خبرنامہ

اکیلی فوج لڑے گی یا قوم بھی۔۔اسداللہ غالب

لگتا ہے یہ جنگ بھی جھوٹ کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔پینسٹھ میں بھارت نے دعوی کیا کہ اس کی فوج لاہور کی انارکلی میں مٹر گشت کرر ہی ہے، اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس کی فوج قصور پر قبضہ کر چکی ہے۔اب پھرا س نے جھوٹ کی گولہ باری شروع کر دی ہے، پہلے اس نے اوڑی کا ڈرامہ رچایا، پھر سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کر ڈالا۔ پینسٹھ میں خبر کے ذرائع محدودتھے، آج اس قلت کا سامنا نہیں ہے۔پھر بھی جھوٹ پر جھوٹ سننے میں آ رہا ہے۔اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ جھوٹ کا پول کھولا جا سکے۔ ہمارے میڈیا میں بھی چودہ بھارتی فوجی مارنے کی خبر اچھالی گئی ہے،اوڑی میں اٹھارہ مرے تھے تو لاشیں اگلے رروز ان کے گھرو الوں کے سپرد کی گئی تھیِ ،اب چودہ مرے ہیں تو ان کی لاشیں کہاں ہیں۔ہمارے دو شہید ہوئے تو ان کی تصویریں شائع ہوئیں اور ان کے جنازے بھی پڑھے گئے۔
جنگ میں نفسیاتی حربے تو استعمال کئے جاتے ہیں مگر جھوٹ اور بے بنیاد دعوے آج کی دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔
ایک حقیقت جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ، وہ ہے کشمیر میں جاری انتفاضہ ۔ پچاسی روز ہونے والے ہیں ، کشمیریوں کی تحریک حریت جوبن پر ہے، شہادتیں،زخم ، اندھا پن، کرفیو، بھوک، کوئی حربہ ،حریت کے جذبوں کو شکست نہیں دے سکا۔یہ ہے وہ حقیقت جو روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ہم اس حقیقت کو دنیا تک نہیں پہنچا سکے۔بھارت کا جھوٹ ہر جگہ پھن لہرا رہا ہے۔بھارت نے الٹا پاکستان کو بدنام کرنے کی ٹھان رکھی ہے، وہ ہمیں دہشت گردی کے لئے مطعون کررہا ہے، ہمار ا وہ پانی بند کر رہاہے جو ایک عالمی معاہدے کے تحت ہمارا حق ہے۔ اس نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کا نہ صرف خود بائیکاٹ کیا بلکہ افغانستان، بھوٹان ا ور بنگلہ دیش سے بھی کروا دیا۔ جس سے سارک کا اجلاس ملتوی کرناپڑا، بھارت کا کہناہے کہ وہ پاکستان کو تنہا کر کے رکھ دے گا،ا س کے لئے وہ فضائی معاہدہ بھی ختم کرنا چاہتا ہے، یہ ہتھکنڈہ اس نے دو ہزار دو میں بھی استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے نیپال کی سارک کانفرنس میں جنرل مشرف، چین کے اوپر سے پرواز کر کے ایک روز کی تاخیر سے کٹھمنڈو پہنچ پائے تھے۔اسوقت مشرق بعید کے لئے ہماری ساری پروازیں بند ہو گئی تھیں اور دنیا نے بھی کراچی کے فضائی روٹ سے منہ موڑ لیا تھا۔
یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم بھارت کا ہر وار سہنے پر مجبور ہیں کیونکہ سفارتی محاذ پر ہم پہلے ہی سے تنہا ہیں، بھارت ہمیں مزید تنہا کیا کرے گا۔
قومی سطح پر ہمار اشیرازہ ا س قدر پہلے کیا بکھرا ہو گا۔پانامہ لیکس کے اشو پر تما م سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں۔ صرف احتجاج کے طریقے پر اختلاف ہے، تحریک انصاف کریز سے باہر جا کر وزیرا عظم کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب پاک بھارت جنگ کا بگل بجا ہی چاہتا ہے مگر تحریک انصاف اپنے ارداوں سے باز نہیں آئی۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جب تحریک انصاف کلائمیکس تک پہنچتی ہے تو کوئی انہونی ہو جاتی ہے، تاریخ کا طویل تریں دھرنا،پشاور اے پی ایس میں دہشت گردی کی وجہ سے ختم کرنا پڑا، اب بھارت نے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک داغ دی ہے، تحریک انصاف سر پیٹ کے رہ جاتی ہے کہ دہشت گرد اور بھارت کس کی مدد کر رہے ہیں۔شاید اسی مخمصے میں تحریک انصاف نے تیس ستمبر کااحتجاجی دھرنا منسوخ نہیں کیا حالانکہ یہ وقت قوم کے اتحاد کا ثبوت دینے کا تھا، باہمی سر پھٹول کا نہیں تھا۔پنجاب کے چیف منسٹر نے کہا بھی کہ آؤ واہگہ پر مل کردھرنا دیتے ہیں۔
اگر ہم بھارت کو دشمن سمجھتے ہیں توا سکے مقابلے میں اکٹھے کیوں نہیں ہوتے۔ہمیں ان کے کلچر سے پیار کیوں ہے، ہم ان کی فلموں کے دلدداہ کیوں ہیں۔اپنے آپ کو اس کے رنگ میں کیوں رنگ لیا ہے، ہمارے گلوکاروں کو دھکے دیئے گئے تو وہ بھارت سے نہیں نکلے، یہ کیساعشق ہے ہمیں بھارت سے، ہمار ا ٹریڈر بھارت سے تجارت کا خواہاں ہے،براہ راست نہیں ہو سکتی تو دوبئی اور ہانگ کانگ کے راستے ہو رہی ہے، بھارتی مال ہمارے شاپنگ مال میں سجا ہوا ہے۔ہماری شادیاں بھارتی ملبوسات اور گانوں کے بغیرانجام نہیں پاتیں۔اس طرح تو لڑ لی ہم نے بھارت سے لڑائی، دعا کریں کہ یہ لڑائی نہ لگے ۔
پینسٹھ میں قوم نے لڑائی کس طرح لڑی، فوج تو یہ لرائی لڑنے کے لئے محاذ پر موجود تھی ہی، عوام بھی لاٹھیاں لے کر وہاں پہنچ گئے، گھروں کی بیبیوں نے پرا ٹھے پکائے، ان پر مکھن کے پیڑے رکھے، لسی کے کٹورے بھرے اور فوجیوں کو تلاش کر کر کے پیش کرنے لگیں، مورچے کھودنے میں عوام نے مدد کی،گولہ بارود اٹھانے میں عوام نے اپنے کندھے پیش کئے اور فضا میں ڈاگ فائٹ شروع ہوتی تو عوام چھتوں پر چڑھ کر بو کاٹا بو کاٹا کے نعرے لگاتے۔قومیں جنگ اس طرح لڑتی ہیں۔
اور ہمارے شاعروں، ادیبوں، دانش وروں ، صحافیوں نے قوم کا لہو گرمانے کے لئے ترانے لکھے، اس قدر لکھ ڈالے گئے کہ ریڈیو کے اسٹوڈیو کم پڑ گئے تھے۔تب حکومت میں ایک الطاف گوہر تھے، ایک قدرت اللہ شہاب تھے ، آج عطاا لحق قاسمی ہیں، عرفان صد یقی ہیں، انعام الحق جاوید ہیں، شعیب بن عزیز ہیں،محمد مالک ہیں،ابصار عالم ہیں، صوفیہ بیدار ہیں،ڈاکٹر صغری صدف ہیں۔ الغرض شاعروں، دانش وروں اور صحافیوں کی ایک فوج حکومت میں ہے تو ان کے لیے قوم کا لہو گرمانے میں کیا مشکل حائل ہے۔ پینسٹھ میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے ایک لشکر تشکیل دے لیا تھا، جمیل الدین عالی،ناصر کاظمی، جون ایلیا، احسان دانش، اشفاق احمد،ماہر القادری،نعیم صدیقی،رئیس امروہوی،تنویر نقوی،قتیل شفائی،صوفی غلام مصطفی تبسم،طفیل ہوشیار پوری،ڈاکٹر رشید انور،ساقی جاوید،فیاض ہاشمی، مظفر وارثی،صہباختر، جوش ملیح آبادی،حمایت علی شاعر،مسرور انور، مشیر کاظمی،قیوم نظر،یوسف ظفر، محشر بدایونی،محمود شام اور نجانے کتنے ہی شاعروں اور ادیبوں نے محاذ جنگ سنبھالا اور یہ محاذ تھا قوم کو متحد کرنے اور غازیوں کے حوصلے بلند کرنے اور شہیدوں کے شاہنامے لکھنے کا۔آج اس طرف ابھی پہلا قدم ہی نہیں اٹھا، البتہ ایک مثبت تبدیل �آئی ہے کہ پنجاب کے چیف منسٹر بھارت کی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی زد میں آنے والے شہید کے گھر فیصل آباد پہنچے ہیں ۔وزیر اعظم نے بھی امریکہ سے و اپس آکر کابینہ کااجلاس بلا لیا ہے۔مسلم لیگ ن کے پاس سب سے زیادہ ووٹر ہیں وفاق، پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر میں اس کی حکومت ہے ،ا سلئے اسے قوم کی راہنمائی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔اتفاق اور اتحاد کی فضا پیداکرنے کے لئے دل بڑا کر کے تما م سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے رابطہ بڑھانا چاہئے، ہو سکے تو آل پارٹیز کانفرنس کی جائے، اگر یہ قوم ایوب خاں کی فوجی حکومت کے سائے تلے اکٹھی ہو سکتی تھی تواب جمہوریت میں تو یہ کام کٹھن نہیں ہونا چاہئے۔یہی وہ محاذ ہے جس پر جیتنے سے ہم ہرجنگ جیت سکتے ہیں اور اگرا س محاذ پر ہی دم توڑ بیٹھے تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
ایک تجویز ہے کہ ہمیں باقی سال ڈیڑھ سال کے لئے وار کیبنٹ تشکیل دے لینی چاہئے،اس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کو شامل کر لیا جائے۔بھارت ایٹم بموں سے تو ڈرتا ہی ہے مگرا سے اصل ڈراس وقت ہو گا جب وہ ہمیں اکٹھے دیکھے گااور اس میں تاخیر کیوں۔یہ ہے قومی اتحاد کا ایٹم بم!!