خبرنامہ

اچکزئی کی پھل جھڑی…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اچکزئی کی پھل جھڑی…اسد اللہ غالب

چودہ شعبان کو قریب پا کر اچکزئی نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان اختلافات کے بارے میں ایک پھل جھڑی چھوڑی ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ اگرسنجیدہ بات ہے تو اختلاف کس بات پر ہے۔ کیا آرمی چیف اپنے وزیراعظم کے احکامات نہیں مانتے اور ایسا کونسا علم ہے جس کو نہیں مانا گیا۔ کیا فوج نے کوئی نیا کارگل کر دیا ہے یا گل کھلا دیا ہے۔ اچکزئی کو کھل کر بات کرنی چاہئے، اپنے حلف کی روسے وہ عوام سے کچھ چھپانے کا استحقاق نہیں رکھتے۔
اچکزئی کا شاید مشغلہ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کی طرف سب لوگ توجہ دیں، جیسے بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا۔ دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم کے الیکشن کے لیئے ایوان میں ووٹنگ شروع ہوئی مگر اچکزئی آخر وقت تک اپنی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ انہوں نے نہ وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا، نہ خلاف مگر اس حرکت سے وہ سب کی توجہ کا باعث ضرور بنے۔
اچکزئی کی ایک نرالی بات جو سب کو یاد رہ گئی، وہ ایک سال پہلے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے دوران نواز شریف کے محل جاتی امرا میں اپوزیشن جماعتوں کے ایک اجلاس میں کی گئی، اس اجلاس میں طے ہواتھا کہ آئین سے ماورا کوئی اقدام ہوا تو سب جماعتیں متحد ہوکر اور ڈٹ کر اسے روکنے کی کوشش کریں گی۔ اچکزئی نے سمجھا کہ یہ اعلان کافی نہیں، انہوں نے فقرہ کسا کہ میں جنرل کیانی سے بات کروں گا کہ بس کریں، بہت ہوگئی۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ ایک تو جنرل کیانی نے ڈاکٹر طاہر القادری کو لانچ کیا ہے۔ دوسرے وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جنرل کیانی ان کے لنگوٹیئے یار ہیں، جس وقت بھی اور جو کوئی بھی بات ان سے جا کر کر سکتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں اسے بلف کھیلنا کہتے ہیں۔ اب انہوں نے جنرل راحیل کا ذکر چھیڑ دیا ہے، وہ بھی اس چونکا دینے والے انکشاف کے ساتھ کہ ان کے اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات ہیں۔ یہ ختم ہونے چاہئیں ورنہ پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ اچکزئی کی عمر ستر اکہتر میں نجانے کیا ہوگی، اس وقت ملک کے پہلے شفاف انتخابات ہوئے اور ایک آرمی چیف جزل یحییٰ خاں نے کرائے لیکن مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے اس مینڈیٹ پرعمل نہ ہونے دیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ جو رکن اسمبلی بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھا کہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ جب مارچ اکہتر میں عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تو بھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا مگر چند ماہ بعد پاکستان دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔ اور یہ نعرہ سچ ثابت ہوگیا کہ ادھرتم، ادھر ہم!
اچکزئی سیاست میں تنہا نہیں، ان کے کئی رشتے داروں کومنتخب ہونے کا اعزاز میسر آیا ہے اور ایک بھائی صاحب کو بلوچستان کا گورنر بنادیا گیا۔ پاکستان میں خاندانی اور موروثی سیاست کا وطیرہ چل نکلا ہے۔ اچکزئی کا خاندان کیوں پیچھے رہتا۔ مجھے ان کے والد گرامی سے کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا، انکے انٹرویو بھی کئے۔ اچکزئی فیملی کے عزیز بلوچستان اسمبلی میں بھی ہیں، اس لحاظ سے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس خاندان نے اپنے صوبے کی ترقی وتعمیر کے لئے کیا فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ وہاں کے وزیر اعلی بھی اسی لیئے منتخب کئے گئے کہ وہ قوم پرست تھے اور ناراض قوم پرستوں سے بات چیت کرنا ان کے لیئے آسان تھا۔ اچکزئی اپنے گورنر بھائی سے پوچھ کر قوم کو اعتماد میں ضرور لیں کہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کس حدتک سنگین ہے اور کیا اس وجہ سے بھی پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہے یانہیں۔ شرم الشیخ میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور من موہن سنگھ کی ملاقات ہوئی تھی تو اس میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر سخت احتجاج کیا گیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی ریکارڈ پر ہیں کہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت خطرناک رخ اختیار کر رہی ہے۔ دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد جان محمد جمالی صاحب بلوچستان کے وزیر اعلی بنے تھے، وہ بھی چیخ اٹھے تھے کہ صوبے میں بھارتی را کی زیر سرپرستی دہشت گردی کے کیمپ قائم ہیں۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ قندھار میں بھارتی قونصل خانہ را کے شر پسندوں میں اسلحہ اور پیسہ بانٹ رہا ہے۔ را کے ایک سابق سربراہ نے بھی اپنی کتاب میں اس امرکا انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم شاستری کو جب علم ہوا کہ را کی طرف سے پاکستان میں پیسے بانٹے جارہے ہیں تو وہ سخت ناراض ہوئے مگرانہیں بتایاگیا کہ ایسے عناصر کو دیئے جارہے ہیں جو پاکستان کو بھارتی عزائم کی تکمیل اور مفادات کے مطابق چلنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ رازوں کی تہ تک پہنچنے والے جناب اچکزئی کچھ اپنے صوبے کے بارے میں بھی لب کشائی فرمائیں، کہ یہ ان کے گھر کا ہی نہیں، پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔
جہاں تک حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کا تعلق ہے تو وہ اندھے کوبھی نظر آرہے ہیں کیونکہ فوج کو مطعون کرنے والے میڈیا ہاؤس کے ساتھ حکومت قدم جما کر کھڑی ہے۔ فاٹا میں آپریشن سے فوج کو روک دیا گیا تھا، سوفوج اس سے رکی ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ دہشت گرد کراچی ایئر پورٹ کا ناطقہ بند کرنے میں کامیاب ہوگئے، اچکزئی نے پوچھا ہے کہ ازبک اور تاجک کہاں سے آ گئے، وہ اس سوال کا جواب فواد حسن فواد سے حاصل کریں جو سرکاری امن کمیٹی کے سربراہ ہیں، کراچی ایئر پورٹ پر ان کا چہرہ جس طرح نوچا گیا ہے، شاید اسی سے اچکزئی بھی خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات پر حکومت کی سوچ کچھ اور ہے اور قوم اور فوج کی سوچ کچھ اور قوم مودی سے خوف زدہ ہے، وزیراعظم اس کے لیئے ساڑھیاں تحفے میں بھجوارہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے نظریہ پاکستان سے انحراف کیا ہے۔ فوج اگر اس نظریئے پر قائم ہے تو اسے اختلاف نہیں کہا جا سکتا، اختلاف تو تب ہوتا جب فوج اپنی قوم کی رائے سے اختلاف کی جسارت کرتی۔ یا بانی پاکستان کی رائے سے انحراف کرتی۔
ویسے اچکزئی صاحب کو ان تمام امور پراپنا موقف بھی واضح کرنا چاہئے کہ کیا وہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، کیا وہ ان کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتے ہیں، کیا وہ بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کی پینگیں چڑھانے کے حق میں ہیں یا کشمیری عوام کی آزادی کے موقف کے ساتھ ہیں۔ اور پاکستانیوں کا کشمیری دریاؤں کے پانی پر کوئی حق تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ یعنی وہ فوج کے ساتھ ہیں یا حکومت کے ساتھ انسان کی اپنی کوئی رائے بھی تو ہونی چاہئے۔
(14 جون 2014ء)