی میزائل سے تباہ کرنے پر تلے ہیں تو مجھے یہ نقاد اس بات کاجواب دیں کہ جب بھارت کے ایک حکومتی لیڈر نے کہا تھا کہ کشمیریوں سے جان چھڑانے کیلئے ان پر ایٹمی میزائل داغ دیا جائے تو اس بیان اوراس ارادے پر ان کا رد عمل کیا ہے۔
اور یہ نقاد مجھے یہ بھی بتائیں کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں کی نسل کشی میں پچھلے ستر برس میں کونسی کسر چھوڑی ہے۔
اور کسے یاد نہیں کہ جب اول اول عالمی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا تو میرے مرشد جناب مجید نظامی نے کہا تھا کہ وہ آزادی کشمیر کے حامی ہیں اور اگر انہیں کوئی دہشت گرد سمجھتا ہے تو بے شک انہیں باقی دہشت گردوں کی طرح پکڑ کر گوانتا نامو بے کے پنجرے میں بند کر دیا جائے۔
اور میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کو ایوان صدر کی ایک پریس بریفنگ میں مدعو کیا گیا اور اس میں جنرل پرویز مشرف نے کابینہ کا یہ فیصلہ سنایا کہ آزادی کشمیر کی حمایت کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا ہے تو میرے مرشد مجید نظامی تائو میں آ گئے، انہوں نے مکہ لہراتے ہوئے کہا کہ اگرا ٓپ نے یہ فیصلہ کابینہ میں بیٹھ کر کر لیا ہے تو ہمیں کس مشاورت کے لئے بلایا گیا ہے، دوسرے اگرا ٓپ نے کشمیر کاز سے غداری کی تو اس کرسی پر بیٹھے نہیں رہ سکیں گے۔ اس پر ایوان صدر کے کمیٹی روم میں سناٹا چھا گیا تھا۔
میں آپ کو یہ یاد کراتا چلوں کہ یہ وہی جنرل پرویزمشرف تھا جس نے صرف ایک سال قبل صدر کلنٹن کی نشری تقریر کے جواب میں کہا تھا کہ میں آزادی کشمیر کے حامیوں کو دہشت گرد نہیں کہہ سکتا، نہ ان کو اپنے عزیز و اقارب کی مدد سے روک سکتا ہوں کہ کشمیری کنٹرول لائن کے دونوں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور وہ بھارتی فوج کے رد عمل کے لئے آزاد ہیں۔ صدر کلنٹن نے پاکستان کا ایک مختصر اور چند گھنٹوں کا دورہ کیا تھا جس میں انہوںنے براہ راست پاکستانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کے دور میں طاقت کے بل پر سرحدیں تبدیل نہیں ہو سکتیں اور کسی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعما ل نہ کرنے دی جائے۔ اور یہی جنرل پرویز مشرف تھا جس نے آگرہ میں بھارتی میڈیا کے ساتھ ناشتے کی میز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کشمیر کے کور ایشو پر بات نہیں ہو سکتی تو وہ مذاکرات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب قاضی حسین احمد نے پانچ فروری کے دن کو یوم یک جہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا تو اس ایشو پر ہر کوئی بیان بازی کی بازی میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ انیس سو چھیانوے کی بات ہے ، میں ان دنوں اداریہ نویسی کی ڈیوٹی سر انجام دیتا تھا ، میرے مرشد نے کشمیر کے مسئلے پر لگاتار اداریئے تحریر کرنے کی ہدائت کی اور یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ اس ایک مسئلے پر نوائے وقت نے کسی ناغے کے بغیر سترہ روز تک قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ایک ہی ایشو پر دنیا کے کسی اور اخبار نے اس قدر مسلسل نہیں لکھا ہو گا، صدر نکسن کے خلاف واٹر گیٹ اسکینڈل گھڑنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس طرح اپنے اداریوں میں نہیں لکھا۔ ہاں ، اخبار میں تفتیشی رپو رٹنگ ضرور جار ی رکھی۔ اور صدر نکسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔
مجھے نوائے وقت کا وہ اداریہ یادا ٓتا ہے جس کا عنوان تھا: کشمیر اب نہیں تو کبھی نہیں۔ جس روز یہ اداریہ شائع ہوا ، اسی روز مرشد نظامی کی ہدایت پر الحمرا ہال نمبر ایک میں قومی کشمیر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، اس میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار اسکندر حیات نے بار بار نوائے وقت کے اداریئے کا حوالہ دیا کہ اس تحریر پر کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔
اس سے قبل میں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے وسیع ہال میں کشمیر کانفرنس کااہتمام کیا جس کی صدارت میرے مرشد مجید نظامی نے کی، مہمان خصوصی صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان تھے اور تیسرے مقرر جنرل کے ایم عارف ، اس تقریب میں مرشد نظامی نے حسب معمول تحریک آزادی کشمیر کی غیر مشروط حمائت کا اعلان کیا تھا۔
حافظ محمد سعید کو آج آزادی کشمیر کی حمائت کے الزام میں نظر بند کیا جا چکا ہے مگر آج سے پہلے بھی بھارت اور اس کی دیکھا دیکھی ہمارے بعض حلقے حافظ صاحب قبلہ کو مطعون کرتے رہے ہیں مگر مجھے وہ تمام تقاریب یاد ہیں جو نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے دفتر میں کشمیر کاز کی حمائت میں برپا کی گئیں اور ان کے مہمان خصوصی حافظ محمد سعید ہوا کرتے تھے۔ ان تمام تقاریب کے آخر میں صدارتی کلمات اد اکرتے ہوئے میرے مرشد مجید نظامی نے ہمیشہ کہا کہ حافظ صاحب ! نظریہ پاکستان فائونڈیشن کا پلیٹ فارم آپ کا اپناہے، جب چاہے ، یہاں مجلس جمائیں اور آزادی کشمیر کی تحریک کو گرمائیں۔
حافظ محمد سعید کو آزادی کشمیر کی حمائت کے جرم میں سزا دی جا چکی ہے، کسی کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے مرشد مجید نظامی کو بھی اس جرم میں سزا دینا ضروری ہے تو گو مرشد نظامی اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں مگر ان کے نظریات سے سرشار میں حاضر ہوں ، میرا بھی وہی نظریہ ہے اور مجھے مرشد نظامی کی جگہ مصلوب کر دیاجائے یا پنجاب حکومت کا محکمہ داخلہ بصد شوق میری نظر بندی کے احکامات جاری فرما دے۔ یہ سزا میر ی ساری زندگی کے باقی گناہوں کو دھو ڈالے گی اور میری بخشش کا ذریعہ ثابت ہو گی۔