خبرنامہ

اپنا گھر ٹھیک کرنے کی شروعات … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اپنا گھر ٹھیک کرنے کی شروعات … اسد اللہ غالب

مسلم لیگ ن کے دو لیڈروں نے کہا کہ پہلے تو ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، یہ بات وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے کی۔ مگر ان میں سے کسی نے نہ بتایا کہ گھر میں خرابی کیا ہے، کہاں پرہے اوراسے ٹھیک کیسے کرنا ہے۔چنانچہ لوگوںنے اپنے اپنے ٹیوے لگائے کہ خرابی کی نو عیت کیا ہے اور حکمران جماعت اسے ٹھیک کرنے کے لئے کیا کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔

یہی بات چودھری نثار نے باانداز دگر کی۔ وہ ا س وقت فنکشنل وزیر داخلہ تھے۔ انہوںنے انکشاف کیا کہ گھر کو شدید خطرہ لاحق ہے ا ور اس کا علم دو سول اور دو فوجی حضرات کو ہے، انہوںنے البتہ اس خطرے سے بچنے کی ایک تجویز یہ دی کہ ملک میں محاذ آرائی سے گریز کیا جائے اور عدالت جو فیصلہ دے، اسے خاموشی سے قبول کر لیا جائے، ورنہ دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ان کی باتوںمیں بھی قدرے ابہام تھا تاہم اصلاح احوال کے لئے انہوںنے واضح تجاویز دیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جائے اور انہوںنے ذاتی شکوہ بھی کیا کہ تین ماہ سے انہیں کسی مشورے میں شریک نہیں کیا گیاا ور پارٹی کے معاملات گھس بیٹھیوں کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔یہی بات وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے بھی پارٹی کے اجلا س عام میں یوں کی کہ سارے فیصلے وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی نظر کرسی اور کار پر جھنڈا لہرانے تک محدود ہے۔
گزشتہ روز ایک معجزہ ہوا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان ملاقات ہوئی اور گلے شکوے دور کرنے کی خبریں شا ئع ہوئیں ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت ہی نہیں خود شریف فیملی میں بھی اختلافات موجود تھے۔ان کے بارے میں چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں کہ حمزہ شہباز لاہور کے ضمنی الیکشن سے غائب ہیں اور لندن چلے گئے، یہی بات میاں شہباز شریف کے بارے میں بھی کہی گئی۔سوشل میڈیا بڑا ظالم ہے ، رائی کاپہاڑ بنانا اس کا معمول ہے۔ ایک مہم چل رہی تھی کہ نوازشریف کے جانشین کے سلسلے میں مریم نواز اور حمزہ شہباز میں اختلافات ہیں۔حمزہ شہباز سیاست میں ایک عرصے سے سرگرم ہیں، رکن قومی اسمبلی بھی ہیں اور پنجاب کے امور کی غیر رسمی طور پر نگرانی بھی فرماتے ہیں،انہیں منی چیف منسٹر بھی کہا جاتا رہا مگر ایک بات جو حمزہ شہباز کے مخالفین بھول جاتے ہیں کہ جتنا عرصہ پورا شریف خاندان جدے یا لندن میںمقیم رہا، یہ نوجوان مشرف حکومت کا یرغمالی تھا، میںنے ایک کالم میں اسے سلطان ٹیپو کے دو کم سن بچوں سے تشبیہہ دی تھی جنہیں کچھ عرصہ یرغمال رہنا پڑا، اس پر مجھے لعن طعن کی گئی کہ کہاں سلطان ٹیپو کے بیٹے اور کہاں حمزہ شہباز ،مگر مجھے اس تنقید کی پروا نہیں، میں نے ایک ٹھیک مثال دی تھی، حمزہ دس گیارہ برس تک جنرل مشرف کی فوجی حکومت کا یرغمالی تھا ۔ وہ اس دوران ایک دن کے لئے بھی باہر نہیں جا سکا۔ ماں باپ ، بہن بھائیوں سے دوری ایک عذاب ہوتی ہے جو حمزہ نے برداشت کی مگر اپنی اس رائے کے باوجودمیں شریف خاندان کے اندرونی معاملات میں دخیل نہیں ہونا چاہتا، جنگ تخت نشینی میں وہ جو فیصلہ کریں، اس کا گناہ ثواب اسی خاندان کو ہونا ہے، مریم نواز کی اپنی خوبیاں ہیں، انہوںنے میڈیا کمپین انتہائی مہارت سے چلائی اور ان کی یہ تقریر کہ روک سکو تو روک لو۔ نواز شریف کو ، یہ دنیا کی بہترین تقریروں کا حصہ بنے گی۔
چلئے دونوں افراد خانہ کی ملاقات ہو گئی اور رات گئی بات گئی والا قصہ ہے تو اس پر اس خاندان کے ہمدردوں کو اطمینان ہونا چاہئے۔
میں شریف خاندان کے ایک انچ بھی قریب نہیںہوں ، ان کے بارے میں صرف قیافے لگا سکتا ہوں اور میرا اندازہ ہے کہ چودھری نثارا ور شہباز شریف کا یہ وزنی اعتراض بھی سن لیا گیا ہے کہ کرسی ا ور کار کے لالچیوں اور نوواردوں کو فاصلے پر رکھا جائے، اب مجھے طلال چودھری والا چوسنی گروپ ہر چند منٹ بعد پریس کانفرنسیں کرتا نظر نہیں آتا، ان کی جگہ پارٹی کے صاحب بصیرت اور ذمے دار مناصب پر فائز حضرات ہی پارٹی کی ترجمانی کرتے ہیں ،ان میں وزیر اعظم عباسی شامل ہیں، احسن اقبال شامل ہیں ، خواجہ آصف شامل ہیں اور اسحق ڈار شامل ہیں۔ پارٹی میں اور بھی ایسے سینئر اور مدبر لوگ موجود ہیں جو بوقت ضرورت حکومت کی ترجمانی کا فریضہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔
اس طرح پہلے گھر ٹھیک کرنے والی بات تو سمجھ میں آ جاتی ہے اور اصلاح احوال کے آثار بھی سب کو نظر آ رہے ہیں۔
مگر فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ پر ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے، اس ضمن میں حکومت میں دو واضح گروپ ہیں ، ایک محاذ آرائی چاہتا ہے، دوسرا محاذ آرائی کوپارٹی سیاست ا ور ملکی سلامتی کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے۔ فوج کے ساتھ تنازعے میں سنگینی ڈان لیکس سے پیدا ہوئی، اب برکس کی قرارداد نے نئی تشویش پیدا کر دی ہے۔ ڈان لیکس اور برکس کی قرارداد کم وبیش ایک ہی چیز ہیں اس لئے ان مسائل پر حکومت اور فوج کو باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مﺅثر انداز میں نہیں لڑی جا سکے گی، لال مسجد، سوات اور مالا کنڈ آپریشن ، اور ضرب عضب یا ردالفساد تک جو کامیابیاں ملیں ، ان کی وجہ قومی اتفاق رائے کی کیفیت تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ، فو ج بھی قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو سمجھتی ہے ا ور حکومت بھی ا س سے صرف نظر نہیں کر سکتی، فاٹا کو سول اقتدار میں لانا ہے ، کراچی کی کامیابیوں کو دیر پا بنانا ہے اور بلوچستان میں کامیابی کا سفرمکمل کرنا ہے تو یہ سب کچھ قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کی فضا ہی میں ممکن ہے، کوئٹہ میں تو آج صبح سویرے پھر خون بہا ہے اوربے گناہوں کی شہادت عمل میں آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے اور نہ باہمی سر پھٹول میں الجھ سکتے ہیں۔
ستر سال میں چار مرتبہ مارشل لاا ور وہ بھی آزادی کے نصف عرصے تک اور باقی عرصہ سیاسی طوائف الملوکی میں گزارنے کے بعد جسد قومی ہر قسم کے کینسر کا شکار ہو چکا ہے۔اس کینسر کی لعنت سے نجات کے لئے ہمیں واقعی سے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی، اس کے لئے پہلا قدم تو ضرور اٹھا ہے لیکن یہ آخری نہیں ہونا چاہئے ، امریکہ جیسا ملک ایک نیم پاگل صدر کے ہوتے ہوئے تو سروائیو کر سکتا ہے مگر ہم اس قابل نہیں کہ اپنے پاﺅںمیں ذرا بھی لغزش آنے دیں۔ ایک بیدار مغز قوم کا شیوہ اپنا کر ہی ہم ان بلاﺅں اور آفتوں سے نجات پا سکتے ہیں جو چاروں طرف سے ہمیں گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔